مصنف عمومی طور پر ایک تخلیقی شخصیت کا حامل ہوتا ہے اور وہ اپنے خیالات و تفکرات کو عمدہ پیرائے میں قلمبند کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ مصنف اور مولف میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ مصنف اپنی بات کو خالصتاً اپنی ذاتی لیاقت اور استعداد سے تحریر کرتا ہے جبکہ مولف مختلف مصنفین کی تحریروں کو کسی خاص عنوان کے تحت یکجا کرتا ہے۔ گو تصنیف و تالیف دونوں ہی کے لیے لیاقت، استعداد، ہنر اور علمی پختگی درکار ہوتی ہے مگر تصنیف کا کام قدرے مشکل تصور کیا جاتا ہے۔ مصنفین اپنے ذوق کی بنیاد پر ناول، افسانے، اشعار، سفرنامے، مکتوبات، تدریسی کتب، تحقیقی کتب، سوانح اور ڈرامے وغیرہ لکھتے ہیں۔ بعض مصنفین تکنیکی نوعیت کے مضامین تحریر کرتے ہیں جبکہ کچھ مصنفین اپنی تصنیف میں تحقیقی اسلوب اختیار کرتے ہیں تاکہ صحیح معلومات اور حقائق پڑھنے والوں تک پہنچ سکیں۔
کمپیوٹر سائنس کے شعبے میں ترقی نے تصنیف و تالیف پر بھی گہرا اثر ڈالا ہے۔ تاریخی طور پر کمپیوٹر کو تصنیف و تالیف سے جڑے مختلف کاموں میں استعمال کیا جاتا تھا، مثلاً ابتدائی ادوار میں مصنفین اپنی تحریر کو کمپیوٹر پر کمپوز کرکے اشاعت کے لیے تیار کرتے تھے۔ پھر کمپیوٹر سائنس میں مزید ترقی ہونے کی وجہ سے کمپیوٹر سافٹ وئیر املا اور ہجے کی غلطیوں کی نشاندہی بآسانی کردیتا تھا مگر اب کمپیوٹر سائنس کے شعبے مصنوعی ذہانت میں اتنی زیادہ ترقی ہوگئی ہے کہ ان سافٹ وئیر کی مدد سے تصنیف و تالیف کے کئی کام بہ سہولت انجام پا جاتے ہیں۔
اس وقت مصنوعی ذہانت کے بہت سارے ٹولز، ایپلی کیشن یا پروگرامز میسر ہیں، ان میں مشہور اوپن اے آئی کا چیٹ جی پی ٹی، مائیکروسافٹ کا کو پائلٹ، کریکٹر آئے آئی ، کلوڈ اے آئی، پرپلیکسٹی اے آئی اور گوگل کا جیمنائی Gemini مشہور ہیں۔ یہ سارے ٹولز دراصل چیٹ بوٹ ہیں۔ چیٹ بوٹ وہ کمپیوٹر پروگرام یا سافٹ ویئر یا اپلی کیشن ہوتی ہیں جو انسانی طرز پر بات چیت کرسکتے ہیں اور یہ جنریٹو اے آئی کو استعمال کرتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے ان تمام ایپلی کیشنز سے تصنیف و تالیف کا بھی کام لیا جارہا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ان سافٹ وئیر کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ایسی عمدہ تحریر لکھنے لگ گئے ہیں کہ انسان ششدر رہ جاتا ہے۔ حتی کہ ان مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ اگر کوئی ان سے پوچھے تو ایک ہی بات کو مختلف اسلوب اور زبانوں میں پیش کرسکتے ہیں۔ نتیجتاً ایک عام شخص ایک انسان کی لکھی ہوئی تحریر اور کمپیوٹر (مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر مثلاً چیٹ جی پی ٹی وغیرہ) کی مدد سے لکھی تحریر میں آسانی سے فرق نہیں کرسکتا۔ مصنوعی ذہانت کے ان پروگرامز کو اگر کسی خاص مصنف کے اسلوبِ تحریر پر ٹریننگ دی جائے تو یہ اس مصنف کے اسلوبِ تحریر کو اختیار کرتے ہوئے نئے مضامین تحریر کردیتا ہے۔ پھر جب اس مصنف کی اصل تحریر اور نئی تحریر کا تقابل کیا جائے تو عام قاری ان دونوں تحریروں میں فرق نہ کرسکے گا، البتہ اگر باریک بینی سے ان دونوں تحریروں کا تجزیہ کیا جائے اور مصنف کے اسلوب کے امتیازی خصائص کو باریک بینی سے دیکھا جائے تب کہیں جاکر فرق سامنے آئے گا۔
الغرض مصنوعی ذہانت میں اسی تیز رفتار ترقی کی وجہ سے مصنوعی ذہانت کو بطور مصنف بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ اس سے ایک طرف تو تصنیف و تالیف کے کاموں میں معاونت ملی ہے مگر دوسری طرف مصنوعی ذہانت کی اسی صلاحیت کی وجہ سے کئی چیلنجز بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں، مثلاً یونیورسٹیوں میں جب طلبہ کو کسی موضوع پر مضمون تحریر کرنے کو دیا جاتا ہے تاکہ ان کی تحریری، تحقیقی و تجزیاتی صلاحیتوں کو نکھارا جائے تو بعض طلبہ ان مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر کا استعمال کرکے وہ مضمون تیار کرلیتے ہیں۔ اس سے جہاں جائزہ کے امتحان میں دشواری پیش آتی ہیں، امتحان کا مقصد فوت ہوتا ہے، وہیں طلبہ میں سستی، کاہلی اور کام چوری کا رواج عام ہورہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر سے کوئی تحریر لکھوانا درست ہے؟ اور کس حد تک مصنوعی ذہانت کو تصنیف و تالیف کے کاموں میں استعمال کیا جاسکتا ہے؟ نیز کیا کلی طور پر مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیرز کو بطور مصنف عالمی سائنسی تحقیقی دنیا، سائنسی اشاعتی اداروں اور مختلف یونیورسٹیوں میں تسلیم کیا جاتا ہے؟ نیز مصنوعی ذہانت سے جڑے تصنیف و تالیف کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر کیا پیشرفت ہوئی ہے؟
آسان الفاظ میں اگر کوئی سائنسدان اور محقق مصنوعی ذہانت سے کوئی تحریر لکھوائے تو کیا وہ مصنوعی ذہانت کو بطور ساتھی مصنف شامل کرسکتا ہے؟ بعض مرتبہ کسی کتاب کے دو یا تین مصنفین ہوتے ہیں یا بعض مرتبہ کسی سائنسی تحقیقی مقالے میں کئی سائنسدان ساتھی مصنف ہونے کے ناتے شامل ہوتے ہیں تو کیا اگر کوئی مصنوعی ذہانت سے تجربہ کروائے، تجزیہ کروائے، تحریر لکھوائے تو کیا اسے یعنی مصنوعی ذہانت (مشین)کو بھی بطور ساتھی مصنف تسلیم کیا جائے گا؟ ان تمام سوالات کا جواب ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں۔
مشہور سائنسی پبلشر میں سے ایک ایل زے وئیر Elsevier ہے جو دو ہزار نو سو سے زائد سائنسی جرائد شائع کرتا ہے اور ان سائنسی جرائد میں دنیا کے بہترین سائنسی جرائد بھی شامل ہیں جو مختلف سائنسی شعبوں سے متعلق ہیں۔ اگر کمپیوٹر سائنس اور مصنوعی ذہانت کے سائنسی جرائد کی بات کی جائے تو یہ پبلشر دنیا کے کئی بہترین سائنسی جرائد شائع کرتا ہے جن میں کمپیوٹر نیٹ ورکسElsevier Computer Networks، کمپیوٹر کمیونی کشن Elsevier Computer Communications وغیرہ شامل ہیں۔ ایل زے وئیر مصنوعی ذہانت کو بطور مصنف استعمال کرنے سے متعلق پالیسی جاری کرچکی ہے۔ اس پالیسی میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ سائنسدان، محققین اور مصنفین کس حد تک مصنوعی ذہانت کو اپنی تحریروں، مقالوں اور تحقیق میں استعمال کرسکتے ہیں ۔
جب مصنف مصنوعی ذہانت کو اور بالخصوص جنریٹیو مصنوعی ذہانت کو تحریر لکھنے میں استعمال کریں تو ان ٹیکنالوجیز کو صرف تحریر کو واضح کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ اس تحریر کو پڑھنا آسان ہوجائے، نہ کہ تصنیف کے بنیادی کاموں کو ہی اس سے متبادل کے طور پر کروایا جائے، مثلاً سائنسی و تدریسی مواد تحریر کروانا، طبی سفارشات، سائنسی نتائج اخذ کرنا، یا کلینکل تجاویز دینا شا مل ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کا اطلاق انسانی نگرانی اور کنٹرول کے ساتھ کیا جانا چاہیے اور تمام کام کا بغور جائزہ اور ترمیم کی جانی چاہیے کیونکہ مصنوعی ذہانت ایسا مواد تیار کرسکتی ہے جو مستند لگتا ہو مگر حقیقت میں غلط، نامکمل اور متعصب ہو۔ مصنفین بالآخر کام کے مندرجات کے ذمہ دار اور جوابدہ ہیں۔
مصنف کو واضح طور پر اپنے مقالوں میں یہ تحریر کرنا ہوگا کہ کس حد تک انہوں نے جنریٹیو مصنوعی ذہانت کو استعمال کیا اور شائع شدہ مقالوں میں یہ تحریر شامل ہوگی۔
ایل زے وئیر پبلشر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ان کے سائنسی جرائد میں جمع کیے گئے مقالوں میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے یا جنریٹیو مصنوعی ذہانت کے ذریعے تصاویر بنائی جائیں یا انہیں تبدیل کیا جائے۔
مصنفین کو جنریٹیو مصنوعی ذہانت کا یا متعلقہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجیز کو مصنف یا ساتھی مصنف نہیں بنانا چاہیے اور نہ ہی مصنوعی ذہانت کا بطور مصنف حوالہ دینا چاہیے۔ مصنف بننا ایک ذمہ داری کا کام ہے اور تصنیف کا کام صرف انسانوں سے منسوب کیا جاسکتا ہے اور انسان ہی اسے انجام دے سکتے ہیں۔ کوئی بھی مصنف یا اس کا ساتھی مصنف اس با ت کا جوابدہ ہوتا ہے کہ جو کچھ تحریر کیا گیا ہے وہ درست ہے اور مناسب طور پر ان سوالات کی تحقیق کی گئی ہے۔ نیز مصنف ہونے کے لیے یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ جو آخری مسودہ ہو وہ مصنف منظور کرے۔ مصنف اس بات کے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں کہ جو کام تحریر کیا گیا ہو وہ اصلی ہے۔ (جاری ہے)