غزہ میں قحط سنگین،بچوں کی تعلیم ختم،عالمی عدالت نے چپ سادھ لی

غزہ/دی ہیگ/تل ابیب/نیویارک: اسرائیلی فوج نے غزہ میں حملے کرتے ہوئے مزید 60 فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج کے غزہ پر حملے جاری ہیں جس کے نتیجے میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 60 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو گئے۔

دوسری جانب غزہ میں امداد کی بندش پر عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف سماعت جاری ہے، جنوبی افریقا کے نمائندے نے کہا کہ امداد بند کر کے اسرائیل پوری دنیا کے سامنے غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔

دریں اثناء قابض اسرائیلی پولیس نے مسجد اقصیٰ پر ایک نئی پابندی عاید کرتے ہوئے’ البراق اسکوائر’ میں لاؤڈ اسپیکروں پر اذان دینے پر پابندی عاید کردی ہے۔ یہ پابندی ایک ایسے وقت میں لگائی گئی ہے جب قابض ریاست کے نام نہاد صدر نے شام کے وقت مسجد اقصیٰ کے قریب ایک تقریب سے تقریر کرنا تھی۔

القدس میں اسلامی اوقاف کے محکمے کے باخبر ذرائع نے تصدیق کی کہ آج عشاء کے وقت مسجد اقصیٰ کے القبلی ہال سے اذان دی گئی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ عشا کی اذان مسجد اقصیٰ کے نماز گاہوں اور صحنوں میں دی گئی اور علاقے میں قابض پولیس کی موجودگی کی وجہ سے صرف باب الغانمہ کے مینار سے ہی اذان دی گئی۔

ان ذرائع نے وضاحت کی کہ قابض اسرائیلی پولیس مسجد اقصیٰ کے القبلی ہال کی چھت پر غروب آفتاب سے قبل چڑھ گئی۔انہوں نے بتایا کہ قابض پولیس نے مسجد اقصیٰ کی دیوار کے مغربی جانب البرق اسکوائر میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران قابض ریاست کے صدر کی تقریر کے ساتھ ہی باب المغاربہ، باب السلسلہ اور باب الاسباط کے میناروں کی تاریں کاٹ دیں۔

سینکڑوں آباد کاروں نے بدھ کے روز قابض اسرائیلی فوج اور پولیس کی فول پروف سیکورٹی میں مسجد اقصیٰ پرپھر دھاوا بولا۔عینی شاہدین بے بتایا کہ یہودی بلوائیوں نے گروپوں کی شکل میں مراکشی دروازے سے قبلہ اول پر دھاوا بولا اور وہاں پر اشتعال انگیز حرکات کے ساتھ تلمودی تعلیمات کے مطابق مذہبی رسومات بھی ادا کیں۔

ادھراقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ وولکر ترک نے دنیا کے تمام ملکوں اور انسانی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ غاصب فاشسٹ اسرائیل کو غزہ میں ایک اور بڑی انسانی تباہی سے روکیں جہاں اسرائیل نے کھانے پینے کی بنیادی اشیا کی بھی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔

اسرائیلی فوج کی اس سنگین ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ میں23 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو بھوک اور قحط کے ہتھیار کی زد میں لانے کی کوشش میں ہے۔ یہ ناکہ بندی دو مارچ سے جاری ہے جسے یکم مئی کو پورے دو ماہ ہو جائیں گے۔

وولکر ترک نے کہا بین الاقوامی سطح سے اس ناکہ بندی کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہیے تاکہ غزہ میں ایک بڑے خطرے اور بڑی تباہی سے بچا جا سکے۔دوسری جانب اسرائیلی حکومت نے کہا ہے کہ اس نے داخلی سلامتی ایجنسی کے سربراہ رونن بار کو برطرف کرنے کا اپنا فیصلہ واپس لے لیا ہے ۔

سپریم کورٹ نے حکومت کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کے دوران رونن بار کی برطرفی کو معطل کردیا تھا۔حکومت نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک دستاویز میں رونن بار کو برطرف کرنے کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے 20 مارچ 2025 ء کے اپنے فیصلے کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

شین بیت سیکورٹی سروس کے سربراہ نے پیر کو اعلان کیاتھا کہ وہ 15 جون کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے۔انہوں نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ کئی ہفتوں کی کشیدگی کے بعد اس حساس ادارے کی سربراہی سے سبکدوش ہونے کا اعلان کیا۔

رونن بار کو برطرف کرنے کے فیصلے سے ان واقعات سے متعلق متضاد داستانیں سامنے آئیں جن کی وجہ سے 7 اکتوبر 2023ء کو حماس نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کیا۔بار نے حال ہی میں سپریم کورٹ میں ایک تحریری حلف نامہ جمع کرایا تھا جس میں اس نے حلف کے تحت اس بات کی تصدیق کی تھی کہ نیتن یاہو نے ان سے ذاتی وفاداری کا مطالبہ کیا اور انہیں حکومت مخالف مظاہرین کی جاسوسی کرنے کا حکم دیا تھا۔

علاوہ ازیںاسلامی تحریک مزاحمت حماس نے زور دے کر کہا ہے کہ نیتن یاہو حکومت کی جانب سے غزہ کی پٹی میں بھوک کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ایک جنگی جرم، بین الاقوامی برادری کی بے حسی کا نتیجہ اور بین الاقوامی عدالتی اداروں کے لیے ایک چیلنج ہے۔

حماس نے کہا کہ ہم قابض دشمن پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہیں کہ بھوک کے منظم جرائم کو ختم کیا جائے۔حماس نے ایک بیان میں کہاکہ مسلسل ساٹھویں دن فاشسٹ قابض فوج نے غزہ کی پٹی کا اپنا سخت محاصرہ جاری رکھا ہوا ہے، خوراک، پانی، ادویات اور ایندھن سمیت ضروری سامان کی تمام دکانوں کو بند کر دیا ہے۔

قحط کی شدت سے خوراک کی فراہمی ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد شہریوں کو بمباری کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ تباہی کی وحشیانہ جنگ کا حصہ ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ دہشت گرد قابض حکومت کی طرف سے غزہ کی پٹی میں معصوم شہریوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر بھوک کا استعمال جاری ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ ‘انروا’ کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی کے بیانات جس میں انہوں نے قابض فوج کی جانب سے ایجنسی کے ملازمین کو ان کی گرفتاری کے دوران انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا انکشاف کیا ہے اسے بدمعاش صیہونی ریاست کی جارحیت قرار دیا۔

حماس نے دْنیا کے تمام ممالک اور اقوام متحدہ کے اداروں بالخصوص سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ انسانیت اور انصاف کی اقدار کی پاسداری کریں اور غزہ کی پٹی کے ڈھائی ملین سے زائد افراد پر مسلط کردہ محاصرہ ختم کرنے کے لیے قابض دشمن پر دباؤ ڈالیں۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے زور دے کر کہا ہے کہ ان کی حکومت کی پہلی ترجیح غزہ سے یرغمال بنائے گئے افراد کی واپسی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ایک اجلاس میں نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ اسرائیلی فوجی 7 اکتوبر سے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں تاکہ ان یرغمالیوں کو واپس لایا جا سکے۔

قبل ازیںعالمی ادارہ خوراک ‘ ڈبلیو ایف پی’ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں انسانی صورتحال انتہائی نازک مرحلے پر پہنچ گئی ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پروگرام میں خوراک کی امداد کا ذخیرہ مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے، کیونکہ قابض حکام نے کراسنگ کو بند کرکے انسانی امداد کے داخلے پر پابندی عاید کررکھی ہے۔

ڈبلیو ایف پی کے ترجمان عبیر عاطفہ نے اطلاع دی کہ غزہ میں تقریباً سات لاکھ لوگ فلسطینی پروگرام سے روزانہ خوراک کی امداد حاصل کر رہے ہیں لیکن امداد لانے میں ناکامی کی وجہ سے اس امداد کو روک دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سامان سے لدے ٹرک کراسنگ پر ڈھیر ہو رہے ہیں مگر انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ اس صورت حال کا تسلسل غذائی قلت سے اموات کا باعث بن سکتا ہے۔ عالمی ادارہ خوراک کا پروگرام گزشتہ پرسکون دور میں غزہ کی پٹی میں 30,000 سے 40,000 ٹن کے درمیان امداد پہنچانے میں کامیاب رہا ہے۔

اسی تناظر میں ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے اسرائیلی ناکہ بندی کے نتیجے میں غزہ کی صورت حال کو ”ہر سطح پر تباہ کن” قرار دیا ہے جو امدادی اور طبی سامان کے داخلے کو روکتی ہے۔تنظیم کی ہنگامی صورتحال کی سربراہ کلیئر نکولٹ نے کہا کہ مارچ کے اوائل سے غزہ میں امداد پر مکمل پابندی کے مہلک نتائج برآمد ہو رہے ہیں انسانی اور طبی ٹیموں کی ضروری ردعمل فراہم کرنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

نکولٹ نے اس بات پر زور دیا کہ قابض طاقت کے طور پر قابض اسرائیل کی ذمہ داریوں کے بارے میں بین الاقوامی عدالت انصاف کی کارروائی جیسے قانونی ذرائع پر انحصار کرنے میں وہ وقت لگ سکتا ہے جو فلسطینیوں کو ناکہ بندی کے نتیجے میں روزانہ موت کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ غزہ ایک ”اجتماعی قبر” بن سکتا ہے، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسرائیل امداد کو جنگ کے ہتھیار اور اجتماعی سزا کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی حکام پر ناکہ بندی ختم کرنے کے لیے موثر اور فوری دباؤ ڈالیں اور مزید مصائب اور جانی نقصان سے بچنے کے لیے امداد کے فوری داخلے کی اجازت دیں۔

ادھراقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین ‘انروا’نے خبردار کیا ہے کہ قابض اسرائیلی حکام کی جانب سے مقبوضہ مشرقی بیت المقدس میں اقوام متحدہ کے اسکولوں کی بندش سے 800 فلسطینی بچوں کے تعلیمی مستقبل کو خطرہ ہے۔

‘انروا’ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ10 دنوں سے بھی کم وقت میں مشرقی بیت المقدس میں ‘انروا’کے 6 اسکولوں کے خلاف اسرائیلی حکام کی جانب سے جاری کردہ بندش کے احکامات نافذ العمل ہوں گے۔

انروا کے مغربی کنارے میں امور کے ڈائریکٹر رولینڈ فریڈرچ نے ‘ایکس’ پلیٹ فارم پر بدھ کو ایک پریس ریلیز میں کہا کہ اسکولوں کی بندش سے تقریباً 800 بچوں کے تعلیم کے حق کو خطرہ ہے جو کہ بین الاقوامی قانون کے تحت اسرائیل کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ شعفاط کیمپ میں ‘انروا’ کے اسکول کئی دہائیوں سے کیمپ کے سماجی تانے بانے کا حصہ رہے ہیں جو بچوں کو اپنے گھروں کے قریب اعلیٰ معیار کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ ان میں لڑکیاں بھی ہیں جو اب اسکول جانے سے خوف زدہ ہیں اگر وہ تعلیم کا حق کھو دیں تو ڈاکٹر یا سائنسدان بننے کے ان کے خواب چکنا چور ہو جائیں گے۔

‘انروا’ نے مزید کہا کہ غزہ میں 50 سے زائد امدادی کارکنوں کو اسرائیلی حراست میں بدسلوکی کا سامنا رہا۔ اسرائیلی فوج نے انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا ۔ ان کارکنوں میں اساتذہ، ڈاکٹر اور سماجی کارکن شامل ہیں۔

سعودی عرب نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل کی غزہ میں جاری فوجی مہم کی مذمت کی ہے۔عرب نیوز کے مطابق سعودی عرب نے کہا کہ اسرائیل غزہ میں بین الاقوامی رولنگز اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کر رہا ہے۔

عدالت میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے مملکت کے نمائندے محمد سعود الناصر نے کہا کہ اسرائیل بین الاقوامی عدالت انصاف کے احکامات کو مسلسل نظرانداز کر رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں اسرائیل کی خلاف ورزیوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔

سعود الناصر کا غزہ میں وسیع پیمانے پر تباہی اور عام شہریوں پر ڈھائے گئے مصائب کو اجاگر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسرائیل نے غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے۔ان کے یہ ریمارکس بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل کی فلسطینیوں کے حوالے سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ذمہ داریوں پر سماعت کے دوسرے روز کے دوران سامنے آئے۔

یہ سماعتیں ان وسیع تر کوششوں کا حصہ ہیں جن کے تحت یہ جانچ کی جا رہی ہے کہ آیا اسرائیل نے غزہ پر جنگ کے دوران بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کی پاسداری کی ہے یا نہیں۔ادھراسرائیلی عہدیدار نے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی تک پہنچنے کے لئے قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات میں کسی پیشرفت سے انکار کیا ہے۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ اس نے غزہ کی کارروائیوں کے دوران حماس میں 3 نمایاں عہدیداروں کو مار دیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان اویچائی ادرائی نے مزید کہا کہ اسرائیلی افواج محصور غزہ کی پٹی میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

صیہونی فوج کے ترجمان نے ”ایکس” پر لکھا کہ ہم سات اکتوبر کے حملے میں ملوث حماس رہنمائوں کا پیچھا کر رہے ہیں اور ان میں سے مزید تین کو مار دیا ہے۔ان میں نضال حسنی الصرفیطی شامل ہیں۔اسرائیلی کارروائی میں مارے گئے دوسرے حماس رہنما سعید امین سعید ابو حسنین تھے۔ وہ حماس کی دیر البلح بٹالین میں ایلیٹ یونٹ سے وابستہ تھے ۔

اسرائیلی فوجی ترجمان نے مزید بتایا کہ مارے گئے تیسرے حماس رہنما مصطفی یوسف العبد مطبوق ہیں یہ حماس کی جبالیا بٹالین میں آپریٹنگ آفیسر تھے۔ عرب ٹی وی کے مطابق آنے والے دنوں میں مصر، حماس اور اسرائیلی حکام کے درمیان ملاقاتیں جاری رہیں گی۔

ذرائع نے بتایا کہ ثالثوں کی نگرانی میں غزہ تک امداد کی منتقلی کے لیے تین محفوظ راہداریوں کے قیام کے لیے ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا ہے کہ غزہ میں ہلاکتوں کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آرہا ہے۔

انہوں نے خبردار کیاکہ دو ریاستی حل ختم ہونے کے نقطہ کے قریب پہنچ رہا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب میں مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر وزارتی اجلاس ہوا۔ اجلاس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کے اندر رہنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف نے غزہ میں اسرائیلی موجودگی کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ دو ریاستی حل فی الحال بہت کم ہو رہا ہے۔ دو ریاستی حل کو ختم نہیں ہونے دینا چاہیے۔گوٹیرس نے زور دے کر کہا کہ دو ریاستی حل مشرق وسطیٰ میں امن کی بنیاد ہے۔