دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ عربی زبان کے اس لفظ اسلام کے مفہوم میں سلامتی بھی شامل ہے اور سرتسلیم خم کردینا، یعنی خود سپردگی بھی اس کا ایک معنٰی ہے۔ اسلام کی ایک اور تعریف جو اپنی معنویت کے لحاظ سے بہت جامع ہے، یوں کی جاتی ہے۔ اسلام عبادات اور معاملات کا مجموعہ ہے۔ یعنی اسلام میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دو اہم ترین شعبے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان توازن بھی اسلام کے حسن کو نمایاں کرتا ہے۔ روزے میں ان دونوں پہلووں کی نمایندگی ہے۔ اللہ سے تعلق روزے کا منشا ہے اور محروم طبقات کی بھوک، احتیاج اور مشکلات کا احساس اور اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی روزے کا لازمی تقاضا ہے۔ اسلام میں افراط و تفریط کو غیر پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ رمضان کے روزے تو فرض ہیں، نفلی روزوں میں اعتدال کا حکم دیا گیا ہے۔
رمضان کے دوران ایک اہم ترین عبادت اعتکاف ہے۔ اعتکاف میں تو بندہ اپنے مالک کے بہت قریب پہنچ جاتا ہے۔ اسلام میں جتنی عبادات ہیں، وہ انسان کی زندگی کا تزکیہ کرنے، اس کی سوچ کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھالنے اور اس کے قدموں کو طے شدہ منہج پر چلانے کا ذریعہ ہیں۔ اعتکاف ایک ایسی عبادت ہے جس میں ایک محدود مدت کے لیے بندہ دنیوی مصروفیات سے وقت نکال کر مکمل طور پر خود کواللہ کی عبادت، اپنی اصلاح اور فکر آخرت میں مشغول کرلیتا ہے۔ اعتکاف کے دوران لیلة القدر کی تلاش اور اس کے ذریعے اللہ کی رضا بندۂ مومن کا مطمحِ نظر ہوتاہے۔
اعتکاف کا لفظی معنی خود کو روکے رکھنا، کسی چیز کو مضبوطی سے قائم رکھنا اور کسی مقصد سے مکمل وابستگی اختیار کرناہے۔ اعتکاف پر عمل پیر اہونے کا بہت زیادہ اجر ہے۔ اعتکاف کے دوران ایک مومن مسجد میں ٹھہرا رہتا ہے اور اللہ سے لو لگائے اس بات کا ہر لمحے بزبانِ حال اعلان کرتا ہے کہ اس نے خواہشات نفس کی اکساہٹوں کو روک دیا ہے اور اللہ سے مضبوط تعلق قائم کرلیا ہے۔
روزے کے دوران صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک مومن خود کو کھانے پینے اور جنسی تعلقات سے روکے رکھتا ہے۔ روزہ افطار ہونے کے وقت سے لے کر اگلی صبح صادق تک وہ کھانے پینے اور اپنے شریکِ حیات سے تعلقاتِ زن و شوہر قائم کرنے میں آزاد ہوتاہے مگر اعتکاف کے دوران دن اور رات کے کسی بھی حصے میں جنسی تعلقات قائم کرنا حرام قرار پاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں اسے تبتل کے جامع لفظ سے واضح کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس لفظ تبتل کا مکمل مفہوم تو کسی دوسری زبان میں ایک لفظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، مگر تفہیم کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ سب سے کٹ کرایک اللہ کا ہو رہنا۔ اس لحاظ سے اعتکاف تبتل کا بہترین مظہر ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران اس پر عمل کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری 10 دنوں میں مسجد میں قیام فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول عمر بھر رہا۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ معمول ہے جو مدینہ طیبہ میں رہا، کیونکہ رمضان کے روزوں کاحکم مدینہ طیبہ میں آیا تھا۔ دوسرے یہ کہ مکہ میں اس وقت تک سرے سے کوئی مسجد ہی نہیں تھی اور خانہ کعبہ میں اعتکاف کرنے کا کوئی موقع نہیں تھا، اس لیے اس سے مراد یہی ہے کہ قیامِ مدینہ طیبہ میں آخر وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول رہاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری 10 دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ (کتاب الصوم، ص: 267ـ 268)
یہ اس حدیث کی تشریح ہے جو حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے اور جو متفق علیہ احادیث میں سے ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کی حکمتوں میں سے ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ قرآن مجید کی سورة القدر کے مطابق رمضان میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا تھا اور ہر سال جب یہ رات آتی ہے تو جبریلِ امین اللہ کی رحمتیں لے کر فرشتوں کے جھرمٹ میں آسمان سے زمین پر اترتے ہیں۔ اس رات کو عبادت میں مصروف اہل ایمان کورحمتِ خداوندی میں سے وافر حصہ عطا ہوتا ہے اور وہ دوزخ سے خلاصی پاتے اور جنت کے مستحق بن جاتے ہیں۔