سرکاری اخراجات کا سفید ہاتھی: خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

سفید ہاتھی وہ شخص یا چیز جس کے غیر ضروری اخراجات نا قابل برداشت حد تک زیادہ یا قابل اعتراض ہوں۔ پرانے وقتوں میں بادشاہ کی طرف سے کسی درباری کو سزا دینا مقصود ہوتا تو اسے تحفتاً ہاتھی بخش دیتے۔ اب یہ درباری کا فرض تھا کہ وہ اس ہاتھی کو اسی طرح خوش و خرم موٹا تازہ رکھے جس طرح اسے شاہی باڑے میں رکھا جاتا تھا یا پھر اس کی خدمت میں کوتاہی کا مرتکب ہو اور بادشاہ کی ناراضگی مول لے۔ چنانچہ ہاتھی کی غذا اور دیکھ بھال پر غریب درباری کا اکثر اتنا صرفہ ہو جاتا کہ رفتہ رفتہ وہ اسے خوش و خرم رکھنے کے چکر میں خود قلاش ہو جاتا۔

سفید ہاتھی کا محاورہ بھی اس تناظر میں وجود میں آیا۔ گویا کسی کو اس کی حیثیت سے بڑھ کر تحفہ دینا جس کی دیکھ ریکھ میں وصول کنندہ تباہ ہو جائے۔ کسی منصوبے کی لاگت اس کی افادیت سے زیادہ ہو تو اسے انگریزی میں بھی ‘وائٹ ایلیفنٹ’ یا سفید ہاتھی قرار دیا جاتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو ازخود درجنوں سفید ہاتھی پالنے کا شوق ہے۔ وہ قوم جو چند ارب ڈالرز کی خاطر کشکولِ گدائی لے کر دربدر ٹھوکریں کھا رہی ہے وہ خود کھربوں روپے کے ضیاع کے جرم کی مرتکب ہے، مگر مجال ہے کہ اس کی پیشانی پر فکر کی ایک لکیر بھی اُبھرے۔ جون ایلیا نے کہا تھا کہ
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

قوم ان بڑے نقصانات پر نظر ڈال لے تو اسے معلوم ہوگا وہ حکومت جس کے پاس عوام کو سبسڈی دینے کے لیے رقم نہیں، وہ عوام کو کس طرح لوٹ رہی ہے۔ بجلی کی خرید و فروخت میں 2400 ارب روپے سے زائد کا ٹیکہ عوام کو لگا چکی ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری و ساری ہے۔ گندم کی خرید و فروخت میں پاسکو نے اب تک 900 ارب روپے کا خسارہ برداشت کیا۔ قومی ایئرلائن نے 25 برسوں میں قومی خزانے کو 850 ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ دس برس سے بند پاکستان اسٹیل مل 600 ارب روپے کھا چکی ہے۔ گیس کی دو کمپنیوں نے قومی خزانے کو 600 ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔ اس طرح بندرگاہوں سے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ 50 ارب پاکستان پوسٹ 50 ارب ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کی طرف سے کپاس کی خرید و فروخت کی مد میں 200 ارب اور ملک کے سرکاری ریڈیو اور ٹی وی کے نقصان کا تخمینہ 80 ارب روپے ہے۔

آئیے اب حکومتی آمدنی پر ایک نظر ڈالیں۔ 2008ء میں حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں 1783ارب موصول ہوئے جبکہ رواں مالی سال مجموعی محصولات کا تخمینہ 17815ارب روپے ہے۔ (اضافہ 899 فیصد)۔ مگر یہ جان کر ساری خوشی خاک ہو جاتی ہے کہ 2008ء میں سرکاری اخراجات 200 ارب روپے تھے جو بڑھتے بڑھتے اب 1900 ارب روپے ہو چکے ہیں۔ (17 برس میں 9گنا سے زیادہ اضافہ) اس پر نہ اخبارات میں خبر بنی اور نہ پارلیمان میں کسی معزز رکن نے حکومت سے جواب مانگا۔ پارلیمان کی فعال پبلک اکاونٹس کمیٹی بھی خاموش ہے۔ پارلیمان کا روزانہ خرچ کروڑوں روپے ہے۔ ایوان سے وزرا کی غیرحاضری معمول ہے کہ اس پر کوئی تنبیہ یا سرزنش نہیں۔ وفاقی کابینہ جتنی بڑی ہے اس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ وزرا کی فوج ظفر موج بھرتی کرنے کے ساتھ ان کی تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ بھی کیا گیا۔ اس وقت ہمارے قومی خزانے کو جو جونکیں چمٹی ہیں اُن میں سرفہرست پارلیمان کے دونوں ایوان ہیں۔ اگر ہم اپنی پارلیمان کو محاورے کے مطابق سفید ہاتھی قرار دیں تو یہ بالکل بجا ہوگا۔ پارلیمان کا رکن بننے کے لیے کروڑ پتی ہونا ضروری ہے۔ کروڑ یا ارب پتی اراکینِ اسمبلی کو ایک روپیہ تنخواہ دینا بھی قومی خزانے پر بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ سفر اور علاج کی سہولتوں پر خرچ ہونے والی رقم بھی کروڑوں روپے بنتی ہے۔ ستم بالائے ستم کہ ہر حکومت قانون کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اراکینِ پارلیمنٹ کو کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز دیتی ہے۔

ہمہ وقت کاسہ گدائی لے کر ملکوں ملکوں گھومنے والے وزرا اور بڑے سرکاری افسروں کو سادگی اور کفایت شعاری کا نمونہ ہونا چاہیے مگر صورتحال اس کے برعکس ہے۔ برطانوی وزیراعظم صرف ایک کنال کے گھر میں رہتا ہے۔ شاہی خاندان کے افراد عام لوگوں کے ساتھ ٹرین میں سفر کرتے ہیں۔ چند برس پہلے نیدرلینڈز کے ایک وزیر کو محض اس جرم میں برطرف کیا گیا کہ وہ پیرس میں ہونے والی ایک کانفرنس میں گیا تو اس نے ہوائی جہاز کے اکانومی کے بجائے فرسٹ کلاس درجے میں سفر کیا۔ ہمارے ہاں قومی دولت کو جس بے دردی سے ضائع کیا جاتا ہے اس کا امیر ممالک میں تصور بھی نہیں۔ پچاس کی دہائی میں اوئنٹن ھوگ جب تک برطانوی محکمہ انصاف کے لارڈ چانسلر رہے روزانہ سائیکل پر دفتر آتے۔ برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے ایک معزز رکن لارڈ ایوبری دونوں ایوانوں کی کمیٹی کے عمر بھر صدر بھی رہے قریباً 25برس تک سائیکل پر ایوان آتے رہے۔ برطانوی پارلیمان کے رکن کو سفری اخراجات کے لیے جتنی کم رقم دی جاتی ہے اس کی وجہ سے اراکین لندن انڈر گراؤنڈ ٹرین پر بخوشی سفر کرتے ہیں۔ ہمارے ملک کی نوکر شاہی پر مالِ مفت دلِ بے رحم کا محاورہ صادق آتا ہے۔

اس کے باوجود حکومت عوام کے ساتھ جو وارداتیں کر رہی ہے سمجھ نہیں آتی کہ اس کو چوری ڈکیتی بھتہ وصولی یا جیب تراشی میں سے کس زمرے میں ڈالا جائے۔ بجلی کے بلوں میں گھریلو صارفین کو سات روپے 41پیسے فی یونٹ رعایت دی گئی، دوسری طرف عالمی منڈی میں تیل کی فی بیرل قیمت 75ڈالر سے گر کر 65ڈالر فی بیرل آگئی۔ یعنی 15فیصد کمی۔ اگر اس کا نصف یعنی صرف ساڑھے سات فیصد ہی کم کیا جا تا تو قیمتوں میں 18روپے کی کمی ہونی چاہیے تھی مگر حکومت نے فائدہ عوام کی بجائے اپنی جیب میں ڈال لیا۔ حالانکہ بقول وفاقی وزیر بجلی و پانی قیمت میں یہ کمی بنیادی ٹیرف میں نہیں محض ٹیکسوں میں ہے جو عارضی ہے۔ سرکار روزانہ کے اللے تللے پورے کرنے کے لیے خاموشی سے عوام کی جیب کاٹنے میں مصروف ہے۔ اس کے لیے چوری ڈکیتی بھتہ خوری یا تاوان وغیرہ کے الفاظ معمولی بے معنی اور صورتحال کی مکمل عکاسی سے عاری ہیں۔ موٹروے کے ٹول ٹیکس میں تقریباً چار بار (51فیصد) اضافہ ہوچکا ہے۔ کار ڈرائیونگ لائسنس کی تین سالہ تجدیدی فیس ہزار روپے سے کم تھی جو اَب آٹھ ہزار روپے ہو چکی ہے۔

اس بھتہ خوری کی ایک اور مثال یہ ہے کہ چند سال پہلے ایک کنال کا واسا بل دو سو روپے تھا، جو اب دو ہزار روپے سے زیادہ ہے۔ پنجاب میں دو سال پہلے غیرممنوعہ بور کا اسلحہ لائسنس پانچ ہزار روپے تھا۔ اب پنجاب کی حد تک فیس پچاس ہزار روپے اور آل پاکستان اسلحہ لائسنس کے لیے ایک لاکھ روپے ہے۔ اسلحہ لائسنس کی تجدیدی فیس سالانہ ایک ہزار روپے اور پانچ سال کے لیے مبلغ پانچ ہزار روپے تھی۔ اب پانچ سالہ تجدید بند کر کے اسے سالانہ بنیاد پر تجدید فیس پانچ ہزار روپے کر دی ہے۔ رجسٹری انتقال بیع تملیک اور ہبہ کی فیسوں میں بھی اتنا اضافہ ہو گیا ہے کہ عوام پریشان ہے۔ سرکار عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر بھی پوری نہیں پڑ رہی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ملک میں ایک ایسا بااختیار کمیشن بنایا جائے جس کے اراکین ریٹائرڈ جج صاحبان ہوں اور وہ اپنی خدمات بغیر تنخواہ رضاکارانہ طور پر سرانجام دیں۔ یہ کمیشن سرکاری خزانے کے چھوٹے سے چھوٹے ضیاع کے ذمہ دار سے باز پرس کرے تاکہ قوم کے اربوں روپے بچ سکیں۔ بھوک سے بلبلاتی، قیامت خیز مہنگائی کی ستائی قوم زبان حال سے یہ کہہ رہی ہے
یہ موسم میری بینائی کو تسلیم نہیں
میری آنکھوں کو وہی خواب پرانا لا دے