انسانی سماج اور آسمانی تعلیمات

گزشتہ دن الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں علماء و طلبہ کی ایک فکری نشست سے خطاب کا موقع ملا، جس کا خلاصہ نذر قارئین کیا جا رہا ہے:

بعد الحمد والصلوٰة۔ آج مذہبی آزادی، مذہبی حقوق اور مذہبی مساوات کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مذہبی حقوق کے حوالے سے ہم کہیں فرق کرتے ہیں تو اعتراض ہوتا ہے کہ آپ ملک میں رہنے والی کچھ آبادی کے مذہبی حقوق کو اپنے حقوق سے مختلف شمار کرتے ہیں، جس سے مذہبی مساوات نہیں رہتی۔ اسی طرح غیرمسلم اقلیتوں پر کسی حوالے سے پابندی لگاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اس سے مذہبی آزادی مجروح ہو رہی ہے اور مذہبی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔

مذہب کے حوالے سے آج کا بنیادی سوال یہ ہے کہ مذہب کا کوئی معاشرتی کردار ہے یا نہیں؟ اجتماعی معاملات میں مذہب کی ہدایات لی جائیں گی یا نہیں؟ مغرب نے انقلابِ فرانس یعنی 1790ء کے بعد طے کر لیا تھا کہ مذہب کا تعلق عقیدے، اخلاقیات، عبادات اور چرچ کے ساتھ ہے، اجتماعی معاشرت کے ساتھ نہیں ہے۔ یعنی معاشرے کے جو قومی شعبے ہیں تجارت، معیشت، قانون سازی، عدالت وغیرہ ان سے مذہب کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ انقلابِ فرانس کے بعد مغرب نے جو نئی بنیادیں نظامِ زندگی کے لیے طے کی تھیں، ان میں یہ تھا کہ ہم مذہب سے رہنمائی حاصل نہیں کریں گے، مذہبی احکام کی پابندی ضروری نہیں ہے، بلکہ اجتماعیات میں ہم مذہب کی دخل اندازی قبول نہیں کریں گے کہ حکومت ایسی ہونی چاہیے، عدالت ایسی ہونی چاہیے، معیشت ایسی ہونی چاہیے اور یہ کہ حلال حرام اور جائز ناجائز کے دائرے مذہب کی رو سے طے ہونے چاہئیں، وغیر ذالک۔ اور جس طرح مغرب نے خود کو مذہب کے معاشرتی کردار سے الگ کر لیا، ہم سے تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی مذہب کے معاشرتی کردار سے لاتعلق ہو جائیں۔ یہ کشمکش دو سو سال سے چل رہی ہے جس میں ہمارے حکمران طبقے تو گول مول چلے آ رہے ہیں لیکن سول سوسائٹی اور عام مسلمان مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔

مثال کے طور پر مغربی دنیا میں خاندانی قوانین سول لا کے تحت ہیں اور ان پر مذہبی احکامات کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ان کا انسانی حقوق کا فلسفہ نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ میں بائبل کے احکام قبول نہیں کرتا۔ عقلِ عامہ جسے کامن سینس کہتے ہیں، اس کی رو سے پارلیمنٹ یا سول سوسائٹی جو طے کر دے اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ مغرب کے ہاں مذہب انفرادی اور اختیاری چیز ہے کہ کوئی اختیار کرنا چاہے یا نہ کرنا چاہے لیکن مسلم معاشروں میں ابھی تک الحمد للہ عام آدمی نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ میں مذہب ہی سے رہنمائی حاصل کرتا ہے، کوئی مسلمان اگر امریکا میں بھی رہتا ہے تو خاندانی معاملات میں وہ علمائے دین سے ہی فتویٰ کے لیے رجوع کرتا ہے۔

مذہب کے معاشرتی کردار میں تجارت اور معیشت بھی ہیں کہ اس میں مذہبی احکام کا کیا دخل ہے اور اس میں سیاست بھی ہے کہ حکومت مذہبی اصولوں کے مطابق قائم ہو، یا حکومت مذہبی احکام کے نفاذ کی ذمہ داری قبول کرے یا حکومت مذہبی احکام کے نفاذ میں کوئی کردار ادا کرے۔ یہ سب باتیں مغرب کے ہاں ناقابل قبول ہے۔ خاندانی نظام میں، معیشت اور تجارت میں، عدلیہ اور قانون میں، سیاست اور حکومت میں، ان چاروں بڑے دائروں میں کہیں بھی مذہب، مذہبی احکام اور مذہبی روایات کی بالادستی کو مغرب تسلیم نہیں کرتا۔
آج کے مسلم معاشروں میں حکومت و سیاست اور قانون و عدالت کے معاملات میں مذہب کا کردار کسی جگہ ہے اور کسی جگہ نہیں ہے، لیکن دو دائروں میں مسلمان ابھی تک مذہب سے وابستہ ہیں اور اس سے دستبرداری کے لیے تیار نہیں ہیں: ایک حلال و حرام کا دائرہ اور دوسرا خاندانی نظام یعنی نکاح و طلاق اور وراثت وغیرہ کے معاملات۔ اگرچہ حکومتی سطح پر مذہبی احکام کو گول مول کرنے کے لیے مختلف حیلے اختیار کیے جاتے ہیں، مثلاً ایوب خان مرحوم کے زمانے میں 1962ء میں عورت کو طلاق کا حق دلوانے کے نام پر نکاح فارم میں تفویض ِطلاق کا خانہ رکھا گیا تاکہ مغرب کو مطمئن کر سکیں کہ ہمارے ہاں عورت کو بھی طلاق دینے کا حق حاصل ہے لیکن اس کا کچھ خاص نتیجہ نہیں نکلا کہ اب بھی نکاح ہوتے وقت کسی کو کوئی خبر نہیں ہوتی کہ یہ دفعہ کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ عام معاشرے نے اسے قبول نہیں کیا۔ عام مسلمان نکاح، طلاق، وراثت اور حلال و حرام کے مسائل میں مذہب سے رہنمائی لیتے ہیں اور اس مقصد کے لیے مسجد اور مدرسہ کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں۔

مغرب کا کہنا ہے کہ مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور حکومت کی بنیاد مذہب پر نہیں ہونی چاہیے۔ آج کے متجددین اور دانشور بھی یہ بحث چھیڑتے ہیں کہ مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کا ایک پہلو عرض کرتا ہوں۔ مجھ سے جب دوست پوچھتے ہیں کہ ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق ہے یا نہیں ہے؟ تو میں ان سے مختصراً یہ کہا کرتا ہوں کہ اگر تو ریاست و حکومت میں ہمارے آئیڈیل حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما ہیں تو اس کی تو بنیاد ہی مذہب پر ہے۔ ہمارے ہاں ریاست کا آغاز، جسے خلافت کہتے ہیں، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ہوتا ہے۔ جب انہوں نے حکومت سنبھالی تھی تو اس کا دائرہ جزیرة العرب تھا، حکومت سنبھالتے ہی آپ نے پہلی بات یہ کی تھی کہ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ ”اقودکم بکتاب اللہ وسنة نبیہ” میں تمہیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق چلاؤں گا۔ اگر میں کتاب اللہ اور سنت کے مطابق نہ چلوں تو میری اطاعت تم پر فرض نہیں ہے۔ یہی بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہی تھی جب آپ خلیفہ منتخب ہوئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست و حکومت اور رعایا کے تعلق کی بنیاد قرآن و سنت ہے جبکہ مغرب اس بات کو تسلیم نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ مذہب کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ ریاست کی بنیاد سول سوسائٹی کی خواہشات پر ہے۔
ہمارے ہاں سیاسی نظام کا عنوان خلافت ہے جو تقریباً تیرہ سو سال تک قائم رہی ہے۔ خلافت دراصل نیابت ہے یعنی خلیفہ خود مستقل حکمران نہیں ہے بلکہ اصل حاکم کا نائب ہے۔ یہاں ایک مغالطہ دور کرنا چاہتا ہوں کہ خلیفہ نائب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کا، یہ بات درست نہیں۔ الاحکام السلطانیہ میں قاضی ابویعلیٰ نے روایت نقل کی ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی نے کہا تھا ” یا خلیفة اللہ!” آپ نے ٹوک دیا اور فرمایا ”لست بخلیفة اللہ، انا خلیفة رسول اللہ” میں اللہ کا خلیفہ نہیں ہوں، رسول اللہ کا خلیفہ ہوں۔ یہ بہت بنیادی بات ہے، چنانچہ اصول یہ ہے کہ ہمارے ہاں حکومت نیابتِ رسول کا نام ہے اور حکومت کی بنیاد قرآن و سنت ہے، جبکہ مغرب اور آج کا عالمی نظام یہ کہتا ہے کہ مذہب کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔

اس حوالے سے ایک عنوان مذہبی مساوات کا ہے۔ ایک اسلامی ریاست میں متعدد معاملات میں غیر مسلم رعیت کو وہ آزادی نہیں ہے جو مسلمانوں کو حاصل ہے۔ ویسے تو ان کو جائز حقوق حاصل ہیں لیکن کچھ معاملات میں مسلمانوں کا امتیاز ہے۔ مثلاً غیرمسلم شہریوں کو مسلمانوں کے سامنے کھلم کھلا اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق نہیں ہے۔ مسیحی یا کوئی اور اقلیت اپنے دائرے میں تعلیم و تبلیغ تو کر سکتے ہیں لیکن مسلم اکثریت کو دعوت نہیں دے سکتے۔ یہ مذہبی مساوات کے خلاف قرار پاتا ہے کہ جو حقوق ایک مسلم ریاست میں مسلمانوں کو حاصل ہیں وہ تمام حقوق غیرمسلموں کو حاصل نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں پاکستان کے قانون میں یہ ہے کہ ملک کا سربراہ کوئی غیرمسلم نہیں بن سکتا اور جب آپ یہ کہتے ہیں کہ کلیدی آسامیوں پر یعنی ایسے مناصب جو پالیسی ساز حیثیت رکھتے ہوں، ان پر غیرمسلموں کی تقرری نہ کی جائے، تو اسے مذہبی مساوات کے خلاف سمجھا جاتا ہے کہ جب مسلمان ان عہدوں پر فائز ہو سکتا ہے تو غیر مسلم کیوں نہیں ہو سکتا۔ (جاری ہے)