التواء کیلئے نہ آنا،ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ

اسلام آباد: جی ایچ کیو حملہ کیس میں شیخ رشید کی بریت کی اپیل پر مہلت مانگنے پر سپریم کورٹ نے اسپیشل پراسیکوٹر پنجاب پر برہمی کا اظہار کیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ نے جی ایچ کیو حملہ کیس میں شیخ رشید کی بریت کی اپیل پر سماعت کی جس میں پنجاب حکومت نے شیخ رشید کی بریت کی اپیل پر شواہد پیش کرنے کے لیے وقت مانگ لیا۔

دورانِ سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ التوا مانگنا ہو تو آئندہ اس عدالت میں نہ آنا۔ التوا صرف جج، وکیل یا ملزم کے انتقال پر ہی ملے گا۔اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے عدالت کو بتایا کہ کچھ ملزمان کے اعترافی بیانات پیش کرنا چاہتے ہیں جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شیخ رشید کیخلاف کیا شواہد ہیں؟شیخ رشید کے وکیل نے کہا کہ جن اعترافی بیانات کا حوالہ دے رہے ہیں وہ فائل کا حصہ ہیں۔

حکومت مہلت خود مانگتی ہے اور الزام عدالتوں اور ملزمان پر لگاتی ہے۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ خدا کا خوف کریں شیخ رشید 50مرتبہ ایم این اے بن چکے ہیں۔ شیخ رشید بزرگ آدمی ہے، کہاں بھاگ کر جائے گا۔

اس عدالت میں صرف قانون کے مطابق ہی فیصلہ ہوگا۔ زمین گرے یا آسمان پھٹے، عدالت میں قانون سے ہٹ کر کچھ نہیں ہوگا۔اس موقع پر شیخ رشید کے وکیل سردار رازق نے سماعت اسی ہفتے مقرر کرنے کی استدعا کردی جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ آئندہ ہفتے مقدمہ لگ جائے گا اس کی پروا نہ کریں۔

دوسری جانب صنم جاوید کی 9مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔

سپریم کورٹ میں 9مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔

ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی ہے تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔

وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔

صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔