آبادکاروں کا مسجد اقصیٰ پر پھر دھاوا، اسرائیل بمباری، مزید 32فلسطینی شہید

غزہ/تل ابیب:اسرائیلی فورسز کی جا نب سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی جاری، خان یونس سمیت غزہ بھر میں بمباری کی گئی، مزید 39فلسطینی شہید ہوگئے، خان یونس میں حملے سے آگ لگنے سے 11افراد جھلس کر شہید ہوگئے جبکہ105زخمی ہوگئے۔

وزارت صحت نے کہا کہ ابھی بھی بہت سے متاثرین ملبے کے نیچے اور سڑکوں پر ہیں۔ ایمبولینس اور شہری دفاع کا عملہ ان تک نہیں پہنچ سکتا۔شہداء میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں،اسرائیلی حملوں میںشہدا کی مجموعی تعداد 51ہزار 266ہوگئی، ایک لاکھ 16ہزار 991فلسطینی زخمی ہو چکے۔

غزہ میں شدیدغذائی قلت پیدا ہوگئی، 3لاکھ 45ہزارفلسطینی کئی روز سے بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوگئے، حماس نے جنگ کے خاتمے کیلئے ہفتہ کو دنیا بھر سے احتجاجی مظاہروں کی اپیل کردی۔دوسری جانب اسرائیلی پبلک براڈ کاسٹر نے غزہ جنگ بندی توڑنے کیلئے اسرائیلی فوج کا دعویٰ جھوٹا اور من گھڑت قرار دے دیا۔

اسرائیلی پبلک براڈ کاسٹر نے اسرائیلی فوج کی جانب سے سرنگ کے دعوے پر رپورٹ جاری کردی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ مصر کی سرحد کے ساتھ فلاڈیلفی کوریڈور میں سرنگ کا دعویٰ کیا گیا تھا، فوج نے جنگ بندی معاہدہ توڑنے کیلئے سرنگ کا جعلی دعویٰ کیا۔

رپورٹ کے مطابق اگست میں اسرائیلی فوج نے سرحد کے ساتھ سرنگ کی جعلی تصاویر جاری کی تھیں، اسرائیلی پبلک براڈ کاسٹر کے مطابق یہ سرنگ کبھی نہیں تھی بلکہ یہ گندگی سے ڈھکی ایک نہر تھی۔اسرائیلی فوج کے دعوے کا مقصد فلاڈیلفی کوریڈور کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا تھا، سابق اسرائیلی وزیر دفاع یووگیلنٹ نے اسرائیلی پبلک براڈ کاسٹر رپورٹ کی تصدیق کردی۔

سابق اسرائیلی وزیردفاع کے مطابق دعوے کا مقصد جنگ بندی معاہدے کو توڑنا تھا، یووگیلنٹ کے مطابق دعوے کا مقصد حماس کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے سے روکنا تھا۔

ادھر ایک بار پھرسینکڑوں آباد کاروں نے بدھ کے روز قابض اسرائیلی فوج اور پولیس کی فول پروف سیکورٹی میں مسجد اقصیٰ پر دھاوا بول دیا۔ دوسری جانب فلسطینی مذہبی جماعتوں نے قبلہ اول کے ساتھ ربط مزید مضبوط بنانے اور یہودی بلوائیوں کی ناپاک سازشوں کو ناکام بنانے پر زور دیا ہے۔

بیت المقدس میں اسلامی اوقاف کے محکمے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بدھ کو دسیوں یہودی آباد کاروں نے قبلہ اول کی بے حرمتی کی۔عینی شاہدین بے بتایا کہ یہودی بلوائیوں نے گروپوں کی شکل میں مراکشی دروازے سے قبلہ اول پر دھاوا بولا اور وہاں پر اشتعال انگیز حرکت کے ساتھ تلمودی تعلیمات کے مطابق مذہبی رسومات بھی ادا کیں۔

قبل ازیں قابض صیہونی فوج اور پولیس کی بھاری نفری نے مسجد اقصیٰ کے اطراف اور پرانے بیت المقدس شہر کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیا تھا۔ اسرائیلی فوج کی تعیناتی قبلہ اول پر آباد کاروں کے دھائوں کو منظم کرنے اور انہیں فول پروف سیکورٹی فراہم کرنے کے لیے کی گئی تھی۔

ادھر بیت المقدس کے باشندوں نے یہودی آباد کاروں کا مقابلہ کرنے اور مسجد اقصیٰ کے دفاع کے لیے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کے لیے رخت سفر باندھیں اور اپنا زیادہ سے زیادہ وقت مسجد میں گزاریں۔

فلسطینیوں کی اپیلوں میں قابض حکام اور آبادکار گروپوں کی طرف سے کسی بھی منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے آنے والے دنوں میں مسجد اقصیٰ میں موجودگی کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔انہوں نے فلسطینی کاز اور اس کے اسلامی مقدسات کو خطرے میں ڈالنے والے خطرناک حالات کی روشنی میںمسجد اقصیٰ کی حفاظت کی اہمیت پر زور دیا۔

دریں اثناء غزہ کے ایک گھر میں اسرائیلی فوجیوں کی مزاحمت کاروں سے ہونے والی لڑائی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔عرب میڈیا کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو میں اسرائیلی فوجیوں کو جان بچا کر بھاگتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

یہ ویڈیو ایک اسرائیلی فوجی کے ہیلمٹ پر لگے کیمرے سے بنائی گئی جس میں دیکھا جاسکتاہے اسرائیلی فوجیوں کا دستہ ایک مکان میں موجود ہے جبکہ کچھ فوجی مکان کی بالائی منزل پر جارہے ہیں کہ اسی دوران ان پر فائرنگ شروع ہوجاتی ہے۔

فائرنگ شروع ہوتے ہیں اسرائیلی فوجی حواس باختہ ہوجاتے ہیں اور واپس نیچے کی منزل پر آنے کی جلدی میں گرتے جاتے ہیں اور پھسلتے ہوئے سیڑھیوں سے نیچے آتے ہیں۔اس کے بعد دوطرفہ فائرنگ کا سلسہ شروع ہوجاتاہے اس دوران اسرائیلی فوجی اپنے ساتھیوں کو اٹھا نے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔

شدید فائرنگ کے باعث اسرائیلی فوجی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوتے ہیں تاہم اس دوران فوجیوں کی چیخ و پکار مسلسل سنائی دیتی ہے۔ویڈیو سے حملے کی درست تاریخ اور مقام کا اندازہ نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ واضح ہے کہ اس حملے کا انجام کیا ہوا۔

علاوہ ازیںغزہ کی پٹی میں وزارت صحت نے خبردار کیا ہے کہ قابض صیہونی ریاست کی طرف سے غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی ناکہ بندی کے باعث لاکھوں بچے بدترین انسانی ماحول اور غذائی قلت کے باعث قحط جیسے حالات سے گزر رہے ہیں۔

غزہ کے ناصر کمپلیکس میں التحریر ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر احمد الفرا نے خبردار کیا کہ غزہ کی پٹی میں بچے غذائی قلت کے شدید ترین مراحل سے گزر رہے ہیں اور علاج کی دوائیوں اور بچوں کے دودھ کے فارمولے کی کمی کی وجہ سے طبی پیروی مشکل ہے۔

الفرا نے ایک پریس بیان میں کہاکہ بچے اسامہ الرقاب کا معاملہ مناسب غذائیت اور پینے کے پانی کی کمی کی وجہ سے غزہ کے بچوں کے مصائب کا خلاصہ ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ غزہ کی پٹی کے عوام غذائی قلت کے پانچویں مرحلے کا سامنا کر رہے ہیں جو کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق سب سے سنگین مرحلہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حاملہ خواتین کے لیے مناسب غذائیت اور ادویات کی کمی نوزائیدہ بچوں خصوصاً قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کے لیے سنگین اثرات مرتب کرتی ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ خوراک اور ادویات کی فراہمی کی مسلسل ناکہ بندی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ غزہ کی پٹی کے بچوں کو خطرناک اور تباہ کن صورتحال کا سامنا ہے۔

دو مارچ سے قابض فوج نے غزہ کی گزرگاہوں کو بند کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ خوراک اور ادویات کی فراہمی پر پابندی عاید کی گئی ہے جس سے پوری پٹی میں قحط پھیل گیا ہے۔ادھرحماس نے کہا ہے کہ اس نازک وقت میں فلسطین کی مرکزی کونسل کا اجلاس نسل کشی کی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک متحد قومی پوزیشن قائم کرنے کا ایک حقیقی موقع بن سکتا ہے جو صیہونی دشمن غزہ کی پٹی میں ہمارے لوگوں کے خلاف جاری رکھے ہوئے ہے۔

حماس نے بدھ کے روز ایک بیان میں مزید کہا کہ یہ اجلاس شدید صیہونی جنگ کے شروع ہونے کے ڈیڑھ سال سے زائد عرصے کے بعد ہوا ہے مگر یہ نامکمل ہے۔ یہ قومی اتفاق رائے کی عکاسی نہیں کرتا کیوں کہ اس میں فلسطینی عوام کے تمام طبقات کو شامل نہیں کیا گیا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسے ہمارے لوگوں کی قربانیوں کی سطح تک بڑھنا چاہیے اور جنگ کو روکنے اور قومی حقوق کے دفاع میں متحد فلسطینی پوزیشن کے احترام کو بحال کرنے کے لیے ذمہ دارانہ اور جرات مندانہ فیصلوں کے ذریعے قومی امنگوں اور درد کا اظہار کرنا چاہیے۔

حماس نے مرکزی کونسل کے سابقہ فیصلوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ عباس ملیشیا کے سیکورٹی تعاون کا سلسلہ بند کرنے، صیہونی دشمن کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے،قابض دشمن اور اس کی یہودی آباد کاری کے منصوبوں کے خلاف عوامی اور سیاسی مزاحمت تیز کرنے کی ضروت پر زور دیا۔

قبل ازیںقابض اسرائیلی فوج نے بدھ کی صبح سویرے مغربی کنارے میں چھاپوں اور گرفتاریوں کی وسیع پیمانے پر مہم شروع کی جس میں گھر گھر تلاشی کے دوران متعدد شہریوں کو حراست میں لے لیا گیا۔قابض اسرائیلی فوج نے رام اللہ کے شمال میں واقع گاؤں کوبر پر چھاپے کے دوران 16 شہریوں کو حراست میں لے لیا جن میں صیہونی جیلوں سے رہا کیے گئے قیدی حنان برغوثی اور آصف برغوتی بھی شامل ہیں۔

قابض فوج نے کئی گھنٹے تک جاری رہنے والے چھاپے کے دوران کوبر قصبے کے متعدد رہائشیوں کو گرفتار کر لیا۔ انہوں نے درجنوں نوجوانوں کو حراست میں لیا اور رہائی پانے والے قیدی نائل برغوثی کے گھر کو فیلڈ تفتیشی مرکز میں تبدیل کرنے کے بعد ان سے پوچھ گچھ کی۔سلواد میں قابض فوج نے شہریوں رسلان احمد رسلان الطویل اور براء جمیل مرعی حامد کو گھروں پر چھاپہ مار کر حراست میں لے لیا۔

ادھر قابض فوج نے مقبوضہ بیت المقدس کے مشرق میں واقع قصبے عیساویہ میں شہریوں کے گھروں پر چھاپہ مار کر رضا عبید نامی نوجوان کو گرفتار کر لیا۔قابض فوج نے نابلس کے مشرق میں بیت فوریک قصبے پر دھاوا بول کر حال ہی میں رہا ہونے بشار فارس نصرہ کے گھر پر چھاپہ مارا اور اس کے بیٹے لیث کو گرفتار کرنے کے علاوہ نوجوان فواد زیاد نصرا کو گرفتار کر لیا۔

اس دوران ان کے گھر پر چھاپے کے دوران لوٹ مار اور توڑپھوڑ بھی کی۔قابض اسرائیلی فوج نے نابلس کے اطراف میں چیک پوائنٹس پر اپنا فوجی پہرہ سخت کر دیا اور گاڑیوں کی تلاشی لی۔اسی تناظر میں قابض فوج نے شمالی وادی اردن میں حمرہ فوجی چوکی پر اپنا فوجی گشت مزید سخت کر دیا جس سے شہریوں بالخصوص وادی اردن کی طرف جانے والوں کی نقل و حرکت میں رکاوٹ پیدا ہو گئی اور گاڑیوں کی بھیڑ اور سینکڑوں میٹر لمبی قطاریں لگ گئیں۔

قابض اسرائیلی فوج نے بیت لحم کے مغرب میں واقع قصبے نہالین پر چھاپہ مار کر سابق قیدی صالح محمود شاکرکو گرفتارکر لیا۔ انہوں نے شہر کے جنوب میں الخضر قصبے پر چھاپے کے دوران متعدد بچوں اور نوجوانوں کو بھی گرفتار کیا جبکہ ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ اسرائیل پر غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی اٹھانے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے کیونکہ ناکہ بندی کی وجہ سے پانچویں درجے کا غیر معمولی قحط پڑا ہے۔

مقبوضہ فلسطین میں ہیومن رائٹس واچ کے دفتر کے ڈائریکٹر عمر شاکر نے میڈیا بیانات میں اس بات پر زور دیا کہ صدر جو بائیڈن کی قیادت میں امریکی مداخلت جو ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اور بھی بڑھ گئی ہے وہ اسرائیل کو مزید شہریوں کا قتل جاری رکھنے کی ترغیب دیتی ہے جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین نشانہ بن رہے ہیں۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ اسرائیل غزہ میں جو کچھ کر رہا ہے وہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم ہیں جنہیں پوری دنیا روکنے میں ناکام رہی ہے۔عمر شاکر نے وضاحت کی کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے بھوک کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرنا ایک جنگی جرم ہے جو تمام بین الاقوامی قوانین اور کنونشنوں کی خلاف ورزی ہے۔

بچوں کو دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کا اسرائیلی سیاسی فیصلہ ایک غیر مسبوق جنگی جرم ہے۔ہیومن رائٹس واچ نے حکومتوں، بین الاقوامی اداروں پر زور دیا کہ وہ غزہ میں نسل کشی کو روکنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں، فوجی امداد روکیں، دو طرفہ معاہدوں اور سفارتی تعلقات پر نظرثانی کریں اور بین الاقوامی فوجداری عدالت اور دیگر احتسابی کوششوں کی حمایت کریں۔

دوسری جانب غزہ میں اسلامی جہاد کے عسکری ونگ القدس بریگیڈ نے اعلان کیا ہے کہ اس نے غزہ میں ایک قابض اسرائیلی فوج کا ایک خطرناک ڈرون پکڑ لیا ہے۔اپنے ٹیلیگرام چینل پر ایک بیان میں القدس بریگیڈز نے تصدیق کی کہ اس نے ایک میٹریس 350 RTK جاسوسی ڈرون قبضے میں لے لیا ہے۔

اس ڈرون کو اس وقت قبضے میں لیا گیا جب وہ خان یونس کی فضا میں متعدد انٹیلی جنس مشن چلا رہا تھا۔قبل ازیں القدس بریگیڈز نے غزہ شہر کے التفاح محلے کے مشرق میں گھسنے والی اسرائیلی انجینئرنگ فورس پر 60 کیلیبر کے مارٹر گولے فائر کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

فلسطینی صدر محمود عباس نے حماس پر یرغمالیوں کو رہا کرنے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے اسے غزہ پر اسرائیلی حملوں کو ہوا دینے کا بنیادی عنصر قرار دیا۔عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق محمود عباس کا رملہ میں ایک اجلاس میں کہنا تھا کہ حماس نے اسرائیل کو غزہ میں جرائم کا ارتکاب کرنے کے بہانے فراہم کیے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان میں سب سے نمایاں یرغمالیوں کو رکھنا ہے۔ ہمارے لوگ اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔انہوں نے حماس پر زور دیا کہ وہ غزہ کی ذمہ داریاں اور ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دے اور خود کو ایک سیاسی جماعت میں تبدیل کرے۔