فلسطینیوں کی منظم نسل کشی،درجنوں شہید،غذائی بحران شدید

غزہ/واشنگٹن/تل ابیب/نیویارک:قابض اسرائیلی فوج نے مسلسل آٹھویں روز غزہ کی پٹی پر اپنی نئی جارحیت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے درجنوں فضائی حملے اور میزائل فائر کیے اور قتل و غارت اور نسل کشی میں وحشیانہ اضافہ کرتے ہوئے متعدد گھروں پر بمباری کی۔

غزہ میں غذائی بحران شدت اختیار کرگیا ،مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگاروں نے اطلاع دی ہے کہ غزہ کی پٹی کے مکینوں نے دہشت کی ایک اور رات گزاری۔ اسرائیلی جنگی طیارے مسلسل بمباری کررہے ہیں۔ گھروں اور خیموں پر بمباری کر رہے ہیں اور نہتے فلسطینیوں کا اجتماعی قتل عام اور خاندانوں کی منظم نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

طبی ذرائع کے مطابق منگل کی صبح سے غزہ کی پٹی پر قابض فوج کی جارحیت کے نتیجے میں درجنوںفلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔منگل کی صبح سویرے غزہ شہر کے جنوب میں الصابرہ محلے میں الخور خاندان کے گھر اسرائیلی فضائی حملے میں چارشہری شہید اور دیگر زخمی ہو گئے۔

سول ڈیفنس نے اعلان کیا کہ جنوبی غزہ میں الزیتون محلے میں الفاروق مسجد کے قریب ایک رہائشی عمارت، ”جوادت بلڈنگ” پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں شہادتیں ہوئیں اور زخمی ہوئے۔المواصی میں دیب خاندان کے تین شہری جن میں باپ اور اس کے دو بچے شامل ہیں ان کے ٰخیمے پر گرائے گئے بم کے دوران شہید ہوگئے۔

دو کم سن حقیقی بھائی عبادہ اوروسیم زیاد النجار اس وقت شہید ہوگئے جب قابض فوج نے خان یونس کے جنوب میں قزان النجار میں النجر خاندان کے گھر پر بمباری کی۔وسطی غزہ کی پٹی میں الزاویدہ قصبے کے القران کے علاقے میں اسرائیلی جنگی طیاروں کی شیلیٹ ہاؤسنگ پر بمباری سے ایک شہری شہید اور دیگر زخمی ہو گئے۔

خان یونس کے مشرق میں عبسان الکبیرہ قصبے میں ابو طائمہ محلے میں ایک گھر پر اسرائیلی بمباری میں متعدد شہری زخمی ہوئے۔قابض فوج نے وسطی غزہ کی پٹی میں البریج پناہ گزین کیمپ کے بلاک 7 میں ابو الروس خاندان کے گھر پر بمباری کی جس کے نتیجے میں آٹھ شہری شہیداور دیگر زخمی ہوگئے۔

وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلاح میں النخل روڈ پر ایک مکان کو نشانہ بنانے والی اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ایک خاتون شہید اور دیگر زخمی ہوگئے۔انشاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے پانچ شہری جن میں میاں بیوی، ان کے تین بچے آدھی رات کے فوراً بعد اس وقت مارے گئے جب قابض فوج نے خان یونس کے شمال میں حمد شہر میں بے گھر افراد کے ایک خیمہ خانے پر بمباری کی۔

ہمارے نامہ نگارنے اطلاع دی ہے کہ شہید ہونے والوں کی شناخت محمد ابراہیم انشاسی، ان کی اہلیہ انغم انشاسی اور ان کے بچے محمد، ابراہیم اور احمد کے ناموں سے کی گئی ہے۔رفح کے شمال میں واقع مصباح میں اسرائیلی ڈرون گولہ باری سے دو شہری زخمی ہو گئے۔

غزہ کی پٹی پر 18 مارچ منگل کی صبح سے قابض اسرائیلی فوج نے اپنی جارحیت دوبارہ شروع کی ہے۔ 700 سے زائد شہری شہید اور 1200 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔

قابض فوج 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ کی پٹی میں نسل کشی کر رہی ہے جس میں 163,000 سے زیادہ شہید اور زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں، اور 14,000 سے زیادہ لاپتہ ہیں۔ادھرغزہ کی پٹی پر الگ الگ اسرائیلی حملوں میں الجزیرہ کے ایک صحافی سمیت دو میڈیا کارکن شہید ہوئے۔

الجزیرہ مبشر کے لیے کام کرنے والے صحافی حسام شبات کو پیر کو شمالی غزہ میں قتل کر دیا گیا۔عینی شاہدین نے نیٹ ورک کو بتایا کہ ان کی گاڑی کو بیت لاہیا کے مشرقی حصے میں نشانہ بنایا گیا۔وسطی غزہ میں دیر البلاح سے رپورٹنگ کرتے ہوئے الجزیرہ کے طارق ابو عزوم نے کہا کہ 23سالہ شبات اس سے قبل ایک اور اسرائیلی حملے میں زخمی ہوئے تھے لیکن انہوں نے غزہ میں خبروں کی رپورٹنگ جاری رکھنے پر اصرار کیا تھا۔

ابو عزوم نے کہا، اسرائیلی فوج نے کوئی پیشگی وارننگ” دیئے بغیر ان کی گاڑی کو نشانہ بنایاجبکہ بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والی این جی او ”سیف دی چلڈرن” نے بتایا کہ غزہ جنگ میں سب سے زیادہ ان کا جانی نقصان ہوا جن کا جنگ میں رتی برابر بھی حصہ نہیں ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق سیف دی چلڈرن نے حالیہ ایک ہفتے کے دوران غزہ میں اسرائیلی بمباری سے ہونے والے نقصانات کے اعداد و شمار جاری کردیے۔بیان میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی بمباری میں ایک ہفتے کے دوران شہید ہونے والوں میں 270 سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔

سیف دی چلڈرن کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک ہزار سے زائد بچے یتیم ہوچکے ہیں جب کہ متعدد بے گھر ہوگئے۔بیان میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ غزہ میں بمباری کے علاوہ بھوک سے بھی بچے مر رہے ہیں۔

اسرائیلی فورسز اجناس کی ترسیل کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔دریں اثناء حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کی طرف سے جاری کی گئی ویڈیو میں دو اسیروں کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی بہتر تھی اور وہ 18 مارچ سے اسرائیل کی جانب سے ختم ہونے والی جنگ بندی سے قبل خود کو محفوظ محسوس کر رہے تھے۔

قیدیوں نے بتایا کہ وہ ”قیدی نمبر 21” اور ”قیدی نمبر 22” ہیں۔ان میں سے ایک نے کہا کہ کل تک ہمارا ایک نام اور ایک شناخت تھی اور مجھے امید تھی لیکن آج میں صرف ایک نمبر ہوں۔الجزیرہ کے مطابق ایک یرغمالی نے کہا کہ جنگ بندی معاہدے کے نافذ ہونے سے پہلے کراسنگ بند کر دی گئی تھی ہمارے رہنے کے حالات مشکل تھے اور ہمیں تقریباً کھانا نہیں ملتا تھا اور نہ ہی کوئی محفوظ جگہ تھی۔

جب معاہدہ شروع ہوا اور کراسنگ کھول دی گئی، حماس کے جنگجوؤں نے ہمارا خیال رکھا اور ہم بہتر محسوس کرنے لگے۔ ہمیں بھوک سے نجات ملی اور ہم تازہ ہوا میں سانس لینے لگے۔اسیر نے کہا کہ اسرائیل کا 18 مارچ کو غزہ پر دوبارہ جنگ شروع کرنا سخت دھچکا تھا۔

حماس کی ویڈیو میں اسرائیلی اسیران کی شناخت بوہبوت اور اوہانہ کے نام سے ہوئی ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے حماس کی جانب سے آج جاری کی گئی ایک ویڈیو میں ان دو اسیروں کی شناخت ایلکانہ بوہبوت اور یوسف ہیم اوہانہ کے نام سے کی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق دونوں مغویوں کو نووا میوزک فیسٹیول سے اغوا کیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ٹیمی بروس نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔ حماس یرغمالیوں کو رہا کرے اورغیر مسلح ہوجائے، حماس غزہ میں سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتی۔

واشنگٹن میں پریس بریفنگ دیتے ہوئے ٹیمی بروس نے کہا کہ حماس کو غیر ملکی یرغمالیوں کو فوراً رہا کرنا چاہیے اور اپنی مسلح سرگرمیاں روک دینی چاہیے۔ٹیمی بروس کا کہنا تھا کہ حماس کو غزہ میں اپنی جنگی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

امریکا اور اس کے اتحادی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حماس کو فوری طور پر غیر مسلح ہونا چاہیے تاکہ علاقے میں امن قائم ہو سکے اور انسانی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔پریس بریفنگ کے دوران ٹیمی بروس نے اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکا، اسرائیل کی خود دفاع کی حمایت کرتا ہے، مگر ساتھ ہی عالمی سطح پر غزہ میں جنگ کی شدت میں کمی اور غیر مسلح حماس کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ حماس اپنی جارحیت کو بند کرے اور اپنی کارروائیوں کے اثرات کو محدود کرے تاکہ ایک پائیدار امن کی جانب بڑھا جا سکے۔ٹیمی بروس نے کہا کہ امریکا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کرے گا کہ غزہ میں انسانی بحران کا خاتمہ ہو اور یرغمالیوں کی رہائی ہو۔

امریکا کا ماننا ہے کہ حماس کی غیر مسلح ہونے اور جنگی کارروائیاں بند کرنے کے بعد ہی علاقے میں امن قائم ہو سکے گا۔انھوں نے پریس بریفنگ میں واضح کیا کہ امریکا غزہ میں امن کی کوششوں میں مزید تیزی لانے کے لیے سرگرم ہے اور اس بات پر زور دے رہا ہے کہ حماس اپنی فوجی کارروائیاں ختم کرکے مذاکرات کی میز پر آئے۔

ادھراسرائیل نے غزہ جنگ بندی کے لیے نئی شرط عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس اپنے ہتھیار ڈال کر یرغمالیوں کو رہا کر دے تو جنگ بندی کی جا سکتی ہے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے کہا ہے کہ اگر غزہ میں آنے والی غیرملکی انسانی امداد سے حماس نے فائدہ اٹھایا تو امدادی سامان کو غزہ میں جانے نہیں دیا جائے گا۔

اسرائیلی وزرا کے یہ بیانات اس وقت سامنے آئے ہیں جب جنگ بندی مذاکرات کے ثالثوں نے تجویز پیش کی ہے کہ حماس امریکی نژاد سمیت 5 یرغمالیوں کو رہا کرے گا جس کے بعد اسرائیل ایک ہفتے کی جنگ بندی کرے گا اور اس ایک ہفتے کے دوران غزہ میں انسانی امداد داخل ہوسکے گی اور اسرائیل سیکڑوں فلسطینیوں کو بھی رہا کردے گا۔

حماس کے ایک ذمے دار نے بتایا کہ تنظیم نے ثالثوں کی جنگ بندی کی اس تجویز کا جواب دے دیا ہے۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تھا۔قبل ازیں اقوام متحدہ نے گزشتہ دنوں غزہ میں اپنے ہیڈکوارٹر پر حملے کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرا دیا۔

گزشتہ ہفتے غزہ کے علاقے دیر البلاح میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر پر مبینہ طور پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں اقوام متحدہ کا ایک غیر ملکی اہلکار ہلاک اور 5 دیگر شدید زخمی ہوئے تھے۔اسرائیلی فوج نے دیر البلاح میں اقوام متحدہ کی کسی بھی عمارت پر حملے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ میڈیا ادارے غیر مصدقہ رپورٹس پر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔

تاہم اب اقوام متحدہ نے باضابطہ طور پر غزہ میں اپنی عمارت پر حملے کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا ہے۔عرب میڈیا کے مطابق اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں گزشتہ ہفتے ہیڈکوارٹر پر ہونے والا حملہ جس میں ایک ملازم ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے، اسرائیلی ٹینک کے ذریعے کیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے کہا کہ دستیاب معلومات کی بنیاد پر 19 مارچ کو دیر البلاح میں اقوام متحدہ کے کمپائونڈ کو نشانہ بنانے والے حملے اسرائیلی ٹینک کی جانب سے کیے گئے تھے۔یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب اقوام متحدہ نے فلسطینی علاقے میں اپنے غیرملکی عملے کو عارضی طور پر کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

فلسطینی محکمہ اسیران کے سربراہ رائد ابو الحمس نے اسرائیل کی مجد جیل میں نابالغ قیدیوں (بچوں) کی تباہ کن صحت اور زندگی کے حالات سے خبردار کیا، جو ان کی زندگیوں کے لیے حقیقی خطرہ بن چکے ہیں۔

ابو الحمس نے وضاحت کی کہ جیل میں موجود نابالغ فلسطینی قیدیوں اور بچوں کے حالات کے بارے میں ہمارے پاس جو معلومات ہیں وہ ہمیں ان کے لیے مسلسل خوف، اضطراب اور تناؤ کی کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہیں، قابض جیل انتظامیہ منظم دہشت گردی کی مرتکب ہوتی ہے اور ان نابالغ بچوں کی کم عمری اور کمزور جسمانی ساخت کا استحصال کرتی ہے۔

وہ روزانہ ان کے علاج میں تشدد اور دھمکیوں کا استعمال کرتی ہے۔ابو الحمس نے انکشاف کیا کہ نابالغ قیدیوں کی اکثریت جلد کی بیماری ”خارش” میں مبتلا ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں ان میں ایک اور وائرس پھیل گیا ہے، جس سے مسلسل اسہال، پیٹ اور آنتوں میں درد اور سر درد ہوتا ہے۔

ابو الحمس نے نشاندہی کی کہ نابالغ قیدیوں کے لیے یہ تلخ حقیقت ان کے ساتھ جاری انتقامی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے جو 7 اکتوبر 2023ء کو فلسطینی عوام کے خلاف جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک تمام مرد اور خواتین قیدیوں کے خلاف استعمال ہوتی رہی ہیں۔ ان میں کھانے کی کمی، غٰر معیاری خوراک، ناقص خوراک اور علاج میں مجرمانہ غفلت جیسے ہتھکنڈے شامل ہیں۔

ابو الحمس نے مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی حقوق کی تنظیموں بالخصوص بچوں کے حقوق کی تنظیموں اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ مجد جیل میں نابالغ قیدیوں کو بچانے کے لیے فوری اقدام کریں اور اس حساس معاملے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں اور اخلاقیات کے مطابق فلسطینی قیدیوں کی مدد کریں۔