رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
غزہ کی پٹی میں سرکاری میڈیا آفس نے اعلان کیا ہے کہ اکتوبر 2025ءکو قابض اسرائیلی فوج کے آپریشن کے آغاز کے بعد سے فلسطینی صحافیوں کی شہادتوں کی تعداد بڑھ کر 208 ہو گئی ہے۔
دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ ’فلسطین ٹوڈے سیٹلائٹ چینل کے نامہ نگار صحافی محمد منصور کی شہادت کے اعلان کے بعد غزہ میں نسل کشی کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے صحافیوں کے شہیدوں کی تعداد 208 ہو گئی ہے‘۔ گزشتہ روز قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں الجزیرہ مباشر کے نامہ نگار حسام شبات کو بھی شہید کردیا تھا۔ دفتر نے قابض اسرائیلی فوج کی طرف سے فلسطینی صحافیوں کو نشانہ بنانے، قتل کرنے اور انہیں جنگ کا ایندھن بنانے کی شدید کی مذمت کی اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافتی اداروں سے مطالبہ کیا کہ ’غزہ میں صحافیوں کے خلاف ان منظم جرائم کی مذمت کریں‘۔ انہوں نے اسرائیل، امریکی انتظامیہ اور نسل کشی کے جرم میں ملوث ممالک برطانیہ، جرمنی اور فرانس کو اس وحشیانہ جرم کے ارتکاب کے لیے مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے عالمی برادری اور بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ نسل کشی کو روکنے اور غزہ میں صحافیوں اور میڈیا کے پیشہ ور افراد کے تحفظ کے لیے موثر دباو¿ ڈالیں۔
وزارت صحت کے مطابق 18 مارچ کو جب سے قابض فوج نے اپنی نسل کشی دوبارہ شروع کی ہے 792 فلسطینی شہید اور 1,663 زخمی ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کے گورنمنٹ میڈیا آفس نے غزہ کی پٹی پر قابض اسرائیل کی جانب سے مسلط کی گئی نسل کشی کی جنگ کے اہم ترین اعدادو شمار کی تفصیلات جاری کی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق یہ جارحیت 534 دن سے جاری ہے، جس کا آغاز 7 اکتوبر 2023 سے ہوا۔ اس کے بعد رواں ماہ 23 تاریخ (اتوار) تک کیا کچھ ہوا، اس کے اعداد وشمار جاری کیے ہیں۔ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
534 دن سے جاری نسل کشی میں اسرائیل فوج نے 12,000 بار اجتماعی قتل عام کیا جس کے نتیجے میں 61,221 افراد شہید اور لاپتہ ہوگئے۔ 11,200 سے زاید لاپتہ افراد میں وہ شہدا بھی شامل ہیں جو اسپتال نہیں پہنچائے جا سکے۔ ان کی قسمت ابھی تک نامعلوم ہے جبکہ50,021 شہدا کی لاشوں کو اسپتالوں میں پہنچا یا گیا۔11,850 فلسطینی خاندانوں کے خلاف قابض فوج نے قتل عام کیا۔2,165 خاندانوں کی نسل ختم کر دی گئی اور ان میں سے ایک فرد بھی زندہ نہیں بچا۔ ایسے خاندانوں کی تعداد 6161 ہے جن کا صرف ایک بچہ (نرینہ اولاد) زندہ بچا۔ باقی والد، والدہ اور خاندان کے تمام افراد کو شہید کر دیا گیا۔5,064 خاندانوں کا نرینہ اولاد کے علاوہ کوئی ایک فرد زندہ رہ گیا، ان دونوں خاندانوں کی تعداد 9,272 سے تجاوز کر گئی ہے۔ شہدا میں 17,954 بچے شامل ہیں۔ نسل کشی کے دوران 274 شیر خوار بچے پیدا ہوئے اور پھر شہید ہوگئے۔876 بچے قتل و غارت گری کے دوران شہید ہوئے اور ان کی عمریں ایک سال سے کم تھیں۔52 بچے غذائی قلت اور فاقہ کشی کی پالیسی کی وجہ سے شہید ہوئے۔17 بے گھر افراد خیموں میں شدید سردی کے نتیجے میں شہید ہوئے، جن میں 14 بچے تھے۔
نسل کشی کی جنگ میں اب تک 12,365 خواتین شہید ہو چکی ہیں۔1,394 طبی عملے (وزارت صحت) سے شہدا شامل ہیں۔ شہری دفاع کے 105 کارکن شہید ہوئے۔208 صحافیوں کو قابض فوج نے شہید کیا۔ 743 سیکورٹی فورسز اور پولیس کے اہلکار شہید ہوئے۔154 پولیس اور امدادی سیکورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ دجالی فوج نے7 اسپتالوں کے اندر اجتماعی قبروں میں سینکڑوں شہریوں کو دفن کر دیا۔ اسپتالوں کے اندر 7 اجتماعی قبروں سے 527 شہداء برآمد ہوئے۔ 113,274 زخمی ہوئے جو اسپتالوں میں پہنچے۔ 17,000 زخمی افراد کو طویل مدتی علاج و معالجے کی ضرورت ہے۔4,700 کے اعضا کٹ چکے، جن میں 18 فی صد بچے شامل ہیں۔ زخمیوں میں 60 فی صد سے زاید بچے اور خواتین ہیں۔400 صحافی اور میڈیا پروفیشنلز زخمی اور معذور ہوئے۔226 پناہ گاہوں اور نقل مکانی کے مراکز کو اسرائیلی فوج نے نشانہ بنایا۔ غزہ کی پٹی کے صرف 10 فی صد علاقے پر قابض فوج نے انسانی زون قائم کیا۔39,384 بچے اپنے والدین سے محروم ہوگئے۔14,323 خواتین نسل کشی کے دوران بیوہ ہوئیں۔3,500 بچے غذائی قلت، خوراک کی کمی اور بھوک کی وجہ سے موت کے خطرے میں ہیں۔
22,000 مریضوں کو بیرون ملک علاج کی ضرورت ہے۔13,000 مریض اور زخمی افراد نے منتقلی کا پروسیس مکمل کر لیا ہے اور وہ سفر کا انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن قابض درندے انہیں اجازت نہیں دے رہے۔12,500 کینسر کے مریض موت کا سامنا کر رہے ہیں اور انہیں علاج کی ضرورت ہے۔3,000 مختلف امراض کا شکار افردا کو بیرون ملک علاج کی ضرورت ہے۔ 2,136,026 افراد نقل مکانی کے نتیجے میں متعدی بیماریوں سے متاثر ہوئے۔ 71,338 افراد نقل مکانی کی وجہ سے وائرل ہیپاٹائٹس سے متاثر ہوئے۔60,000 حاملہ خواتین صحت کی دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔ 350,000 دائمی مریضوں کو ادویات کے داخلے پر قابض درندوں کی روک تھام کی وجہ سے خطرہ ہے۔ نسل کشی کی جنگ کے آغاز سے لے کر غزہ کی پٹی سے قابض فوج نے 6,628 شہریوں کو جبری اغوا کیا۔ 360 صحت کے اہلکاروں کی گرفتاری کے کیسز سامنے آئے۔ قابض ریاست کی جیلوں میں 3 ڈاکٹروں کو شہید کیا گیا۔48 صحافیوں کی گرفتاری ہوئی، جن کے نام معلوم ہیں۔26 شہری دفاع کے اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا۔
غزہ کی پٹی میں دو ملین افراد بے گھر کے 110,000 خیمے ختم ہو چکے ہیں اور اب بے گھر ہونے والوں کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ 280,000 خاندانوں کو ایک خیمے، شیلٹرز یا موبائل گھر کی ضرورت ہے۔221 سرکاری ہیڈکوارٹر بمباری میں تباہ ہو گئے۔139 اسکول اور یونیورسٹیاں مکمل طور پر اور 359 جزوی طور پر تباہ ہوئیں۔ 12,900 طلبا جنگ کے دوران شہید ہوئے۔ 785,000 طلبا تعلیم سے محروم ہوچکے۔ 800 اساتذہ اور تعلیمی شعبے کے ملازمین قابض فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔150 سائنسدانوں، ماہرین تعلیم، یونیورسٹی کے پروفیسرز اور محققین کو جنگ کے دوران موت کے گھاٹ اتار دیا۔ 825 مساجد مکمل طور پر تباہ اور 161 قابض فوج کی بمباری سے بری طرح متاثر ہوئیں۔ 3 چرچ تباہ ہوگئے۔60 قبرستانوں میں سے 19 مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو گئے۔2,300 لاشیں غزہ کی پٹی کے قبرستانوں سے قابض فوج نے چوری کیں۔ 165,000 ہاوسنگ یونٹ اور گھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ 115,000 ہاوسنگ یونٹس ناقابلِ رہائش ہوگئے۔ 200,000 ہاوسنگ یونٹ جزوی طور پر تباہ ہوئے۔
قابض فوج نے 100,000 ٹن دھماکہ خیز مواد غزہ کی پٹی پر گرایا ہے۔ 34 اسپتالوں کو جلا کر سروس سے باہر کر دیا گیا۔ 80 صحت کے مراکز کو تباہ کر دیا گیا۔ 162 صحت کی سہولیات کو نشانہ بنایا گیا۔ 138 ایمبولینسوں کو قبضے نے نشانہ بنایا۔206 آثار قدیمہ اور ورثے کے مقامات کو تباہ کیا گیا۔3,700 کلو میٹر بجلی کے نیٹ ورک کو تباہ کیا۔ 2,105 اوور ہیڈ اور زیر زمین بجلی کی تقسیم کے ٹرانسفارمرز کو تباہ کیا گیا۔330,000 کلو میٹر میٹر پانی کے نیٹ ورک کو تباہ کیا گیا۔
