خودمختاری اور آزادی کا خواب

گزشتہ سے پیوستہ :
جنرل محمد ایوب خان مزید لکھتے ہیں:” بھارت نے شروع ہی سے ہماری راہ میں مشکلات پیدا کرنے کی ٹھان رکھی ہے، اس نے ہمارے لیے پناہ گیروں کی بحالی کا زبردست مسئلہ اس لیے پیدا کیا تھا کہ ہماری معیشت مفلوج ہو کر رہ جائے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ہمیں وہ ساز و سامان دینے سے بھی انکار کر دیا جس میں ملک کی تقسیم سے پہلے ہمارا حصہ تھا۔ اس نے ہمیں ان دریاوں کے بہاو کا رخ بدل دینے اور ان کا پانی روک لینے کی دھمکی دی جو ہمارے ملک میں بہتے ہیں۔
پھر اس نے تمام معاہدوں اور اصولوں کے خلاف جموں و کشمیر کی ریاست کے ایک بڑے حصے پر بزور قبضہ کر لیا اور اپنی فوجیں وہاں جمع کر کے ہمارے ملک کی سلامتی کے لیے ایک مستقل خطرہ پیدا کر دیا۔ ان سب باتوں کی تہہ میں بھارت کی یہ ہوس کار فرما تھی کہ وہ یا تو پاکستان کو اپنے میں جذب کر لے یا اسے اپنا حاشیہ نشین بنا لے۔ بھارتی لیڈروں نے اپنے ارادوں کو ڈھکا چھپا نہیں رکھا تھا۔ اچاریہ کرپلانی نے، جو 1947ء میں انڈین نیشنل کانگرس کے صدر تھے، علی الاعلان کہا ”نہ تو کانگریس اور نہ قوم اکھنڈ بھارت سے دستبردار ہوئی۔۔۔اس زمانے میں سردار ولبھ بھائی پٹیل نے، جو پہلے انڈین ہوم منسٹر تھے اور کانگرس پارٹی کے مرد آہن کہلاتے تھے، یہ کہا تھا ”بہت دیر نہ گزرے گی کہ ہم دوبارہ ایک ہو کر اپنے ملک کی اطاعت گزاری میں باہم شریک ہو جائیں گے۔“
”میں یہ بیان کر چکا ہوں کہ 1960ء سے 1964ء کا جو زمانہ گزرا، اس میں ہمیں ریاست ہائے متحدہ امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں کیسی تشویش پیدا ہو گئی تھی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے امریکا نے اپنی حکمتِ عملی کو حالات کے تابع کر دیا ہے۔ نیز یہ کہ جو تبدیلیاں وہ کر رہا ہے ان سے امریکی پالیسیوں اور پروگراموں کے اخلاقی پہلووں کی بابت لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ پاکستان کے لوگوں کو سخت مایوسی ہو رہی تھی۔ 1950ء اور 1960ء کے درمیانی عرصے میں امریکا اور پاکستان میں بڑی محنتوں سے جو رشتہ قائم ہوا تھا اب لوگوں کے دلوں سے اس کا احترام اٹھتا جا رہا تھا۔ ہم ہندوستان کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت سے چشم پوشی نہیں کر سکتے تھے، نہ ہندوستان کے حملے کی صورت میں امریکا کی امداد پر بھروسہ کر سکتے تھے۔ امریکا جس پالیسی پر عمل کر رہا تھا، ہم جانتے تھے کہ اس سے آگے چل کر ایشیاءمیں اس کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی۔ لیکن ہمارے پاس امریکا کو اس پالیسی سے باز رکھنے کے ذرائع نہیں تھے۔ امریکی حکومت کے دل و دماغ میں چین کا خطرہ چھایا ہوا تھا اور وہ ہندوستان سے بے اختیارانہ آس لگا رہی تھی کہ ہندوستان چینی خطرے کا توڑ ثابت ہوگا۔“
”ادھر پچھلے دس برس میں امریکا کی پالیسیوں میں بھی تبدیلیاں پیدا ہوئیں، جو ہندوستان کے بالمقابل امریکا کے اتحادی پاکستان کے لیے متواتر نقصان کا باعث ہوتی رہیں۔ جب ہم نے پہلے پہل امریکا کے ساتھ اتحاد کیا تھا تو اس غیر جانبداری کو، جسے ہندوستان ”ناطرفداری“ کے نام سے موسوم کرنا زیادہ پسند کرتا تھا، امریکا میں شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ بلکہ درحقیقت ”غیر اخلاقی“ سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس کا مطلب تھا کہ دونوں فریقوں کو بے وقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرو۔“
محمد ایوب خان مرحوم کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب میں یہ اقتباسات ہم نے اس لیے پیش کیے ہیں تاکہ مسٹر ہالبروک پر یہ بات واضح ہو کہ انہیں آقا کے بجائے دوست بننے کا جو مشورہ دیا گیا ہے وہ آج کا نہیں ہے بلکہ نصف صدی پہلے ان کے ملک سے یہ گزارش کی گئی تھی اور اس کے اسباب بھی واضح کر دیے گئے تھے۔ پاکستان کے حالات، امریکی پالیسیاں، اور پاکستانیوں کے جذبات آج بھی اسی طرح ہیں جیسے نصف صدی پہلے تھے۔ ان کی شدت میں تو کئی گنا اضافہ ہوا ہے لیکن ان میں کوئی فرق اور تغیر نہیں آیا۔ امریکا کے لیے ہمارے جذبات وہی ہیں، اور پیغام بھی وہی ہے جو ہمارے سابق صدر جناب محمد ایوب خان مرحوم نے 12جولائی 1961ء کو امریکی کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں دیا تھا۔ ایوب خان مرحوم لکھتے ہیں کہ:
”میں نے کانگرس کو اس کی ذمہ داریاں اور اس کے عالمی فرائض یاد دلائے۔ جب میں نے کہا کہ ”جو لوگ آپ کا ساتھ دیں گے وہ پاکستان ہی کے لوگ ہوں گے“ تو اس پر بڑی تالیاں بجائی گئیں، لیکن ابھی ان تالیوں کا شور تھمنے نہ پایا تھا کہ میں نے اتنا اور بڑھا دیا کہ ”بشرطیکہ…. بشرطیکہ آپ بھی پاکستان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں۔ چنانچہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کی مصلحت کے تقاضے کچھ بھی ہوں، آپ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جو ہمارے مسائل کو مشکل بنا دے یا ہماری سلامتی کو کسی قسم کے خطرے میں ڈال دے۔ جب تک آپ اس بات کو یاد رکھیں گے ہماری دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائے گی“۔جناب ہالبروک سے گزارش ہے کہ وہ امریکی کانگرس کے سامنے پاکستان کے صدر کے 12جولائی 1961ء کے اس خطاب کو ایک بار پھر پڑھ دیں اور عزت مآب باراک حسین اوباما کو بھی پڑھا دیں۔ کیونکہ پاکستان کے حکمران کچھ بھی کرتے رہیں مگر پاکستانی قوم کے ذہن نصف صدی بعد بھی ”بشرطیکہ…. بشرطیکہ“ کے اسی نکتے پر اٹکے ہوئے ہیں۔ اور ”بشرطیکہ“ تقاضوں کی طرف توجہ دیے بغیر امریکی حکمرانوں کو پاکستانی قوم سے اس کے غصے اور نفرت کے جذبات میں کمی کی کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔“