مشرق وسطی کے بارے میں امریکی منصوبہ

ریاست ہائے متحدہ امریکا کی ”قومی سلامتی کونسل” نے 1991ء کے دوران عالم اسلام اور مشرق وسطیٰ کے حوالہ سے ایک منصوبہ طے کیا تھا جو وائس آف امریکا سے نشر ہوا اور روزنامہ جنگ لاہور نے 15جولائی 1992ء کو اس کا اردو ترجمہ شائع کیا۔ یہ منصوبہ اس سے پہلے بھی چند سال قبل قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا چکا ہے مگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اعلانات کا پس منظر سمجھنے کے لیے اس پر دوبارہ نظر ڈال لینا بلکہ بار بار اسے دیکھتے رہنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ اسے ارباب فکر و دانش کی خدمت میں اس گزارش کے ساتھ ایک بار پھر پیش کیا جا رہا ہے کہ اس امر کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس منصوبے پر عملدرآمد کی اب تک کی صورتحال کیا ہے اور اس وقت ہم کس مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ عملاً ہم کچھ کرنا چاہیں یا نہیں یا کچھ کر سکیں یا نہیں، کم از کم ہمیں اس حوالہ سے اپنی موجودہ صورتحال کا علم اور ادراک تو ہونا چاہیے۔ (راشدی)

”منصوبے کے اہم نکات کچھ یوں ہیں:
1۔ مستقبل میں قیام امن کے نفاذ میں دیگر ممالک مثلاً فرانس، برطانیہ، اٹلی اور روس کو شامل کیا جانا چاہیے۔
2۔ ایران اور ترکیہ ایسے غیر عرب ممالک کو ان ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے تیار کیا جانا چاہیے جنہوں نے ہمارے ساتھ مل کر عراق کے خلاف جنگ لڑی، مثلاً خلیجی ریاستیں، مصر، شام اور مراکش۔
3۔ ایران اور عراق میں ہونے والے واقعات کے پیش نظر ہماری مستقبل میں سیاست یہ ہوگی کہ ایک ایسی فوج تیار کی جائے یا موجود رکھی جائے جو کسی بھی دوسری فوجی طاقت کا مقابلہ کر سکے، اس طرح اس منطقہ (مشرق وسطیٰ) میں طاقت کا توازن بھی قائم رہے گا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوگا کہ کسی عرب ریاست یا ترکی یا ایران یا ایتھوپیا (حبشہ) کو (علاقہ کا پولیس مین بنا کر اسے یہ اجازت بھی دی جائے کہ وہ) امریکی مفادات کے لیے خطرہ بن سکے۔

4۔ خلیجی ریاستوں کی دفاعی طاقت (نہ کہ جنگی صلاحیت) کو بہتر بنایا جائے اور یہاں فوجی خدمات کو لازمی بنایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ملحوظ رکھا جائے کہ ان ریاستوں کے ہمسایہ ممالک میں سے کسی کو بھی فوجی اعتبار سے اس قدر طاقتور نہ بننے دیا جائے کہ وہ ان پر حملہ آور ہو سکے۔
5۔ جارحانہ اور مکمل تباہ کن جنگی ساز و سامان کی فروخت عرب اور اسلامی ممالک کو کرنا ہی پڑے تو درج ذیل امور کو مدنظر رکھنا ہوگا: (١) ایسا اسلحہ زیادہ مقدار میں نہ دیا جائے۔ (٢) اس قسم کا اسلحہ نہ دیا جائے جو تیزی کے ساتھ حرکت میں لایا جا سکے یا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکے۔ (٣) فاضل پرزہ جات پوری مقدار میں نہ دیے جائیں۔

6۔ شام، مصر اور بعض دوسری چھوٹی غیر عرب ریاستوں مثلاً ایران، ترکی اور ایتھوپیا کی معمولی نمائندگی کے اشتراک سے ایک مشترکہ امن فوج تیار کی جائے۔
7۔ خلیجی ریاستوں کی دولت جو ان پر حملوں کا سبب بنی ہوئی ہے، کی مناسب تقسیم ایک بینک برائے تعمیر کے ذریعے عمل میں لائی جائے گی مگر اس بینک کی اصل پالیسی امریکا، برطانیہ اور فرانس وضع کریں گے۔ اس بینک کی نمایاں ترجیحات یہ ہوں گی: (١) مشترکہ امن فوج کا کنٹرول سنبھالنا۔ (٢) ایسے ممالک میں بڑے منصوبوں کی تعمیر و تکمیل کے لیے فنڈ مہیا کرنا جو (مذکورہ بالا) مشترکہ فوج کے معاون ہوں مثلاً شام۔ (٣) اس طرح ان بعض غیر عرب ممالک میں ایسے منصوبوں کی تکمیل کے لیے فنڈات مہیا کرنا جو اس منطقہ میں امن کے لیے ایک بڑا رول ادا کر سکتے ہیں مثلاً ایران، ترکی اور حبشہ۔ (٤) بعض غیر اہم اور غریب حکومتوں مثلاً یمن، تیونس اور سوڈان کی مالی معاونت کرنا۔

8۔ تمام عرب ملکوں کے ایسے حکومتی نظاموں کی تبدیلی جو امریکی پالیسی سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ اس منصوبہ کی بعض تفصیلات یوں ہوں گی:
(الف) خلیجی ریاستیں: ان ریاستوں کے حکومتی نظام میں ردوبدل کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ہمیشہ امریکی پالیسی کی پرجوش حامی رہی ہیں اور رہیں گی۔ ان کے اس حکومتی نظام کو باقی رکھنا ہی امریکی مفادات کا تحفظ ہے، البتہ یہ کوششیں جاری رکھی جائیں کہ ان ریاستوں میں زمام اقتدار ایسے افراد کے ہاتھوں میں آئے جو مغرب کے تعلیم یافتہ ہیں اور ایسی کوششیں بھی کی جائیں جن کی بدولت ان ریاستوں کی مذہبی ثقافت کو بدل دیا جائے۔
(ب) دیگر ممالک:(١) شام: شام کے حکمران حافظ الاسد ہمیں قبول ہیں، انہیں اس منطقہ میں کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ شام کو ترقی کے اس مقام پر لے جانا چاہیے جو حافظ الاسد کو اس خطہ کا مرد آہن بنا سکے کیونکہ انہوں نے (عراق کے خلاف جنگ میں) عملاً ثابت کر دیا ہے کہ ان پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔
(٢) مصر: اگرچہ مصر کی موجودہ قیادت نے (امریکی پالیسی کے اتباع میں) صحیح اور قابل قبول رویہ اختیار کیا لیکن یہ حکومت مصری رائے عامہ کو کنٹرول نہیں کر سکتی، لہٰذا ہمیں اس کے بارے میں جدید خطوط پر سوچنا ہوگا۔ دراصل جمال عبد الناصر اور انور السادات کے دور میں آزادی رائے پر پہرہ لگا دیا گیا تھا جس کے جمہوریت پر منفی اثرات ظاہر ہوئے۔ اب ضروری ہے کہ مصر میں جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا جانا چاہیے تاکہ ہر شخص آزادی کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکے اور اسلامیین (بنیاد پرستوں) کو راہ سے ہٹانے کا یہی ایک طریقہ ہے۔

(٣) فلسطین اور اسلامی تحریکات: اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو روکنے اور فلسطین کے قبضہ پر مسلمانوں کے (دینی، اخلاقی اور نفسیاتی) دباؤ کو کم کرنے کے لیے ان خطوط پر عمل پیرا ہونا ہوگا:
٭ مسلمانوں کو ان کے فروعی اختلافات میں الجھا کر ایک دوسرے سے لڑانا تاکہ وہ اپنی طاقت کا آپ مقابلہ کرتے رہیں۔ جیسے مصر کے محمد الغزالی نے اسلام میں عورت کے مقام کے موضوع کو چھیڑ کر باہمی منافرت کی جنگ کو بھڑکایا۔
٭ وہ خلیجی ریاستیں جو اسلامی شریعت کے نفاذ پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہیں یا اس کے نفاذ کے بارے میں غور کر رہی ہیں، ان کی حکومتوں کو تبدیل کرنا۔
٭ حساس قسم کے حکومتی اداروں میں اسلامی ذہن رکھنے والوں کو ملازمت کے مواقع نہیں ملنا چاہئیں۔ یہ پالیسی صرف خلیجی ریاستوں تک ہی محدود نہ ہوگی بلکہ اس کا دائرہ کار تمام اسلامی ریاستوں تک بڑھانا ہوگا۔ اسلامی فکر کو آگے بڑھانے والوں کو تعلیم و تربیت اور ابلاغ عامہ کے ذریعے اپنے خیالات عوام الناس تک پہنچانے سے روکنا ہوگا۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کی بدولت اسلام کی ترویج و ترقی کے لیے کام کرنے والوں کو رائے عامہ کو متاثر کرنے کا موقع ملتا ہے۔

٭اسلامیین کو (ان کے اپنے ممالک میں بھی) اقتصادی اور اجتماعی معاملات میں نمایاں مقام پیدا کرنے سے باز رکھنا ہوگا، ورنہ وہ ان کے توسط سے اپنے ممالک سے باہر بھی اثر انداز ہوں گے۔
9۔ بہت ہی قابل توجہ معاملہ عرب اور مسلمان ممالک سے افرادی قوت کا خلیجی ریاستوں میں آنے کا ہے، اس کا روکنا نہایت ضروری ہے۔ ان کے مقابل افرادی قوت کا سری لنکا، فلپائن اور تھائی لینڈ سے لانا ضروری ہے کیونکہ ان ممالک سے لائی گئی غیر مسلم افرادی قوت اسلامی اعتقادات اور اقدار پر منفی اثرات چھوڑے گی۔ اگر ان تینوں ملکوں کی افرادی قوت ضرورت کا معیار یا مقدار پوری کرنے سے قاصر ہو اور دیگر ممالک (اسلامیہ اور عربیہ) سے لوگ منگوانا ہی پڑیں تو پھر یہ ضرور ملحوظ رکھنا ہوگا کہ وہ پاکستان یا بنگلہ دیش سے نہ ہوں۔
10۔ ضروری ہوگیا ہے کہ (مسلم ممالک) کے نظام تعلیم اور ثقافت کو تبدیل کیا جائے اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں کا وقت بڑھایا جائے۔
11۔ اسلامی اور دینی جماعتوں مثلاً سلفی اور اخوانی کے مابین اختلافات کی حوصلہ افزائی کر کے انہیں زیادہ بڑھایا جائے۔
12۔ اسلامی فکر و کردار رکھنے والی حکومتوں مثلاً پاکستان اور سوڈان کو پسماندگی اور مشکلات کا شکار رہنے دیا جائے۔”