ماحولیاتی تبدیلی آج کے دور کا ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے، جو زمین کے درجہ حرارت میں اضافے، غیر متوقع موسمیاتی تبدیلیوں، گلیشیئرز کے پگھلنے، اور شدید قدرتی آفات کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں گرمی کی شدت میں اضافہ، غیر متوازن بارشیں، طوفان، خشک سالی اور سمندری سطح میں اضافے جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ دنیا بھر میں اس ماحولیاتی بحران کے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہے، جس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر زہریلی گیسیں شامل ہیں۔ یہ گیسیں فضا میں جمع ہو کر زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی، صنعتوں سے نکلنے والی آلودگی، فوسل فیول کے بے جا استعمال اور بے ہنگم شہری ترقی بھی ماحولیاتی بگاڑ کے اہم عوامل ہیں۔
انسانی سرگرمیاں ماحولیاتی تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ صنعتی انقلاب کے بعد سے فوسل فیول کے استعمال میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے، جس نے فضا میں کاربن کی مقدار کو بڑھا دیا ہے۔ گاڑیوں، کارخانوں اور بجلی گھروں سے نکلنے والا دھواں نہ صرف فضائی آلودگی میں اضافہ کر رہا ہے بلکہ عالمی درجہ حرارت میں بھی اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ شہروں کی تیز رفتار ترقی کے ساتھ سبزہ زاروں اور درختوں کی بے دریغ کٹائی بھی جاری ہے، جس کے نتیجے میں زمین کے قدرتی ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ جنگلات، جو فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے آکسیجن مہیا کرتے ہیں، جب کم ہو جاتے ہیں تو کاربن کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے، جو ماحولیاتی تبدیلی کو مزید تیز کر دیتا ہے۔ پلاسٹک کا بے جا استعمال، پانی کے وسائل کا غیر ذمہ دارانہ استعمال، اور زمین کی کھدائی بھی ماحولیاتی عدم توازن پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ شہری علاقوں میں اربن ہیٹ آئی لینڈ کا مسئلہ بھی اسی بے ہنگم ترقی کا نتیجہ ہے، جہاں کنکریٹ اور سیمنٹ کی عمارتیں گرمی کو جذب کرتی ہیں اور درختوں کی کمی کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ توانائی کے صاف اور قابل تجدید ذرائع کو فروغ دیا جائے۔ فوسل فیول کے بجائے سولر، ونڈ اور ہائیڈرو پاور جیسے متبادل توانائی کے ذرائع استعمال کیے جائیں تاکہ کاربن کے اخراج میں کمی لائی جا سکے۔ ٹرانسپورٹ کے بہتر انتظامات کیے جائیں، جس میں پبلک ٹرانسپورٹ، الیکٹرک وہیکلز اور سائیکلوں کا استعمال شامل ہو۔ جنگلات کی بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر شجرکاری کی جائے اور درختوں کی کٹائی کو سختی سے روکا جائے۔ اس کے علاوہ پانی اور توانائی کے ضیاع کو کم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور ماحول دوست عادات کو اپنانا ہوگا۔ صنعتی فضلے کو بہتر طریقے سے ٹھکانے لگانے، پلاسٹک کے استعمال میں کمی اور ری سائیکلنگ کے کلچر کو فروغ دینا بھی ضروری ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے عوام میں شعور پیدا کرنے کے لیے تعلیمی اداروں اور میڈیا کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ لوگ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں۔
پاکستان میں ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے کئی اہم اقدامات کیے جا رہے ہیں، جن میں شجرکاری مہم نمایاں ہے۔ حکومت نے ”بلین ٹری سونامی” اور ”ٹین بلین ٹری سونامی” جیسے منصوبے متعارف کروائے ہیں تاکہ ملک میں جنگلات کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ ان منصوبوں کے تحت لاکھوں درخت لگائے جا چکے ہیں اور مزید بھی لگائے جا رہے ہیں تاکہ ماحولیاتی توازن کو بحال کیا جا سکے۔ درخت نہ صرف فضا کو آلودگی سے پاک کرتے ہیں بلکہ وہ زمین کے کٹاؤ کو روکتے ہیں، بارشوں کے نظام کو بہتر بناتے ہیں اور درجہ حرارت کو متوازن رکھتے ہیں۔ شہروں میں زیادہ درخت لگانے سے نہ صرف گرمی کی شدت کم کی جا سکتی ہے بلکہ فضائی آلودگی پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ حکومت نے پلاسٹک کے استعمال میں کمی کے لیے قوانین بنائے ہیں، ماحول دوست صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور ماحولیاتی تحقیق کے لیے فنڈز فراہم کیے جا رہے ہیں تاکہ ایک دیرپا اور پائیدار ماحولیاتی نظام قائم کیا جا سکے۔
حکومت کے اقدامات اپنی جگہ، لیکن جب تک عوام اس مہم میں بھرپور کردار ادا نہیں کریں گے، ماحولیاتی تبدیلی پر قابو پانا ممکن نہیں ہوگا۔ ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ ہر فرد کو چاہیے کہ وہ ہر سال کم از کم ایک درخت لگائے اور اس کی حفاظت کرے تاکہ درخت بڑے ہو کر فضا میں آکسیجن کی مقدار کو بڑھا سکیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کم کر سکیں۔ پلاسٹک کے استعمال کو کم کرنا اور ری سائیکلنگ کو فروغ دینا بھی ہر فرد کی ذمہ داری ہے کیونکہ پلاسٹک کا کچرا زمین اور سمندری حیات کے لیے شدید خطرہ بن چکا ہے۔ بجلی اور پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے عوام کو محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ قدرتی وسائل کا دیرپا استعمال ممکن ہو۔ روزمرہ زندگی میں ماحول دوست ٹرانسپورٹ جیسے سائیکل یا پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال بڑھایا جائے اور غیر ضروری گاڑیوں کے استعمال سے گریز کیا جائے تاکہ فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکے۔ اسی طرح اپنے آس پاس کے علاقوں کی صفائی کا خاص خیال رکھا جائے اور کچرے کو صحیح طریقے سے ٹھکانے لگایا جائے تاکہ شہروں میں صفائی اور ماحول کی بہتری کو یقینی بنایا جا سکے۔ اگر ہم سب مل کر ماحولیاتی تحفظ کے لیے اقدامات کریں، تو ہم ایک سرسبز، صحت مند اور محفوظ پاکستان بنا سکتے ہیں۔