دوسری قسط:
کمیٹی آن پبلیکشن ایتھکس یعنی کوپ نے درجِ ذیل واضح موقف اختیار کیا ہے۔ تحقیقی اشاعتوں (مقالوں) میں مصنوعی ذہانت کے آلات مثلا چیٹ جی پی ٹی یا لارج لینگویج ماڈلز کا استعمال تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کوپ ، ڈبلو اے ایم ای اور جاما نیٹ ورک جیسے تنظیموں کے ساتھ شامل ہوتے ہوئے یہ کہتی ہے کہ مصنوعی ذہانت کے آلات کو بطور مصنف کسی مقالے کے طور پر درج نہیں کیا جاسکتا۔
مصنوعی ذہانت کے ٹولز مصنف ہونے کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتے کیونکہ وہ جمع کرائے گئے کا م کہ ذمہ داری نہیں لے سکتے۔ بطور نان لیگل اداروں کے طور پر، وہ مفادات کے تصادم کی موجودگی یا عدم موجودگی پر زور نہیں دے سکتے اور نہ ہی کاپی رائٹ اور لائسنس کے معاہدوں کا نظم و نسق کر سکتے ہیں۔ مصنفین جو مصنوعی ذہانت کے آلات تحریر لکھنے، تصویر بنانے، یا ڈیٹا کو اکھٹا کرنے اور تجزیہ کرنے میں استعمال کرتے ہیں، انہیں بالکل شفاف طریقے سے میٹریل اور میتھڈ سیکشن میں بتانا چاہیے کہ کیسے مصنوعی ذہانت کے آلات کو استعمال کیا گیا اور کون سا آلہ استعمال کیا گیا۔ مصنفین مکمل طور پر اپنے لکھی گئی تحریر کے ذمہ دار ہیں، حتی کہ ان حصوں کے بھی جو مصنوعی ذہانت کے مدد سے تحریر کیے گئے، اور اشاعت کی اخلاقیات کی کسی بھی خلاف ورزی کے ذمہ دار ہیں۔ ورلڈ ایسوسی ایشن آف میڈیکل ایڈیٹرز (ویمی)World Association of Medical Editors (WAME) ، جس کے ممبران ایک ہزار سے زائد میڈیکل سائنسی جریدوں اور بانوے ممالک سے تعلق رکھتے ہیں، نے مصنوعی ذہانت، چیٹ بوٹ اور جنریٹیو آے آئی سے متعلق اپنی سفارشات پیش کی ہیں، جن کا خلاصہ درجِ ذیل ہے۔ سفارش نمبر اول: چیٹ بوٹ مصنف نہیں ہوسکتے۔ سفارش نمبر دوم: مصنفین کو شفاف ہونا چاہیے کہ کب چیٹ بوٹ کا استعمال کیا گیا اور ان کے استعمال کے بارے میں معلومات فراہم کرنا چاہیے۔ سفارش نمبر سوم: مصنفین اپنے مقالوں میں چیٹ بوٹ کی طرف سے مہیا کیے گئے مواد کے ذمہ دار ہیں (بشمول پیش کیے گئے مواد کی درستگی اور سرقہ کی عدم موجودگی کے) اور تمام ذرائع (مآخذ) کے مناسب حوالے مہیا کرنے کے (بشمول چیٹ بوٹ کے ذریعے تیار کردہ مواد کے اصل ذرائع یعنی حوالہ جات)۔
اسی طریقے سے ایک سائنسی تحقیق جوکہ نان ہیومن آتھرز کے عنوان سے جاما JAMA جریدے میں چھپی ہے، میں یہ واضح بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح غیر انسانی مصنفین کا سائنسی سالمیت پر اور طبی علوم پر اثرات پڑتے ہیں۔ نیز، نیچر پبلیشر، جو کہ سائنسی دنیا میں نہایت معیاری سائنسی پبلشر شمار ہوتا ہے، جس کے کئی سائنسی جریدے دنیا کے بہترین سائنسی جرائد میں شمار ہوتے ہیں اور اس کا ایک سائنسی جریدہ نیچر ایسی سائنسی تحقیق شائع کرتا رہا ہے جس کی بنیاد پربیسیوں نوبل پرائز پچھلی ایک صدی میں سائنسدانوں اور محققین کو دیئے گئے ہیں، بالکل واضح موقف اختیار کرتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر کوبطور مصنف قبول نہیں کیا جاسکتا۔ نیچر پبلیشر تحریر کرتا ہے کہ
لارج لینگویج ماڈلز مثلا چیٹ جی پی ٹی، فی الحال ہمارے مصنف کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ خاص طور پر مصنف ہونے کے طور پر کریڈٹ (صلہ) دیے کیے گئے کام کے لیے جوابدہی مانگتا ہے، جو کہ موثر طریقے سے لارج لینگویج ماڈلز پر اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ ایل ایل ایم کے استعمال کو مناسب طریقے سیمقالے کے میتھڈ سیکشن (اور اگر میتھڈ سیکشن دستیاب نہیں ہے تو کسی مناسب متبادل حصے میں) میں دستاویز کیا جانا چاہیے۔ انٹرنیشل کانفرنس ان مشین لرننگ (آئی سی ایم ایل) دنیا کی بہترین کانفرنسوں میں شمار ہوتی ہے اور اس کو اے اسٹار (یعنی سب سے اعلی درجے کی کانفرنس۔ آسٹریلیا کی کور رینکنگ کے مطابق) کہا جاتا ہے۔ اگرچہ انہوں نے مصنوعی ذہانت کے آلات کو سائنسی تحقیق کے تحریر کرنے میں استعمال کرنے کی اجازت دی ہے مگر وہ واضح طور پر کہتے ہیں کہ مصنفین تمام تر مواد کے خود کلی طور پر ذمہ دار ہوں گے، بشمول ایسا مواد جس کو مصنوعی ذہانت کے آلات سے بنایا گیا ہے جسے سرقہ یا سائنسی اکیڈمک مس کنڈکٹ کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔
ایسوسی ایشن فار کمپیوٹنگ مشینری (اے سی ایم)Association for Computing Machinery (ACM) دنیا کی سب سے بڑی سائنسی و تدریسی کمپیوٹر سوسائٹی ہے۔ اے سی ایم پچاس سے زائد کمپیوٹر سائنسی کے سائنسی جریدے شائع کرتی ہے جن میں دنیا کے بہترین سائنسی جرائد بھی شامل ہیں۔ انہی سائنسی جرائد میں سے ایک اے سی ایم/آئی ای ای ای ٹرانزیکشن آف نیٹ ورکنگبھی شامل ہے جو کہ کمپیوٹر سائنس کا ایک نہایت اعلی معیار کا عالمی سائنسی جریدہ ہے۔ ٹیورنگ ایوارڈ، جسے کمپیوٹر سائنس کا نوبل پرائز بھی کہا جاتا ہے، یہ بھی ہر سال اے سی ایم ہی دیتی ہے جس کی مالیت ایک ملین امریکی ڈالر، تقریباً ستائیس کڑور پاکستانی روپے، کے برابر ہوتی ہے۔ اے سی ایم کی واضح پالیسی ہے کہ کوئی بھی جنریٹیو مصنوعی ذہانت کے ٹولز (آلات و سافٹ وئیر) کو بطور مصنف کسی بھی صورت شامل نہیں کیا جاسکتا۔ نیز، اے سی ایم واضح طور پر کہتی ہے کہ اے سی ایم کے سائنسی جرائد میں مقالے جمع کروانے والے قابلِ شناخت انسان ہونے چاہییں، جنہوں نے سائنسی تحقیقی مقالے میں خاطر خواہ کام انجام دیا ہو، اور جو کہ شائع شدہ سائنسی تحقیقی مقالے میں شائع شدہ مواد کی مکمل ذمہ داری لیتے ہوں۔ (جاری ہے)