مصنوعی ذہانت بطور مصنف؟ 

تیسری قسط:
ان تما م مستند حوالہ جات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ دنیا کے مستند اور بڑے سائنسی تحقیقی ادارے، یونیورسٹیاں، کمپیوٹر سائنس کی تدریسی و تحقیقی سوسائیٹیز، معیاری سائنسی پبلیشرز، معیاری کانفرنسس، کمیٹی آن پبلیکشن ایتھکس یعنی کوپ، ورلڈ ایسوسی ایشن آف میڈیکل ایڈیٹرز (ویمی) اور دیگر عالمی معیار کے معتبر اور مصنوعی ذہانت کے ماہرین ِ فن، سائنسدان و محققین بِالاتفاق مصنوعی ذہانت کو بطور مصنف تسلیم نہیں کرتے اور مصنوعی ذہانت، جنریٹیو آئے آئی، چیٹ باٹس اور دیگر سافٹ وئیرز کے بطور مصنف تحقیقی مقالوں میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دیتے اور اس کے لیے پالیسیاں مرتب اور نافذ کرچکے ہیں۔
مدارسِ دینیہ، تصنیف و تالیف اور مصنوعی ذہانت
مدارسِ دینیہ کے اندر طلبہ میں علمی رسوخ پیدا کیا جاتا ہے۔ ان مدارسِ دینیہ سے ایسے ایسے نامور علمائے کرام پیدا ہوئے ہیں جن کی اسلامی علوم پر مکمل دسترس حاصل تھی، عالم باعمل تھے اور انہوں نے مختلف دینی علوم میں گراں قدر خدمات انجام دیں ہیں۔ علم تفسیر ہو یا علم فقہ، علم اُصول حدیث ہو یا علم اسماءالرجال۔ علم صرف ہو یا علم اصول فقہ، علم بلاغ ہو یا علم کلام، فلسفہ ہو یا علم طریقت۔ غرض ان علوم میں مدارسِ دینیہ کے اساتذہ کرام طلبہ میں ٹھوس علمی استعداد پیدا کرتے ہیں۔ نیز مدارسِ دینیہ علوم ومعارف کے اِیستادہ مینار ہیں، تقوی کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں اور یہیں سے امتِ مسلمہ کو قرآن و سنت کی صحیح تشریح ملتی ہے۔ ان مدارس سے حفاظِ کرام، شیخ الحدیث، قاری، مفتی، عالم، فقیہ، مفسر، مبلغ، مناظر، عربی علوم کے ماہر، مصنف اور دینی علوم کو اپنی اصلی حالت میں اگلی نسل تک پہنچانے والے رجال اللہ پیدا ہوتے ہیں۔ انہی مدارس سے ہمیں عربی اور اُردو ادب کو فروغ دینے والے بے نظیر علمائے کرام بھی نظر آتے ہیں۔ انہی میں تاریخ دان بھی ہیں اور صرف و نحو کے ماہر بھی اور انہی مدارس سے وہ علمائے کرام بھی تیار ہوتے ہیں جو کہ ہر محاذ پر باطل قوتوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور امتِ مسلمہ کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
ان مدارسِ دینیہ کے طلبہ کرام سے متعلق عوام الناس میں یہ عمومی تاثر ہے کہ یہاں کے طلبہ کرام عصری تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ سے بالکل مختلف ہوتے ہیں اور تقریباً مدارسِ دینیہ کے تمام طلبہ کرام کا مقصد اللہ کی رضا، حسنِ نیت، حسن عمل، حب جاہ و حب مال سے پرہیز، زہد و قناعت، محنتی اور فعال ہونا اور علومِ دینیہ کا حصول ہوتا ہے۔ نیز مدارسِ دینیہ کے طلبہ کرام عصری تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ میں پائے جانے والی برائیوں سے دور ہوتے ہیں جن میں نقل کرکے امتحانات میں پاس ہونا، اعلیٰ عہدوں اور پیسوں کے حصول کے لیے ڈگریاں حاصل کرنا وغیرہ شامل ہے الا ما شاء اللہ۔
تشویش کی بات یہ ہے کہ حال ہی میں کچھ صاحبانِ علم ایک نئی فکر اور سوچ لے کر چلے ہیں کہ مدارسِ دینیہ کے طلبہ کو مختلف اسکلز (ہنر) بھی سکھائے جائیں جن میں مصنوعی ذہانت بطورخاص قابلِ ذکر ہے۔ بلا سوچے سمجھے مصنوعی ذہانت کو مدارسِ دینیہ میں فروغ دینا طلبہ کو اس سے دینی علوم میں رہنمائی لینے کے لیے استفادہ حاصل کرنے کی اجازت دینے سے تعلیمی و تدریسی طور پر کئی مفاسد جنم لے رہے ہیں اور خدانخواستہ مزید مسائل جنم لیں گے۔ لہٰذا ضروری ہے پہلے مصنوعی ذہانت کے استعمال کی حدود متعین کر لی جائے، اصول وضع کر لیے جائیں اور اس بات کا تعین کرلیا جائے کہ کن کن اُمور میں مصنوعی ذہانت کو استعمال کرنے سے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں اور کن امور میں مصنوعی ذہانت کو استعمال کرنے سے طلبہ اور اساتذہ کی کارکردگی پر منفی اثر پڑے گا تاکہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے جو فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ کہیں الٹا نقصان دہ ثابت نہ ہوں۔ اس تناظر میں بعض صاحبانِ علم کی جانب سے مصنوعی ذہانت کو مدارسِ دینیہ میں استعمال کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔
بھرے مجمع میں کھلے عام مدارسِ دینیہ کے طلبہ کرام اور علمائے کرام کو مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر استعمال کر کے تصنیف و تالیف کے مختلف کام انجام دینے کی باقاعدہ تربیتی نشست اور مشق کروائی جا رہی ہے اور یہ اتنی دیدہ دلیری کے ساتھ انجام دیا جا رہا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ماہرینِ فن حیران و پریشان ہیں کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے۔ کبھی اُردو میں چیٹ جی پی ٹی سے مضمون لکھوایا جا رہا ہے تو کبھی خلاصہ، کبھی جمعہ کا خطبہ لکھوایا جا رہا ہے تو کبھی احادیث کی تخریج، کبھی قرآن پاک کا ترجمہ پوچھا جا رہا ہے تو کبھی تفسیر، کبھی تعلیمی نفسیات کے بارے میں اس سے سوالات ہورہے ہیں تو کبھی تعلیمی اسلوب پر۔ کبھی مصنوعی ذہانت کو استعمال کر کے اساتذہ کے لیے کثیر الانتخابی سوالات تیار کروائے جا رہے ہیں تو کبھی امتحانی پرچہ، کبھی اسباق بنوائے جا رہے ہیں تو کبھی کسی موضوع کو آسان الفاظ میں طلبہ کو سمجھانے کے لیے مثالیں پوچھی جا رہی ہیں۔ غرض طلبہ کرام ہوں یا مدرسین، بعض صاحبانِ علم کی جانب سے دونوں ہی طبقوں کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے تصنیفی و تالیفی کاموں کو کروانے کی ترغیب دی جا رہی ہے اور مصنوعی ذہانت کو مدارسِ دینیہ میں اس عنوان سے پیش کیا جا رہا ہے کہ اس سے مدارسِ دینیہ کے طلبہ کرام کی تعلیمی و تحقیقی استعداد مزید پروان چڑھے گی۔ اس سے ان میں تحقیق و جستجو کا شوق مزید بڑھے گا۔ اس سے دنیا بھر کے علوم سے ان کو استفادہ حاصل کرنے کے مزید مواقع میسر آئیں گے اور نتیجتاً وہ مصنوعی ذہانت کو استعمال کرکے مزید موثر انداز میں اسلام کی خدمت کر سکیں گے۔
علمائے کرام کے مطابق مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئر یا ایپلی کیشن مثلاً چیٹ جی پی ٹی، جیمنائی یا کو پائلٹ وغیرہ سے تصنیف و تالیف کے کام لینا اور اسے اپنی تحریر بنا کر پیش کرنا، دینی مسائل، بالخصوص علم الفقہ کے انتہائی پیچیدہ اور سنجیدہ مسائل معلوم کرنا، قرآنِ پاک کی تفسیر و ترجمہ کروانا، احادیث پر جرح و تعدیل کروانا وغیرہ سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ ان مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئرز کے اندر کئی طرح کی ٹیکنیکل خامیاں موجود ہیں۔ دوم یہ کہ آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی رہنے والی زندگی کا مدار اس دنیا کی زندگی کے اعمال پر منحصر ہے۔ اگر اس دنیا میں کوئی اچھا کام کیا تو اس کا بدلہ جنت کی صورت میں ملے گا اور اگر اس دنیا میں کوئی غلط کام کیا تو اس کا بدلہ دوزخ کی صورت میں ملے گا۔ لہذا جب عالمی سائنسی ماہرین واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر اس قابل نہیں ہیں کہ انسانی ذہانت کا مقابلہ کرسکیں اور ان میں کئی خامیاں ہیں تو پھر ان سے دینی رہنمائی لینا، فقہی مسائل پوچھنا، قرآن پاک کی تفسیر و ترجمہ کروانا، احادیث کی وضاحت کروانا ایسا ہے کہ کوئی اپنی آخرت کو خطرے میں ڈال کر اپنی ہمیشہ ہمیشہ کی آخرت کی زندگی کو دا پر لگا دے۔ (جاری ہے)