ہمارے ہاں متحدہ عرب امارات میں اِس جمعے کا خطبہ دفاع وطن کے موضوع پر تھا۔ یہاں ہر سال چھ مئی کو مسلح افواج کے اتحاد کی یاد کا دن منایا جاتا ہے جس میں ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ وطن عزیز کی موجودہ نازک صورتحال میں یہ خطبہ ہماری قوم اور فوج دونوں کے لیے بہت اہم ہے، اس لیے یہاں مناسب ترمیم کے ساتھ اس خطبے کے کچھ معروضات پیش کیے جا رہے ہیں۔
اصحاب ایمان! وطن ایک نعمت ہے اور آپ کیا جانیں کہ وطن کتنی عظیم نعمت ہے! یہ خیر و برکت کا گہوارہ، بھلائیوں کا مسکن، سخاوت کا سر چشمہ، رشتہ داروں کی اجتماع گاہ اور دوستوں اور پیاروں کا ایک دوسرے سے ربط اور تعلق کا ایک خوبصورت مقام ہے، جس کی زمین پر عبادات کا قیام ہوتا ہے اور جس کے گوشے گوشے سے جذبات اور احساسات وابستہ ہوتے ہیں۔ وطن آباء واجداد کی میراث بھی ہے اور اولاد کے ذمے ایک امانت بھی ہے۔ اس کی محبت فطری جذبہ بھی ہے اور نبوی خصلت بھی ہے، چنانچہ ہم سب کے محبوب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی اپنے وطن مکہ مکرمہ سے محبت اور تڑپ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ سے ہجرت فرمائی، تو ایسی دکھ بھری نگاہوں سے اسے الوداع کیا جو دلوں کو پگھلا دیں اور ایسے الوداعی کلمات ارشاد فرمائے جس سے آنکھیں چھلک پڑیں۔ آپ نے فرمایا: اے مکہ کتنا پاکیزہ شہر ہے تو، اور تو کتنا مجھے محبوب ہے، میری قوم نے مجھے تجھ سے نہ نکالا ہوتا تو میں تیرے علاوہ کہیں اور نہ رہتا۔
جی ہاں میرے بھائیو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو الوداع تو کیا، مگر آپ کا دل اس سے جڑا رہا، جسدِ اطہر تو جدا ہوا، مگر دل اس کی خاک سے وابستہ رہا۔ اس بات کے پیش نظر کہ وطن سے سچی محبت ہی اس کی تعمیر کا سنگ بنیاد ہے، اس کی ترقی کا رکن رکین اور اس کی خوشحالی اور عروج کا نقطہ آغاز ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ تشریف لاتے ہی سب سے پہلے جو عمل فرمایا وہ یہ تھا کہ آپ علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے یہ دعا فرمائی کہ وہ آپ اور ان کے اصحاب کے دلوں میں مدینہ کی محبت ڈال دے، چنانچہ فرمایا: اے اللہ ! ہمارے دل میں مدینہ کی ایسی ہی محبت پیدا کر دے، جیسی تو نے مکہ کی محبت ہمارے دل میں پیدا کی ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
وطن ایک ایسی نعمت ہے جس کی عظمت کے بیان کے لیے نہ الفاظ کافی ہیں اور نہ ہی ہمارے کلمات اس کا احاطہ کر سکتی ہیں، ہم تو فقط دعاؤں اور چند کلمات کے ذریعے اس کی محبت کا محض اظہار کر سکتے ہیں کہ اے میرے رب اسے امن کا گہوارہ بنادے۔ اس سے محبت کی عملی تصویر مگر ہم اپنی کاوشوں اور کار کردگی کے ذریعے ضرور پیش کرسکتے ہیں، کیونکہ وطن ہمارے پاس ایک امانت ہے، جس کی نگہبانی تادم حیات ہم پر لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی صفات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: اور جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدہ کا لحاظ رکھنے والے ہیں۔
میرے بھائیو! ہمیں اس وطن کے حقوق ادا کرنے ہیں اور اس کے تئیں جو ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں ان کو نبھانا ہے۔ یوں تو وطن عزیز کے بے شمار حقوق ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم یہ ہیں کہ اس کے دینی تشخص کو برقرار رکھا جائے، اس کی قومی زبان سے دامن گیر رہا جائے، اس کی شناخت پر فخر کیا جائے، اس کے اداروں کا احترام بجا لایا جائے، اس کے قوانین کی پاسداری کی جائے اور اس کی ترقی و سربلندی کے لیے بھر پور کوشش کی جائے، کیونکہ وطن ایک درخت کی مانند ہے جو بے لوث خدمتوں کے پانی سے سیراب ہوتا ہے اور جاں نثاروں کی محنت سے پروان چڑھتا ہے۔
اسی طرح وطن کے حقوق میں سے ایک حق، وطن سے سچی وابستگی رکھنا بھی ہے، کیونکہ یہی جذبہ اسے مضبوطی، طاقت، عظمت اور سربلندی عطا کرتا ہے۔ وطن کے حقوق میں سے عظیم ترین حق اس کا دفاع ہے۔ چاہے وہ دفاع چند ایسے کلمات کے ذریعے ہو جو وطن کی روح اور اس کی اصل اقدار کو بیان کریں، اس کی خوبیاں ظاہر کریں، اس پر لگائے گئے بہتانوں کا رد کریں اور من گھڑت افواہوں کا راستہ روکیں۔
اسی طرح یہ دفاع جان و مال کی قربانی دے کر بھی ہوتا ہے، تاکہ وطن کی سربلندی ہو، اس کے وسائل کی حفاظت ہو اور اس کو حاصل شدہ کامیابیوں اور ثمرات کا تحفظ ہو۔ خلاصہ یہ کہ دفاع وطن ایک عظیم شرف اور ایک مبارک نبوی عمل ہے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ بہادر تھے، ایک رات اہل مدینہ پر ایک آواز سن کر خوف چھا گیا تھا، تو وہ آواز کے تعاقب میں نکلے، تو کیا دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پہلے ہی اس جگہ پہنچ چکے تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: خوف نہ کرو، خوف نہ کرو!۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے بہترین مثال قائم فرمادی۔ آپ کا یہ طرز عمل وطن کی سلامتی اور اطمینان کے لیے ایک مؤثر ترین درس ہے۔ آج ہمیں چاہیے کہ ہم ہر حوالے سے اپنے وطن کا دفاع کریں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں ہر نعمت سے نوازا ہے۔ ہمارے لیے اور ہماری اولاد کیلئے یہاں سب کچھ ہے۔ ہم ہی اس کا حال اور مستقبل ہیں، ہم ہی اس کا قلعہ اور طاقت اور ہم ہی اس کی ڈھال اور حفاظت ہیں۔
بلاشبہ ہماری یکجہتی، مضبوطی، وطن سے سچی وابستگی، اس کے حکمرانوں کی اطاعت، یہ سب مل کر ہی دشمن کی چالوں کو ناکام بناتے ہیں، سازش کرنے والوں کی سازشوں کا سد باب کرتے ہیں اور وطن میں استحکام، سکون، امن اور اطمینان کو قائم رکھتے ہیں، یہ دین اور زمین کی بھی حفاظت کرتے ہیں اور نسل اور آبرو کو بھی محفوظ بناتے ہیں، لہٰذا اپنے رب پر بھروسہ مضبوط کریں، اپنے وطن سے وفاداری کو محکم کریں اور جائز امور میں اپنے حکمرانوں کی اطاعت کریں۔ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور تم میں سے جو لوگ صاحب اختیار ہوں ان کی بھی۔
اے مخلصین وطن! موجودہ حالات میں ہمیں متحد ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم ان عظیم محافظوں کی شکر گزاری کریں جو اس وطن کے امن و امان کے نگہبان اور اس کے زمین و آسمان کے پہرہ دار ہیں۔ مبارک ہو انہیں ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت، جنہوں نے فرمایا: دو آنکھیں ہیں جنہیں جہنم کی آگ نہیں چھوے گی، ایک وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے روئی، اور دوسری وہ آنکھ جو رات کے وقت اللہ کی راہ میں پہرہ دیتی ہے۔