صدمہ جاریہ۔ لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

”خفیہ اداروں کا اصل کام، سرحدوں کا تحفظ اور دہشت گردی سے بچاؤ ہے۔ اگر وہ پولیٹیکل انجینئرنگ اور تحریک انصاف کو توڑنے میں ہی لگے رہیں گے تو سرحدوں کا تحفظ کون کرے گا؟میری اپنے بچوں سے بات نہیں کرائی جاتی۔ جیل مینوئل کے مطابق اپنی بیوی سے نہیں ملایا جا رہا۔” عمران خان کے بیان کا یہ اقتباس گواہی دینے کے لیے کافی ہے کہ جس ہیرے کو نہایت ہنرمندی سے تراشا گیا اور 25جولائی 2018ء کو آر ٹی ایس بٹھا کر قوم پر مسلّط کیا گیا وہ صدمہ جاریہ کی صورت میں قوم کے سامنے ہے۔

”وتعزّْ من تشاء وتذلّْ من تشائ” (وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے) کے ٹویٹ کے ذریعے اہل وطن کو جس کی آمد کی نویدسناتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ وہ شجرِآرزو کھل اٹھا جسے مقتدرہ کی کھیتی میں سینچا گیا۔ اس ”صدمہ جاریہ” کی فتنہ سامانی پاکستان کی سیاسی، سماجی اور جمہوری اقدار پر چرکے لگاکر انتشار اور نفرتوں کے کانٹے دار تھوہر کی کھیتیاں کاشت کررہی ہے، 9مئی کبھی فطری ردّعمل قرار پایا اور کبھی فالس فلیگ آپریشن۔ بیرون ملک سے آپریٹ اکاؤنٹس اپنی جگہ، عمران خان کے باضابطہ ایکس اکاؤنٹ کی ٹویٹ اس نازک صورت حال میں بھی دہشت گردوں سے ہمدردی اور افواج پاکستان کی دشمنی سے عبارت ہیں
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
دوسرے مما لک اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے جعفر ایکسپریس سانحے کی مذمت کی، مگر عمرانی ٹوئٹر خاموش رہنے پر عوام انگشت بدنداں ہیںکہ:
یہ کیا ہو رہا ہے یہ کیوں ہو رہا ہے

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شمولیت سے خان انکار نہ کرتے تو حیرت ہوتی۔ جو شخص وزیراعظم ہوتے ہوئے قومی سلامتی کے موضوع پر کسی کانفرنس میں جہاں تمام پارلیمانی جماعتیں اور مسلح افواج کی قیادت موجود ہو، اس استدلال کی بنا پر شریک نہ ہوکہ چوروں اور ڈاکوؤں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا۔ یادش بخیر! FATF کے حوالے سے اجلاس تھا، پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں ڈالا جا رہا تھا۔ بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے قوانین میں تبدیلیاں کرنے کے لیے کہا گیا تو قانون سازی کیلئے عمران کے پاس اکثریت نہ تھی، اس لیے اپوزیشن سے مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید، اپوزیشن ارکان، شہباز شریف’ مولانا فضل الرحمن’ بلاول بھٹو’ خواجہ آصف اور دیگر پہنچے تو، وزیراعظم کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ عمران نے”چور ڈاکوؤں” کے ساتھ بیٹھ کر بریفنگ سننے سے انکار کر دیا ہے۔ سب حیران تھے کہ وزیراعظم کا اس اہم ایشو پر یہ رویہ ہے اور وہ اس اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں، قانون سازی کے لیے جس کا محتاج ہے تو وہ ملک کیا چلائے گا۔ فیٹف کی طرح دیگر اہم قومی معاملات پر بھی وہ بریفنگز کا بائیکاٹ کرتے رہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فی الوقت تمام تر تحفظات کے باوجود قوم کے ساتھ کھڑے ہوتے اور مولانا فضل الرحمن کی طرح اپنا موقف بیان کرتے چاہے، کسی کو اس سے اختلاف ہوتا۔

2018ء کے الیکشن کے بعد ہی محب وطن حلقوں کو احساس ہو گیا تھا کہ خان نے عوام سے وعدے صرف وزیراعظم بننے کیلئے کیے تھے۔ عمران خان آج قانون کی حکمرانی کی دہائیاں دے رہے ہیں، ان کے ہاں انصاف کا معیار کیا ہے؟ یہ واقعہ اس کی ایک مثال ہے۔ عمران وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے سے پہلے عمرہ کے لیے جا رہے تھے، ان کے ڈونر زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ میں تھا۔ عمران خان نے ایئر پورٹ سے نگران حکومت کے وزیر داخلہ کو فون کیا کہ زلفی کا نام فوراً بلیک لسٹ سے نکالو۔ انہیں بتایا گیا کہ اس کا قانونی پراسس دو ہفتوں کا ہے۔ خان نے حکم دیا کہ یہ سب کچھ ابھی کر یں۔ زلفی بخاری کیلئے فوری اجلاس بلاکر بلیک لسٹ سے نکلوایا۔ اس سے عمران کی افتاد طبع کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کے ہاں انصاف وہی ہے جو مخالفین پر اپلائی ہو۔ اپنوں کیلئے ان کا انصاف الگ ہے۔
تازہ صورتحال میں پارلیمنٹ میں بلوچستان ایشو پر سیاسی جماعتوں کو بریفنگ کا انتظام کیا گیا جس میں تمام پارٹیاں مدعو تھیں، تاکہ مشترکہ پالیسی بنائی جا سکے۔ پہلے پی ٹی آئی نے ہامی بھری اور اپنے چودہ پارلیمنٹرینز کے نام بھی دیے لیکن پھر یہ شرط رکھ دی کہ اگر عمران خان سے ملاقات نہ کرائی گئی تو وہ اس اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔ تحریک انصاف کے ارکان کے مبلغ علم کا یہ عالم تھا کہ کچھ پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کی دہائی دیتے پائے گئے، حالانکہ عمران اسمبلی کے رکن نہیں تو پروڈکشن آرڈر کیسے ایشو ہو سکتا ہے؟
بہرحال عمران خان کا یہ طرزِ عمل ان کے مستقبل کو تاریک ہی کر سکتا ہے۔ ٹرمپ سے لگائی توقعات کی طرح ان کی رہائی کے متعلق امیدیں بھی خاک میں مل سکتی ہیں۔ مظفر رزمی کے بقول
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
جو لوگ عمران خان کی حمایت میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے تھے وہ بھی اب یہ کہتے نظر آتے ہیں۔
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا یہ کہنا بجا ہے کہ ہمیں بہتر گورننس کے ساتھ پاکستان کو ایک ہارڈ اسٹیٹ بنانے کی ضرورت ہے، ہم کب تک سوفٹ اسٹیٹ بن کر جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے۔ سوفٹ اسٹیٹ کی اصطلاح 60کی دہائی میں سویڈش ریسرچر گونار مائیڈرل نے متعارف کرائی جس نے اپنی تصنیف میں مختلف ایشیائی ممالک خصوصاً انڈیا کو درپیش مسائل کا ذمہ دار نرم حکومتی پالیسیوں کو ٹھہرایا اور اس امر پر زور دیا کہ حکومت کی نرم پالیسیاں قانون کے نفاذ میں ناکامی اور ریاستی اداروں کی کمزوری کا باعث بنتی ہیں جو کرپشن، غربت، بیڈ گورننس، انارکی جیسے سماجی مسائل عفریت بن کر ریاست کو عدم استحکام سے دوچار کر دیتے ہیں۔ سوفٹ ریاست اپنی پالیسیاں مؤثر انداز میں نافذ کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتی ہے۔ پڑوسی ممالک ناراض گروہوں کو اپنا مفادات کے لیے آلہ کار بناتے ہیں، لوگوں کا اعتماد حکومت سے اٹھ جاتا ہے اور وہ یہ محسوس کر تے ہیں کہ حکومت ان کی جان و مال کی حفاظت میں ناکام ہے۔ بدعنوانی، اندرونی شورش، معاشی پسماندگی اور غیریقینی صورتحال سرمایہ کاروں، عالمی اداروں، بزنس کمیونٹی اور تعلیم یافتہ نئی نسل کو دوسرے ممالک جانے پر مجبور کرتی ہے، ایک نرم ریاست قانون کی حکمرانی، آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کیلئے خطرات کا باعث بنتی ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد جرمنی کی سوفٹ اسٹیٹ نے کرپشن، جرائم اور شدت پسندی کیلئے ماحول کو سازگار کیا جس نے نازیوں کو عروج دیا۔ اسی طرح اٹلی، فرانس، میکسیکو، وینزویلا، نائیجیریا سمیت مختلف ممالک کے عدم استحکام کا ذمہ دار سوفٹ اسٹیٹ کو قرار دیا گیا، ہندوستان میں انگریز سامراج کا عروج بھی راجوں، مہاراجوں اور نوابوں کی چھوٹی چھوٹی سوفٹ اسٹیٹس کے باعث ہی ممکن ہوا۔ انٹرنیشنل پالیٹکس میں ہارڈ ریاست کا تصور ریاستی قوانین کے سختی سے نفاذ سے مشروط ہے، چین، جنوبی کوریا، سنگاپور اور متحدہ عرب امارات کی مثالیں ہیں جو نرم کبھی ریاستیں تھیں لیکن جب انہوں نے خود کو ہارڈ اسٹیٹ میں ڈھالا تو وہ عالمی برادری کیلئے رول ماڈل قرار پائیں۔ پاکستان بھی ہارڈ اسٹیٹ بنے بغیر بحرانوں سے نجات نہیں پاسکتا۔