حماس کے سینئر رہنماﺅں کی شہادتیں، اسرائیل کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ (ابوصوفیہ چترالی)

صہیونی ریاست نے غزہ کی تحریک مزاحمت کی سینئر قیادت کو ایک ایک کرکے نشانے پر رکھ لیا ہے۔ شبہ ہے کہ جنگ بندی کے دوران قیادت کی بڑے پیمانے پر جاسوسی ہوئی ہے اور امدادی کاموں کی آڑ میں آنے والے جاسوسوں کی نشاندہی پر انہیں ہٹ کیا جا رہا ہے۔ دو روز کے دوران صلاح البردویل اور اسماعیل برہوم کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ دونوں تحریک کے سیاسی ونگ کے 16 سینئر ارکان میں سے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ بھی شہید ہوگئیں۔ صلاح البردویل کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ جس وقت انہیں شہید کیا گیا وہ سحری سے قبل تہجد کی نماز میں مشغول تھے اور عین سجدے کی حالت میں شہید ہوگئے اور یہ تیئسویں رمضان کی طاق رات تھی۔ یعنی ممکنہ طور پر لیلة القدر۔
صلاح البردویل کو غزہ کے جنوب میں خان یونس کے علاقے المواسی میں ان کے خیمے پر بمباری کرکے شہید کر دیا گیا۔ جامعہ ازہر مصر کے فاضل ڈاکٹر صلاح البردویل کا شمار حماس کے سینئر رہنماﺅں میں ہوتا تھا۔ وہ متعدد اہم سیاسی عہدوں پر فائز رہے، فلسطینی قانون ساز اسمبلی کی سیاسی کمیٹی کے چیئرمین اور خارجی تعلقات کے انچارج تھے۔ وہ فلسطینی مصنفین کے اتحاد کے رکن بھی تھے اور ’الرسالة‘ ہفتہ وار اخبار کے ایڈیٹر ان چیف رہ چکے ہیں۔ وہ حماس میں خان یونس کے میڈیا ترجمان بھی تھے اور کئی فلاحی تنظیموں کے رکن بھی تھے۔ ایک ممتاز دانشور، ماہر تعلیم اور عظیم استاذ بھی تھے۔ 25 سال تک غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے۔ 1993 میں انہیں اسرائیلی فوج نے گرفتار کیا اور 70 دن تک غزہ اور عسقلان کی جیلوں میں تفتیش کی، تاہم ان پر لگے الزامات ثابت نہ ہو سکے اور انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔
ان کی شہادت کے اگلے دن اسرائیلی فوج نے حماس کے سیاسی بیورو کے ایک اور رہنما اسماعیل برہوم کو بھی قتل کر دیا۔ اسرائیلی فضائیہ نے برہوم کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ خان یونس کے ’مجمع ناصر طبی‘ میں علاج کروا رہے تھے۔ طبی، خاندانی اور تنظیمی ذرائع کے مطابق اسماعیل برہوم کو اسرائیلی فضائی حملے میں شدید زخمی ہونے کے بعد رفح شہر میں پہلی رات دوبارہ جنگ کے آغاز پر نشانہ بنایا گیا تھا، جو منگل کی صبح ہوا۔ اسماعیل برہوم اس کارروائی کے نتیجے میں فوراً شہید ہوگئے، ساتھ ہی ان کے قریبی رشتہ دار نوجوان ابراہیم برہوم بھی شہید ہوگئے۔ اسپتال کے سرجری وارڈ 8 زخمی اور مریض بھی حملے میں زخمی ہوگئے اور اسپتال کی عمارت مکمل طور پر تباہ اور غیرفعال ہوگئی۔
غزہ پر جنگ کے دوبارہ آغاز کے بعد اسرائیلی افواج نے ایک سلسلہ وار کارروائیاں شروع کی ہیں جن میں حکومتی، انتظامی اور سیکورٹی شعبوں کے ارکان اور حماس کے سیاسی رہنماو¿ں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔اسماعیل برہوم جنہیں ابومحمد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، 1960ء کی دہائی میں رفح شہر میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی انہیں مذہبی شخصیت کے طور پر جانا جاتا تھا اور وہ حماس کے پہلے ارکان میں سے تھے جنہوں نے 1987ء میں پہلے انتفاضے کے دوران حماس کی بنیاد رکھی تھی۔ برہوم نے مختلف عہدوں پر ترقی کرتے رہے اور مارچ 2021ء میں سیاسی دفتر کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ رفح شہر کے ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو فلسطین اور مصر میں پھیلا ہوا ہے اور اس خاندان نے بہت بڑی قربانیاں دی ہیں۔ برہوم کو شہر میں فلاحی کاموں اور سماجی اصلاح کے حوالے سے ایک ممتاز شخصیت کے طور پر جانا جاتا تھا۔
حماس نے برہوم کی شہادت پر تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ اسلامی اور رفاہی کاموں کی نمائندہ شخصیات میں سے تھے اور غزہ میں حماس کے اہم ستونوں میں سے ایک تھے۔ وہ ثابت قدمی، ایثار اور بے لوثیت کی مثال تھے اور زندگی اپنے عوام، دین اور سرزمین کی خدمت میں گزار دی۔ وہ فلسطین اور اس کے مقدسات کے لیے وفادار، سچے وابستہ اور دعوتی، سماجی اور انسانی کاموں کے میدانوں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ قائد برہوم کو علاج کے دوران اسپتال کے ایک حصے میں نشانہ بنانا ایک نئی دہشت گردی ہے۔ اسرائیل مقدسات، انسانی جانوں اور صحت کے مراکز کی بے حرمتی کرتا ہے۔ وہ عالمی قوانین اور معاہدوں کی کوئی پروا نہیں کرتا اور ہمارے عوام اور قیادت کے خلاف اس کی منظم قتل کی پالیسی جاری ہے۔‘
ڈاکٹر عاطف الحوت جو مجمع ناصر طبی کے جنرل ڈائریکٹر ہیں، نے الجزیرہ نیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسماعیل برہوم ’مردوں کے جراحی کے شعبے‘ میں ایک زخمی کی حیثیت سے علاج کروا رہے تھے، کیونکہ وہ چند دن پہلے ایک اسرائیلی فضائی حملے میں زخمی ہوئے تھے۔ ہم اخلاقی، پیشہ ورانہ اور انسانیت کے اصولوں کے مطابق کام کرتے ہیں اور ہم اسپتال آنے والے ہر شخص کا علاج کرتے ہیں، چاہے وہ دوست ہو یا دشمن۔ ہم ان سے ان کے مذہب، شناخت یا جس جماعت سے وہ تعلق رکھتے ہیں نہیں پوچھتے۔ ڈاکٹر عاطف نے یہ بھی کہا کہ ’کسی اسپتال کو نشانہ بنانا، زخمی یا مریض کو قتل کرنا جب وہ علاج حاصل کررہا ہو، اس کے علاوہ اسپتال کے دیگر زخمیوں، مریضوں اور عملے کو نقصان پہنچانا اور جراحی کے شعبے کو مکمل طور پر تباہ کرنا، یہ ایک ایسا جرم ہے جس پر شرمندگی ہوتی ہے اور یہ تمام بین الاقوامی اور انسانی قوانین و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔‘ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ مجمع ناصر طبی کو اسرائیلی فوج کی طرف سے براہ راست نشانہ بنایا گیا ہو، اس سے قبل اسرائیلی فوج نے اسپتال کی ’التحریر بلڈنگ‘ جو کہ بچوں اور ولادت کے لیے مخصوص تھی، کو بمباری کا نشانہ بنایا تھا، جس کے نتیجے میں ایک بچی شہید ہوگئی تھی۔ اس کے بعد اسرائیلی فوج نے مجمع کا محاصرہ کیا، اس میں داخل ہوئی اور دسمبر 2023ء میں اس کو تباہ کر دیا تھا اور یہ محاصرہ 4 ماہ تک جاری رہا۔ یہ کمپلیکس 3 اسپتالوں پر مشتمل ہے اور الشفا کے بعد غزہ کا سب سے بڑا اسپتال ہے، جنوب کے علاقے میں یہ واحد اسپتال ہے جو ابھی تک کام کررہا تھا جبکہ اسرائیلی فوج نے 7 اکتوبر 2023ءکو ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن کے بعد سے 25 اسپتالوں کو غیرفعال کردیا ہے۔
ڈاکٹر اسماعیل الثوابتہ غزہ میں حکومتی میڈیا دفتر کے جنرل ڈائریکٹر ہیں، وہ اسرائیلی افواج کی جانب سے حکومتی، انتظامی اور سیکورٹی شعبوں کے ارکان اور سیاسی رہنماوں کے قتل کو اس بات کی کوششوں کا حصہ قرار دیتے ہیں کہ اسرائیل عوامی امور کے انتظام اور حکومتی ڈھانچے کو ختم کرکے ایک انتظامی اور سیکورٹی خلا پیدا کرنا چاہتا ہے، تاکہ اہل غزہ کو ہجرت پر مجبور کیا جاسکے۔ اسرائیل کا مقصد انتظامیہ کو غیرمستحکم کرنا اور سیکورٹی اداروں کے داخلی محاذ کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت کو کمزور کرنا ہے، تاکہ ذمہ داروں کو نشانہ بناکر بے چینی پھیلائی جاسکے، اس طرح اسرائیل اہل غزہ کا حکومت پر اعتماد ختم کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ خود انتظامیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ الثوابتہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ غزہ کی حکومتی صلاحیت اسرائیلی قبضے کی کوششوں اور اس کے مقاصد کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس لیے قائدین کی شہادت کے بعد ان کے خلا کو پُر کرکے متبادل قیادت کے نظام کو فعال کیا جارہا ہے اور شہداء کی جگہ دوسرے ذمہ داران کو مقرر کیا جارہا ہے تاکہ انتظامی طور پر کوئی خلل نہ آئے اور حکومتی کاموں کے تسلسل کو یقینی بنایا جاسکے، اس طرح شہریوں کو خدمات کی فراہمی میں کوئی خلل نہ آئے۔
فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے بین الاقوامی حمایت کے ادارے کے صدر صلاح عبد العاطی کے مطابق اسرائیل کے ’ماورائے قانون قتل‘ اور قیادت کو نشانہ بنانے کا مقصد خلا اور بے چینی پیدا کرنا ہے۔ یہ کارروائیاں اسرائیل کے ’جنگ کے بعد کے منصوبے‘ کا حصہ ہیں جس کا مقصد غزہ کو ایک ناقابلِ رہائش علاقہ بنانا ہے اور وہاں کے عوام کو بے دخل کرنا ہے، اس طرح وہ زندگی کی تمام بنیادی ضروریات اور ذرائع کو تباہ کرکے علاقے کو ویران کردینا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے اسرائیل کو غزہ کی حکومتی، تنظیمی اور سیاسی قیادت کو نشانہ بناکر حماس کی حکومت کو گرانا اور اس کی انتظامی و سیکورٹی صلاحیتوں کو تباہ کرنا ضروری سمجھا گیا ہے تاکہ غزہ میں حالات کو قابو پانے کی حکومتی صلاحیت ختم ہوجائے۔ عبدالعاطی کا خیال ہے کہ غزہ میں حالات کو قابو میں رکھنے، قومی ہم آہنگی کو فروغ دینے اور غزہ کے لوگوں کے لیے مزاحمت کی حمایت کے طریقوں کو مضبوط کرنے کے لیے فوراً ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں اسرائیلی قبضے کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے، جن میں قیادت کی شہادت اور غزہ کے لوگوں کو بے دخل کرنے کے لیے ایک ادارے کی تشکیل شامل ہے۔
’مسارات سینٹر فار پولیٹیکل اسٹڈیز‘ کے ڈائریکٹر ہانی مصری کے مطابق حماس کی سیاسی اور فوجی قیادت کا صفایا کرنا، اسرائیل کے غزہ میں اپنے مقاصد کو پورا کرنے کی حکمت عملی کا بنیادی حصہ ہے۔ کسی بھی تنظیم پر اس قسم کے حملوں کا اثر پڑتا ہے، لیکن اسی وقت اسرائیل کے لیے حماس جیسی تحریک کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ جنوری میں فائر بندی کے معاہدے کے بعد اسرائیل نے انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کرنے پر کام کیا، خاص طور پر اس وقت جب حماس کے رہنماوں نے کھلے عام غزہ میں نظر آنا شروع کیا اور شاید انہوں نے اپنی سیکورٹی پر بھی توجہ کم دی، جس کے نتیجے میں ان میں سے کئی تک رسائی آسان ہو گئی۔ مصری کہتے ہیں کہ ’حماس کا وجود ایک ضرورت اور قومی مفاد کا بنیادی تقاضا ہے، جیسا کہ تمام قومی تنظیموں کا وجود ضروری ہے جب تک کہ قبضہ جاری ہے اور تمام فلسطینیوں کو حماس کے سرنڈر ہونے کے مطالبے کو مسترد کرنا چاہیے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ حماس کو موجودہ حقیقت کا جائزہ لینا چاہیے اور تجربے کا تجزیہ کر کے ایک قومی حکومت کی تشکیل پر کام کرنا چاہیے، جو غزہ میں عوام اور مزاحمت دونوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔