مصنوعی ذہانت بطور مصنف؟

آخری قسط:
قارئین اب آپ ان تینوں مثالوں میں کیلکولیٹر، ویب سائٹ اور تحریری مواد کی جگہ مصنوعی ذہانت یا چیٹ جی پی ٹی کا لفظ استعمال کیجئے، نتیجہ وہی برآمد ہوگا کہ پوری دنیا کے سائنسدان، محققین، اساتذہ اور اعلیٰ سائنسی تعلیم سے وابستہ لوگ اسے علمی سرقہ ہی سمجھیں گے اور یونیورسٹیوں میں ان طلبہ کا وہی انجام ہوگا جو کیلکولیٹر، ویب سائٹ اور تحریری مواد استعمال کرنے والوں کا ہوتا ہے۔

اس مثال سے قارئینپر یہ واضح ہوجانا چاہیے کہ مصنوعی ذہانت سے خلاصہ لکھوایا جائے، نہایت ہی اعلی معیار کا سائنسی مقالہ لکھوایا جائے، یا پھر کیلکولیٹر کی طرح مشکل ریاضی کے مسائل حل کروائے جائیں، بہرصورت علمی سرقہ ہی سمجھا جائے گا تاوقتیکہ ممتحن کی طرف سے واضح طور پر اس کی اجازت نہ دی گئی ہو۔ اب قارئین خود ہی فیصلہ فرمالیں کہ جو لوگ مصنوعی ذہانت کی پاکستان کے عصری تعلیمی اداروں میں اور مدارسِ دینیہ میں ترویج و اشاعت کررہے ہیں ان کو کس قدر مغالطہ ہوگیا ہے اور ایسے لوگ عالمی سائنسی دنیا سے کس قدر نابلد واقع ہوئے ہیں۔

خلاصہ مضمون اور چند گزارشات
ہم نے اس مضمون میں ٹھوس سائنسی حوالہ جات کے اقتباسات پیش کیے ہیں جن سے یہ امور واضح ہوتے ہیں کہ :
مشین (کمپیوٹر، روبوٹ، اور ان پر چلنے والے سافٹ وئیر) انسانی علم کے متبادل نہیں ہو سکتے۔
مشین کو بطور مصنف سائنسی تحقیقی مقالوں میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔
مصنف کے لیے ضروری ہے کہ قابلِ شناخت انسان ہو۔
مصنف کے لیے ضروری ہے کہ اس نے سائنسی تحقیقی مقالے میں خاطر خواہ کام انجام دیا ہو۔
مصنف شائع شدہ سائنسی تحقیقی مقالے میں شائع شدہ مواد کی مکمل ذمہ داری لیتا ہو، کیونکہ مصنوعی ذہانت ایسا مواد تیار کر سکتی ہے جو مستند لگتا ہو اور اصل میں وہ غلط، نامکمل اور متعصبانہ ہو، لہٰذا مصنفین کو مصنوعی ذہانت کے استعمال میں خاص احتیاط برتنی چاہیے۔

اگر مصنف مصنوعی ذہانت کو اور بالخصوص جنریٹیو مصنوعی ذہانت کو تحریر لکھنے میں استعمال کریں تو ان ٹیکنالوجیز کو صرف تحریر کو واضح کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ اس تحریر کو پڑھنا آسان ہو جائے، نہ کہ تصنیف کے بنیادی کاموں کو ہی مصنوعی ذہانت کے ذریعے متبادل کے طور پر کروایا جائے، مثلاً اس سے سائنسی و تدریسی مواد تحریر کروانا، طبی سفارشات، سائنسی نتائج اخذ کرنا، یا کلینکل تجاویز دینا شا مل ہیں۔ اگر مصنف مصنوعی ذہانت کو اور بالخصوص جنریٹیو مصنوعی ذہانت کو صرف تحریر کو واضح کرنے کے لیے استعمال کریں تو بعض پالیسی ساز اداروں کے مطابق مصنف کو واضح طور پر اپنے مقالوں میں یہ تحریر کرنا ہوگا کہ کس حد تک انہوں نے جنریٹیو مصنوعی ذہانت کو استعمال کیا اور شائع شدہ مقالوں میں یہ تحریر شامل ہوگی۔

دنیا کے مستند اور بڑے سائنسی تحقیقی ادارے، یونیورسٹیاں، کمپیوٹر سائنس کی تدریسی و تحقیقی سوسائٹیز، معیاری سائنسی پبلشرز، معیاری کانفرنسز، کمیٹی آن پبلی کشن ایتھکس یعنی کوپ، ورلڈ ایسوسی ایشن آف میڈیکل ایڈیٹرز (ویمی) اور دیگر عالمی معیار کے معتبر اور مصنوعی ذہانت کے ماہرینِ فن، سائنسدان و محققین بالاتفاق مصنوعی ذہانت کو بطور مصنف تسلیم نہیں کرتے اور وہ مصنوعی ذہانت، جنریٹیو اے آئی، چیٹ باٹس اور دیگر سافٹ وئیرز کے بطور مصنف تحقیقی مقالوں میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دیتے اور اس کے لیے پالیسیاں مرتب اور نافذ کر چکے ہیں۔

مدارسِ دینیہ کے طلبہ، اساتذہ کرام اور منتظمین حضرات سے گزارش ہے کہ وہ مصنوعی ذہانت کی ترویج و اشاعت کرنے والوں کی باتوں سے کوئی اثر نہ لیں بلکہ مدارسِ دینیہ کے روایتی طریقہ تعلیم و تدریس، اسلوبِ تدریس اور قواعد و ضوابط امتحانات پر سختی سے کاربند رہ کر اپنی علمی و تحقیقی استعداد کو مزید پروان چڑھائیں اور مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر کو علومِ دینیہ سے متعلق تصنیف و تالیف اور تحقیق کے کاموں میں ہرگز استعمال نہ کریں۔