محمدابوبکرحنفی شیخوپوری
حضور خاتم النبیین والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِ اقدس میں خلاق ِ عالم نے ان تمام اوصاف کو اتمام و اکمال کے ساتھ جمع فرما دیا تھا جو انسان کی شخصیت کو سنوارتے ہیں اور اس کی ہستی کو دلفریب بناتے ہیں ۔بلکہ اہل ِ ذوق نے سیر و سوانح کی کتب میں غوروخوض اورپوری تحقیق و تفتیش کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ تمام انبیا علیہم السلام کو جو اوصاف و کمالات باری تعالی نے جزوی طور پر فردافردا عطا فرمائے تھے وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں کلی طور پریکجا کر دیے تھے۔
بقول ِ شاعر
حسن ِ یوسف ،دم ِ عیسی،ید ِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سراپا حسن و کمال اور منبع ِ خیر و حکمت بن کر عالم ِ زیست میں جلوہ گر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایک عمل قیامت تک کی امت کے لیے بے مثال نمونہ ٹھہرا ،ارشاد ِ خداوندی ہے(اے لوگو)تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے(سور ۃالصف،پ۸۲)یہ بات شک و شبہ سے بالا تراور اذعان و ایقان سے ثابت ہے کہ اوصاف ِ نبوت میں سے ہر وصف انفرادیت و امتیازیت میں بلند مقام کا حامل ہے اور کوئی فرد اس وصف کو اتنی جامعیت سے اپنے اندر سمیٹنے والا نہیں جتنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،لیکن قرآن و سنت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کے علاوہ کسی وصف کو عظیم نہیں کہا گیا ،صرف خلق کو وصف ِ عظیم کے ساتھ متصف کیا گیا،فرمان ِ الٰہی ہے:اے پیغمبر!آپ خلق ِ عظیم کے مرتبے پر فائز ہیں۔(ن:5)
قرآن ِ کریم کا اخلاق ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ بیان العیاذ باللہ !کوئی مفروضہ ،مبالغہ یا بے جا تعریف نہیں ،بلکہ عین ِ حقیقت اور مطابقت ِواقعہ ہے،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو حیات ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے عینی شاہدین میں سے ہیں،اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے دس سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مجھے اف تک نہیں کہااور نہ کبھی یہ فرمایا’’فلاں کام کیوں کیا اور فلاںکیوں نہیں کیا؟‘‘۔ایک صحابی بیان کرتے ہیں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز مانگی گئی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ’’میں نہیں دیتا‘‘۔(اگر ہوئی تو دے دی ،ورنہ دوسرے کسی وقت دینے کا وعدہ کر لیا)ایک اور صحابی رضی اللہ عنہ اخلاق ِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت مزاج نہیں تھے اور نہ عیب جوئی کرنے والے تھے،اگر کسی کی بات اچھی نہ لگتی تو صرف اتنا فرماتے:فلاں شخص کو کیا ہو گیا ہے،اس کی پیشانی خاک آلود ہو جائے”۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا جوتھا گانٹھ لیتے تھے،اپنا کپڑا سی لیتے تھے،اپنے گھر میں ایسے کام کر لیتے تھے جیسے تم میں سے کوئی معمولی شخص کرتا ہے،اپنے کپڑے میں سے جوئیں دیکھ لیتے تھے،اپنی بکری کا دودھ دھولیتے تھے،غرضیکہ پناہر کام کر لیتے تھے”۔ایک موقع پر عرض کیا گیا:حضور!آپ مشرکین کے خلاف بددعا کیجیے!ارشاد فرمایا”میں کوسنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا،رحمت والا بنا کر بھیجا گیا ہوں”۔
حکیم الامت ،مجددالملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ” حیا ت المسلمین” میں ایسے بہت سے واقعات جمع کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بڑی سختی کا برتاؤ کیا گیا ،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی حوصلہ مندی اور وسعت ِ ظرفی کامظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی قسم کے سخت رد ِ عمل سے گریز کیا اور یوں اپنے مخالف کے دل میں اپنا گھر کر لیا۔چند واقعات ِ نذر ِ قارئین ہیں:
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پرنجران کی بنی ہوئی موٹی کنی کی چادر تھی، راستے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دیہاتی ملا ،اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو زور سے پکڑ کر کھینچا اور اپنے قریب کر کے کہنے لگا:اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا وہ مال جو آپ کے پاس موجود ہے ،اس میں سے مجھے بھی دو،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اس حرکت پرکوئی غصہ نہ کیا بلکہ مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا ،پھر اس کو عطاء کرنے کا حکم فرمایا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے طائف کے لمبے قصے میں منقول ہے کہ جب مشرکین ِ طائف نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مار مار کر لہو لہان کر دیا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہاڑوں کے فرشتے سے ملایا،اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام عرض کیا اور کہنے لگا:اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں،اللہ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ مجھے حکم کریں،اگر آپ چاہیں تو میں دونوں پہاڑوں کو ملا کران کو بیچ میں پیس دوں ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”نہیں!بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل میں سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں”۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک طویل قصے میں منقول ہے ایک یہودی کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ کچھ قرض تھا،ایک مرتبہ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تقاضاکیا اور اس قدر اصرار کیا کہ ظہر کے وقت سے لے کر اگلے دن صبح تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد سے گھر نہ جانے دیا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوجواب میں برا بھلا نہ کہا ،صرف اتنا فرمایا”اللہ نے مجھے معاہد اور غیر معاہد پر ظلم کرنے سے سے منع کیا ہے ”وہ یہودی اگلے دن آکر مسلمان ہو گیا اور کہنے لگا: میں آپ کا امتحان لے رہا تھا کہ تورات میں جو آپ کی صفات میں نے پڑھی ہیں ،آپ میں وہ موجود ہیں یا نہیں۔ اس طرح تھے ہمارے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق۔اللہ پاک ہمیں بھی اسوۂ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین