بھارت، مسلمانوں کی نئی آزمائش

لگتا ہے جب تک مودی حکومت کا اور بی جے پی کا اقتدار رہے گا بھارتی مسلمانوں کی آزمائشیں ختم نہیں ہوں گی۔

نیا امتحان بھارت میں مسلمانوں کا وقف ترمیمی بل ہے، جو اب پارلیمنٹ میں کسی بھی وقت پیش کیا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کی تمام سیاسی اور غیر سیاسی جماعتیں اس ترمیمی بل کی مخالف ہیں۔  17 مارچ کو جنتر منتر نئی دہلی میں مسلمان جماعتوں اور تنظیموں نے اکٹھے ہو کر اس بل کے خلاف بڑا حتجاجی مظاہرہ کیا۔ بی جے پی اور مودی کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے اس احتجاج کا کوئی فائدہ ہوگا ایسا نظر نہیں آتا۔ ذرا دیکھیں کہ یہ مسئلہ ہے کیا اور مسلمان اسے کیوں اپنے مذہبی بنیادی حقوق میں مداخلت سمجھتے ہیں۔لیکن اس وقت ’’جنتر منتر ‘کا لفظ پڑھ کر 2006ء کا وہ دن یاد آ گیا جب جناب امجد اسلام امجد اور عازم گروندر کوہلی کے ساتھ میں جے پور راجستھان میں راجا جے سنگھ (1723ء) کے بنائے جنتر منتر پر کھڑا تھا۔ راجہ کے وسیع محلات اور مشہور ہوا محل کے پہلو میں موجود یہ جنترمنتر راجا جے سنگھ کی بنوائی ہوئی ان پانچ رصدگاہوں میں سے ایک ہے جو کیلنڈر اجرامِ فلکی کے مطالعے اور آسمان کے مشاہدوں کے لیے بنوایا گیا تھا۔ نئی دہلی کا جنتر منتر بھی انہی پانچ رصدگاہوں میں سے ایک ہے جو اب مختلف مظاہروں کے لیے پسندیدہ جگہ بن گئی ہے۔
نئی دہلی کیساتھ ہی بہار اور آندھرا پردیش سمیت کئی دوسرے شہروں میں بھی مظاہرے کیے گئے۔ اس بل کے مضمرات جاننے کے لیے پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ مسلم وقف ہے کیا؟ اسلام میں وقف ایک مذہبی عطیہ ہے جو تمام مسلمانوں یا کسی مخصوص طبقے یا عطیہ کرنے والے کے گھرانے کی فلاح کے لیے جائیداد کی شکل میں تحفتاً دیا جاتا ہے۔ ایسی جائیدادیں کسی دوسرے مقصد کے لیے نہ فروخت کی جا سکتی ہیں نہ وراثت میں منتقل ہو سکتی ہیں بلکہ وہ ہمیشہ اللہ کی راہ میں اسی مقصد کے لیے وقف رہتی ہیں۔ ترکیہ پاکستان سمیت بڑے مسلم ممالک میں وقف کی دیکھ بھال اور انتظام کے لیے بڑے محکمے قائم ہیں جو شرعی اُصولوں کے تحت ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں مساجد، مدارس، قبرستانوں، یتیم خانوں، مزارات اور درگاہوں میں ان املاک کی بڑی تعداد استعمال ہوتی ہے اور بہت سی خالی زمینوں پر تجاوزات بھی قائم ہوچکی ہیں۔
بھارت میں یہ املاک 1995ء کے وقف ایکٹ کے تحت ہیں جن کے انتظام کے لیے ریاستی سطح کے بورڈز کی تشکیل لازمی ہے۔ ان بورڈز میں ریاستی حکومت کے نامزد افراد مسلمان قانون ساز، ریاستی بار کونسل کے اراکین، مسلمان علما اور وقف املاک کے منتظمین شامل ہوتے ہیں۔ بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ وقف بورڈ بھارت میں سب سے بڑے زمین مالکان میں سے ہیں۔ ملک بھر میں آٹھ لاکھ 72 ہزار 351 وقف املاک ہیں جن کی زمین نو لاکھ 40 ہزار ایکڑ سے زیادہ بنتی ہے۔ اس مالیت کا اندازہ ایک کھرب دو ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ مودی حکومت کا موقف ہے کہ وقف املاک اور وقف بورڈز میں بڑے پیمانے کی بدعنوانیاں پائی جاتی ہیں اور وقف ترمیمی بل ان کی اصلاحات کے لیے لایا جارہا ہے۔ مسلم تنظیمیں کافی جگہ ان املاک اور بورڈز میں بد عنوانی ایک سنگین مسئلہ مانتی ہیں، ان میں اصلاح کی ضرورت سمجھتی ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان اصلاحات کی آڑ میں مودی حکومت کی نیت ان زمینوں اور جاگیروں پر قبضے کی ہے۔ نیز حکومت کی نیت یہ ہے کہ اس خالص مذہبی معاملے میں حکومتی افراد اور غیرمسلموں کو بڑی تعداد میں شامل کروایا جائے۔ اس ترمیمی بل کے بعد مسلم اوقاف میں مساجد، مزارات اور درگاہوں کی زمینیں سرکاری قبضے میں چلی جائیں گی۔ سب سے زیادہ متنازع بات ملکیت کے قوانین میں تبدیلی ہے۔ مجوزہ قوانین میں ’استعمال کے ذریعے وقف یعنی وقف بائی یوز کا طریقہ موجود ہے جس کے تحت اگر کوئی جائیداد وقف کے استعمال میں ہے تو کاغذات نہ ہونے یا مشتبہ ہونے کی صورت میں بھی وہ وقف کے استعمال میں رہے گی‘۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سینکڑوں سالوں میں مسلمان سلاطین مغلیہ حکومت انگریزی دور حکومت سے ہوتی آئی ان زمینوں کے کاغذات یا تو ہیں ہی نہیں یا وہ قانونی ریکارڈ کے بغیر عطیہ کی گئی تھیں۔
بہت سی جائیدادیں ہیں جو نسل در نسل مسلمانوں کے زیر استعمال ہیں اور ان کے پاس رسمی دستاویزات نہیں۔ اب مجوزہ قوانین میں ’استعمال کے ذریعے وقف‘ کے طریقے میں تبدیلی کی جارہی ہے۔ نیز وقف املاک سے متعلق تنازعات اب تک وقف ٹربیونل میں طے ہوتے تھے، اب ترامیم کے ذریعے یہ اختیار حکومت کے نامزد افسر کو دینے کی بات کی گئی ہے۔ وقف بورڈ میں غیرمسلم افسران کو شامل کیا جا رہا ہے اور وقف کا غیرمسلم سی ای او مقرر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان تبدیلیوں سے مسلمانوں کی نسل در نسل جائیدادیں بڑی تعداد میں حکومتی اختیار میں چلی جائیں گی۔ ایک عجیب شق یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان اپنی زمین ’وقف للہ ‘کرنا چاہتا ہے تو اسے ثابت کرنا ہو گا کہ وہ پچھلے پانچ سال میں بھی مسلمان رہا تھا۔
ان سب باتوں پر مسلمانوں کو شدید اعتراضات اور تحفظات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں نے غیرقانونی طور پر وقف زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ نئے قانون میں انہیں یہ دعویٰ کرنے کا موقع مل جائے گا کہ یہ جائیداد ان کی ہے۔ ذرا اس دعوے پر بھی ایک نظر ڈال لیں کہ وقف بورڈ بھارت میں زمین کے سب سے بڑے مالکان میں سے ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان نے کہا ہے کہ مین سٹریم میڈیا فرقہ پرستو ں کے اس گمراہ کن پروپیگنڈے کو پھیلا رہا ہے کہ ملک میں ملٹری اور ریلوے کے بعد سب سے زیادہ زمینیں وقف کی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آندھرا پردیش اور تامل ناڈو کی مشترکہ ہندو وقف املاک اور اڑیسہ میں مندروں کی املاک وقف املاک سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس تمام احتجاج کے باوجود بی جے پی کا موقف روایتی ہٹ دھرمی کا ہے۔ وقف بل پر بی جے پی کے رکن پارلیمان اور جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین جگدمبیکا پال نے کہا کہ بل کو منظور ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔ مسلمان بی جے پی کے علاوہ دیگر غیرمسلم جماعتوں سے اپنے موقف کی تائید کی امید رکھتے ہیں، لیکن ابھی تک کسی نے زبانی بیانات کے علاوہ پُرزور طریقے سے ان کی حمایت نہیں کی ہے۔ مسلمان رہنما یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر یہ بل پاس ہو گیا تو اس کے بعد دیگر اقلیتوں مثلاً سکھوں کے وقف املاک کا نمبر آئے گا۔ اس وقت بھارت کے تمام مذاہب میں سکھ وقف املاک سب سے زیادہ منظم بندوبست کے ساتھ چلائی جارہی ہیں۔ یہ وقف جائیدادیں ایک خودمختار اور منتخب انتظامیہ کے زیر نگرانی ہوتی ہیں۔
ایک پس منظر یہ بھی ہے کہ 2006ء میں کانگریس حکومت کی طرف سے قائم کردہ ایک کمیٹی میں جسٹس سچر نے رپورٹ دی تھی کہ مسلم اوقاف کے موثر استعمال سے 120 ارب روپے سالانہ حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہے جبکہ اس وقت آمدن دو ارب روپے سالانہ ہے۔ اس لیے اصلاحات کی شدید ضرورت ہے۔ بی جے پی نے انہی اصلاحات کی آڑ لیتے ہوئے مسلم اوقاف پر یہ نیا حملہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے ترجمان کے مطابق یہ بل وقف کی خود مختاری پر سنگین حملہ اور مسلم اوقاف کو کمزور کرنے کے لیے منظم سازش ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان سب کے باوجود بی جے پی یہ بل منظور کروا لے گی۔ اس کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں ہے۔ مسلم تنظیموں کے علاوہ باقی تمام سیاسی جماعتیں اس سے بے نیاز ہیں، خواہ وہ اپوزیشن جماعتیں ہوں۔ بل منظور ہونے کی صورت میں شاید مسلمان عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ لیکن گزشتہ دس پندرہ سال میں انہیں اہم فیصلوں میں ریلیف نہیں دیا گیا۔ اس لیے اس کا امکان بھی کم ہے کہ عدالت اس بل کو غیرآئینی اور بنیادی مذہبی حقوق کے خلاف قرار دے۔ احتجاج کے معاملات میں سکھ برادری مسلمانوں کی نسبت زیادہ مطالبات منواتی رہی ہے۔ پنجاب کے کسانوں کا طویل دھرنا دیکھ لیں۔ اسی لیے بی جے پی ان کے معاملات میں دخل دیتے ڈرتی ہے۔ جب تک احتجاج ایسا نہ ہو کہ حکومت کے لیے سیاسی یا انتظامی خطرہ بن جائے اس کے موثر ہونے کا امکان نہیں ہے۔