گزشتہ سے پیوستہ:
چنانچہ حضرات صحابہ کرام ؓمیں مقابلہ اور مسابقت کا میدان نیکیوں کا تھا اور وہ اس میدان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمر بن الخطابؓ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ساری زندگی یہ حسرت رہی کہ نیکیوں میں حضرت ابوبکرؓ سے آگے بڑھوں مگر دو واقعات نے مجھے اس حسرت کے پورا ہونے سے مایوس کر دیا اور میرے دل نے گواہی دی کہ اس شیخ سے آگے بڑھنا میرے بس میں نہیں ہے۔
ایک واقعہ تبوک کے غزوہ کا بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ کے لیے صحابہ کرام ؓسے زیادہ سے زیادہ چندہ لانے کے لیے کہا تو حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ ان دنوں میری حالت حضرت ابوبکرؓسے اچھی تھی اور میں خوش تھا کہ آج میں سبقت حاصل کر لوں گا۔ چنانچہ خوشی خوشی گھر گیا اور جو کچھ بھی گھر میں موجود تھا، نقدی، سامان، غلہ، کھجوریں وغیرہ سب آدھا آدھا کیا۔ نصف سامان گھر میں چھوڑا اور نصف سامان باندھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ ادھر سے حضرت ابوبکر ؓ بھی ایک گٹھڑی اٹھائے آگئے۔ آنحضرت نے پوچھا کہ آپ کیا لائے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے بتایا کہ جو کچھ گھر میں تھا نصف نصف کر کے آدھا گھر میں چھوڑ آیا ہوں اور آدھا آپؓ کی خدمت میں لے آیا ہوں۔ اور پھر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! جو کچھ گھر میں تھا اٹھا کر لے آیا ہوں اور گھر میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نام کے سوا کچھ نہیں چھوڑا۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ یہ سن کر میرے دل میں چوٹ سی لگی اور دل نے گواہی دی کہ عمر! اس شیخ سے نیکی میں آگے بڑھنا مشکل ہے۔
دوسرا واقعہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت کے دور کا بیان کرتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کا کہنا ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک ضعیف اور بے سہارا خاتون تھی، ایک کٹیا میں رہتی تھی اور انتہائی ضعیف اور نابینا تھی۔ ایک دن مجھے خیال آیا کہ اس خاتون کی تھوڑی بہت خدمت کرنی چاہیے۔ ایک روز صبح نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر اس خیال سے کٹیا کی طرف گیا کہ اس بڑھیا کی کٹیا کی صفائی کر دوں گا، پانی کا برتن بھر کر رکھ دوں گا اور کچھ کھانے پینے کی چیز دے آو¿ں گا۔ وہاں پہنچا، بڑھیا سے سلام عرض کیا اور کہا کہ میں مدینہ منورہ کا باشندہ ہوں اور اس خیال سے آیا ہوں۔ اس نے کہا کہ بیٹا تم سے پہلے ایک شخص آیا تھا، وہ روزانہ آتا ہے اور یہ سارے کام کر جاتا ہے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اگلے روز میں ذرا جلدی گیا تاکہ یہ دیکھوں کہ وہ شخص کون ہے؟ دیکھا کہ ایک شخص منہ لپیٹے ہوئے پانی کا گھڑا بڑھیا کی کٹیا میں رکھ کر باہر آرہا ہے۔ قریب ہوکر معلوم کیا تو وہ خلیفہ وقت حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھے جو صبح سویرے مدینہ منورہ کی ایک بے سہارا، معذور اور ضعیف بڑھیا کی خدمت گزاری کے فرض سے عہدہ برآ ہو رہے تھے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اس روز تو میرے دل نے یہ فیصلہ دے دیا کہ یہ مقابلہ میرے بس کی بات نہیں اور اس شیخ سے نیکیوں میں آگے بڑھنا ممکن ہی نہیں ہے۔
میں سوشل ویلفیئر سوسائٹی کے نوجوانوں سے عرض کروں گا کہ باہم مقابلہ اور مسابقت کا اصل میدان یہ ہے۔ اس لیے نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں اور معاشرہ کے نادار اور بے سہارا لوگوں کی بڑھ چڑھ کر خدمت کریں۔ یہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور اسلام کی بنیادی تعلیمات کا حصہ ہے۔ ابھی مجھ سے پہلے ایک نوجوان نے خطاب کرتے ہوئے یہ ذکر کیا ہے کہ سوشل ورک کا سب سے بڑا کام لوگوں کو گمراہی سے نکالنا ہے اور ہدایت کے راستے پر لانا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا مشن یہی تھا کہ نسل انسانی کو راہ راست پر لایا جائے اور جہنم سے انسانوں کو بچانے کی کوشش کی جائے۔ حتیٰ کہ قرآن کریم میں حضور علیہ السلام کی اس خواہش کو ”حرص“ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے جو کسی خواہش کا آخری اور انتہائی درجہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”حریص علیکم“ ۔ نبی اکرم تمہارے ایمان لانے اور ہدایت پانے پر حریص ہیں۔
اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مثال یوں دی ہے کہ جیسے اندھوں کا ایک بڑا گروہ ایک طرف کو جا رہا ہو اور ادھر بہت بڑا گڑھا ہو جس میں آگ جل رہی ہو جبکہ ایک بینا شخص اس منظر کو دیکھ رہا ہو، اب اس سے برداشت نہیں ہوگا اور وہ آوازیں دے گا، شور مچائے گا اور قریب آکر ان اندھوں کو گڑھے کی طرف جانے سے روکنے کی کوشش کرے گا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میری اور تمہاری مثال ایسی ہی ہے، تم لوگوں کو جہنم کا گڑھا نظر نہیں آرہا اور تم سب اس کی طرف بھاگے جا رہے ہو، مجھے وہ گڑھا دکھائی دے رہا ہے اور تمہارا اس کی طرف دوڑے چلے جانا بھی نظر آرہا ہے اس لیے میں تمہیں آوازیں دے رہا ہوں اور میری ہر ممکن کوشش ہے کہ کوئی شخص اس گڑھے میں نہ گرنے پائے۔البتہ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے اور اس کا تکوینی فیصلہ ہے کہ ہدایت دینے کا اختیار اس نے اپنے پاس رکھا ہے کہ جس کو چاہے ہدایت دے اور جس کو چاہے نہ دے۔ اس لیے میں نوجوانوں سے عرض کرتا ہوں کہ لوگوں کی راہنمائی کرنا، انہیں ایمان کے راستے پر لانا، کفر اور گمراہی سے بچانا اور نیک اعمال کی ترغیب دے کر اچھے مسلمان بنانا بھی جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن ہے اور دکھی انسانیت کی خدمت کرنا، نادار لوگوں کے کام آنا، لوگوں کی مشکلات اور مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنا اور بے سہارا لوگوں کا سہارا بننا بھی سنت نبوی ہے۔ یہ سب سوشل ویلفیئر کے کام ہیں اور ان میں سے جس شعبہ میں بھی موقع مل جائے اس میں کام کرنا ہم سب کے لیے سعادت کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین!
