مصنوعی ذہانت بطور مصنف؟

چوتھی قسط:
سوم یہ کہ ان سافٹ وئیرز کی جواب دینے کی صلاحیت بالکل ناپائیدار ہے کیونکہ ان میں ہیلوسینیشن پائی جاتی ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ ان سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں ان سافٹ وئیر سے مختلف جوابات آتے ہیں اور سوال کے اسلوب سے جواب بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ اصولی طور پر جب سوال کسی ایک حقیقت سے متعلق ہے تو چاہے سوال کرنے کے اسلوب مختلف ہوں، جواب اسی حقیقت کو سامنے رکھ کر آنا چاہیے مگر ایسا نہیں ہوتا کیونکہ یہ سافٹ وئیرز تکنیکی طور پر نیچرل لینگویج پروسسنگ کے ذریعے کام کرتے ہیں۔

چہارم یہ کہ ان سافٹ وئیرز کے بتائے گئے جوابات کی نہ دنیاوی قوانین میں کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی کوئی ملک اور ادارہ ان کو قابلِ اعتبار سمجھتا ہے، مثلاً چیٹ جی پی ٹی سے کیا کوئی پوچھا گیا سوال کسی ملک کے سپریم کورٹ میں تسلیم کیا جائے گا؟ نہیں، ہرگز نہیں،پھر کیا وجہ ہے یہ جوابات جو اس دنیا کے کورٹس کچہریوں میں تو قابلِ قبول نہیں ہوں، وہ مختلف دارالافتاء اور مفتیانِ کرام کے یہاں قابلِ اعتبار ٹھہر جائیں؟

سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ مدارسِ دینیہ کے اندر جب طلبہ کو چیٹ جی پی ٹی یا دیگر مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر و ایپلی کیشنز سکھائی جائیں گی اور طلبہ سے روایتی طریقہ تدریس و تعلیم سے ہٹا کر مصنوعی ذہانت کو استعمال کروایا جائے گا تو اس سے ان کے اندر علمی وتحقیقی استعداد نہ بن پائے گی اور وہ نادانستگی میں علمی سرقہ کی باقاعدہ تربیت لے رہے ہوں گے۔ دیکھئے مغربی ترقی یافتہ ممالک میں چیٹ جی پی ٹی یا دیگر مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر و ایپلی کیشنز کے امتحانات میں استعمال کی سختی کے ساتھ پابندی عائد کی گئی ہے۔ اسکولوں، کالجز اور یونیورسٹیوں میں طلبہ اگر چیٹ جی پی ٹی یا دیگر مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر و ایپلی کیشنز کو استعمال کرکے کوئی مواد تیار کرتے ہیں تو اسے یکسر مسترد کر دیا جاتا ہے بلکہ اس عمل کو علمی سرقہ گردانا جاتا ہے۔ راقم کو سخت حیرانی ہوئی جب ایک پاکستانی خاتون (جو پی ایچ ڈی بھی ہیں اور ریسرچ کے موضوع پر ایک یوٹیوب چینل چلاتی ہیں) پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں جاکر مصنوعی ذہانت کی ترویج و اشاعت کر رہی ہیں اور باقاعدہ طور پر یونیورسٹی کے طلبہ کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے تصنیف کرنے کا عمل سکھا رہی ہیں، اس کی مشق کروا رہی ہیں اور یہ بھی سکھا رہی ہیں کہ جب آپ مصنوعی ذہانت سے کچھ مواد تیار کریں تو عالمی سطح پر چونکہ ایسے مواد کو پکڑا جا سکتا ہے لہٰذا کس طریقے سے آپ اس علمی سرقہ سے بچ سکتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ علمی سرقہ سکھانے کے لیے طلبہ اور یونیورسیٹوں سے بھاری فیس بھی وصول کر رہی ہیں۔

ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ چیٹ جی پی ٹی یا دیگر مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر و ایپلی کیشنز کے استعمال سے سستی، کاہلی، اور کام چوری کو طلبہ میں رواج دیا جائے گا اور ان کے اندر علمی گہرائی اور صحیح تحقیق کرنے کا جذبہ ختم ہوتا چلا جائے گا اور وہ چیٹ جی پی ٹی یا دیگر مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر و ایپلی کیشنز پر اپنی معلومات کا انحصار کرنے لگیں گے جو من گھڑت، جھوٹی اور حقائق کے منافی معلومات فراہم کرتی ہیں۔

علوم الحدیث اور مصنوعی ذہانت
ایک نیا چیلنج امت مسلمہ کے سامنے سر اٹھائے کھڑا ہے اور وہ ہے مصنوعی ذہانت کا علوم الحدیث میں استعمال۔ آسان الفاظ میں مصنوعی ذہانت کے پروگرامز نعوذ باللہ من گھڑت احادیث بنا سکتے ہیں اور اس کے لیے پہلے ذخیرہ احادیث سے ان کمپیوٹر پروگرامز کی ٹریننگ (تربیت)کی جائے گی اور جب یہ مصنوعی ذہانت کے پروگرامز احادیث کے اسلوب تحریر کو سمجھ جائیں گے تو پھر اسی طرز کا کلام (احادیث) بنانے کی کوشش کریں گے۔ اس فتنے سے بچنے کا حل ہمیں پہلے ہی سے معلوم ہے اور وہ ہے اسناد، سینہ بہ سینہ علوم کی منتقلی اور متخصصین فی علوم الحدیث تیار کرنا۔ ماضی میں بھی باطل قوتوں کی جانب سے من گھڑت احادیث پھیلائی گئی تھیں اور اس کے تدارک کے لیے علمائے کرام نے اصول مرتب فرمادیے ہیں۔

ہمیں دراصل اپنی اصل سے جڑے رہنا ہے اور وہی طریقہ کار علومِ دینیہ کو محفوظ و منتقل کرنے کے لیے استعمال کرنے ہیں جو خیر القرون میں اختیار کیے گئے تھے۔ آسان الفاظ میں علوم الحدیث مثلا جرح و تعدیل، رجال احادیث، ناسخ و منسوخ کا علم، علم الحدیث کی انواع، اصول حدیث و دیگر علوم کو ان کی اصل پر قائم رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ نیز متخصصین فی علوم الحدیث کو نہایت سختی پر اکابرین کی طرز پر جمتے ہوئے علوم الحدیث کی خدمت کو جاری رکھنا ہوگا۔ علوم الحدیث کی خدمت کا کام علمائے کرام کے دائرہ کار میں آتا ہے اور بڑے احسن طریقے سے وہ اپنی اس ذمہ داری کو ادا کررہے ہیں الحمدللہ۔ مسلمان سائنسدانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بھی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت کی کمزوریاں اور خامیاں علمائے کرام اور عوام الناس کے سامنے پیش کریں اور اپنی سائنسی تحقیق کو امت مسلمہ اور انسانیت کے نفع کے لیے استعمال کریں۔

مصنوعی ذہانت اور علمی سرقہ
ایک آخری مثال پیش کرکے ہم اپنے مضمون کا اختتام کرتے ہیں۔ تصور کریں کہ زید ایک طالبعلم ہے اور امریکا کی کسی یونیورسٹی میں ماسٹرز آف انجینئرئنگ میں داخلہ لیتا ہے۔ پہلے سال کے اختتام پر ایک مضمون کا امتحان ہوتا ہے۔ امتحان گاہ میں پرچہ حل کرتے ہوئے اس طالب علم کے پاس سے نگران عملہ نقل کا مواد برآمد کرلیتا ہے۔ دراصل امتحانی پرچہ میں ایک سوال کیا گیا تھا کہ فلاں انجینئرئنگ کے مسئلے کے بارے میں تفصیل بیان کریں اور اس کے لیے ایک صفحہ کا خلاصہ لکھیں۔ زید بجائے اس کے کہ وہ یہ خلاصہ خود تحریر کرتا، وہ اپنے ساتھ نقل کا مواد لے کر گیا تھا جس میں یہ خلاصہ درج تھا۔ دوسری مثال بکر کی لیتے ہیں، وہ ماسٹرز آف سائنس میں برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لیتا ہے۔ ماسٹرز کی ڈگری کے حصول کے لیے اسے ایک مقالہ تحریر کرنا تھا۔ وہ نوے صفحات کا نہایت ہی عمدہ مقالہ جمع کرواتا ہے جس میں نہایت عمدہ اسلوب اختیار کیا گیا ہوتا ہے، حتی کہ سائنس کے اس موضوع پر دلائل اور حوالہ جات بھی لکھے ہوتے ہیں۔ مقالہ جانچنے کی جیوری کے سامنے جب وہ پیش ہوتا ہے تو وہ اس مقالہ سے متعلق جوابات دینے پر قادر نہیں ہوتا۔ ممتحن حضرات جب مزید تحقیق کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سارا مقالہ انٹرنیٹ پر موجود ویب سائٹ کو پیسے دے کر لکھوایا گیا ہے۔ تیسری مثال بیچلرز کے ایک طالبعلم عثمان کی لیتے ہیں جو آسٹریلیا میں فزکس کے شعبے میں بیچلر کرنے گیا تھا۔ امتحان گاہ میں اس کے پاس سے کیلکولیٹر برآمد ہوتا ہے جس کو استعمال کرنے کی صراحتاً ممانعت تھی۔

یہ تینوں مثالیں علمی سرقہ، بددیانتی اور خیانت کے زمرے میں آتی ہیں اور یہ یونیورسٹیاں ان تینوں طالب علموں کی سخت پکڑ کرتی ہیں۔ بعض یونیورسٹیاں طالب علم کو پورے سال کے لیے امتحان دینے پر پابندی لگا دیں گی (پہلی مثال) بعض یونیورسٹیاں طالب علم کا یونیورسٹی سے ہی اخراج کردیں گی (دوسری مثال) اور بعض یونیورسٹیاں طالب علم کو اس پرچہ میں فیل کردیں گی (تیسری مثال۔) (جاری ہے)