پاکستان ہے تو ہم ہیں…

سانحہ جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ واقعہ جتنا دلخراش تھا وہیں پریہ انمٹ تکلیف دہ نقوش بھی چھوڑ گیا۔ ایک طرف وفاقی اور بلوچستان حکومتیں مسلح افواج کی وساطت سے تمام تر ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے دہشت گردوں کے ہاتھوں مغوی نہتے پاکستانی شہریوں کو بازیاب کروانے کیلئے آپریشن میں مصروف عمل دکھائی دے رہی تھیں تو دوسری طرف پاکستان کا ازلی دشمن بھارت کا میڈیا طوفان بدتمیزی بھرپا کیے ہوئے تھا۔ تیسری طرف ہم پاکستانیوں کی بدقسمتی یہ کہ ہمارے اپنے ہی لوگ بھارت اور دہشت گردوں کی من گھڑت خبروں کی تشہیر میں مصروف عمل دکھائی دیے۔

حد تو یہ ہے کہ سرکاری خبر پر ٹرولنگ کے نہ ختم ہونے والے سلسلہ کو بآسانی دیکھا گیا۔ جیسے ہی سرکاری اداروں خصوصا پاکستانی مسلح افواج کے تعلقات عامہ کی جانب سے کوئی نئی اپ ڈیٹ منظر عام پر آتی ہمارے اپنے پاکستانی سوشل میڈیا پرٹرولنگ اور بیہودہ قسم کے تبصرے کرتے دکھائی دیے۔ جہاں ایک طرف پاکستانی قوم، قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص پاکستانی مسلح افواج، نہتے بے گناہ پاکستانی شہریوں کی بازیابی کیلئے دعا گو تھی ۔ وہیں پر پاکستان کی اک سیاسی جماعت کے پیروکارحکومتی کوششوں کی ٹرولنگ اورمن گھڑت پروپیگنڈا کا حصہ بن چکے تھے۔ بسااوقات ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے دہشت گرد تنظیم بی ایل اے اورسیاسی جماعت کے پیروکار وں کا مقصد ایک ہی ہے کہ کسی صورت مغویوں کی بازیابی نہ ہوسکے اور پاکستانی حکام ان دہشتگردوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں۔ کاش ٹرولنگ کرنے والے اک لمحہ کیلئے یہ محسوس کرتے اور سوچ لیتے کہ اگر ان کا اپنا عزیز بھی اسی ٹرین میں یر غمال ہوچکا ہوتا تو کیا پھر بھی ٹرولنگ کرتے؟

ہم بحیثیت پاکستانی مزید کتنی پستی میں جانا پسند کریں گے کہ سوشل میڈیا پر بی ایل اے کی جانب سے جاری کردہ من گھڑت خبروں اور پروپیگنڈا کو اپنی ٹائم لائن پر نہ صرف شیئر کیا گیا بلکہ پاکستانی حکام خصوصاً پاکستانی مسلح افواج کا مذاق اُڑایا گیا۔ پاکستانی حکام اور اداروں کے خلاف ہر قسم کا اختلاف رائے رکھنا آئینی و قانونی طور پر جائز تصور ہوتا ہے مگر اس کا یہ ہر گز مقصد نہیں کہ کسی معاملے میں اختلاف کی صورت میں ریاست پاکستان کی آئینی و جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والی دہشت گردہ قوتوں خصوصا دشمن ملک کے پروپیگنڈا کا حصہ بن کر انکا آلہ کاربن جائیں۔دشمن ممالک عرصہ دراز سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی تحریک کا باقاعدہ حصہ بن چکے ہیں۔ بھارت، یورپ اور کئی مغربی ممالک کی پارلیمنٹ و دیگر فورمز پر بلوچستان عوام کے حقوق اور گمشدہ افراد کے نام پر باقاعدہ آزادی کی باتیں کی جاتی ہیں۔ رہی سہی کسر مملکت پاکستان میں مادر پدر آزاد ٹی وی چینلز پر بلوچستان کے نام پر ریاست پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے عناصر کو پرائم ٹائم میں جگہ دی جاتی ہے۔ بی ایل اے کسی صورت بلوچوں کی نمائندہ تنظیم نہیں کیونکہ جس صوبہ میں پاکستان کا عظیم دوست چین سب سے زیادہ سرمایہ کاری کررہا ہے اورسی پیک کی صورت میں بلوچستان دبئی جیسی ترقی کرسکتا ہے، اسی ترقی کو روکنے کیلئے یہ دہشت گرد تنظیم بلوچوں کے حقوق کے نام پر بلوچستان میں امن عامہ کی صورتحال کو خراب کررہی ہے۔

یہ بات انتہائی قابل غور ہے کہ دہشتگرد تنظیمیں صرف اور صرف بلوچ پنجابی نفرت کو اس قدر ہوا دے رہی ہیں جس کی زندہ مثالیں کہ سانحات میں چُن چُن کر صوبہ پنجاب کے باسیوں کو قتل کیا جاتا ہے، جس کی تازہ ترین مثال جعفر ایکسپریس کے بازیاب ہونے والے اک مغوی کی میڈیا ٹاک میں انکشاف ہوا کہ دہشت گردوں نے پنجابی اور سرائیکی بولنے والوں کو علیحدہ ہونے کا حکم دیا پھر ان کو شہید کردیا گیا۔ اس سے پہلے بھی بسوں سے صرف پنجابی بولنے یا شناختی کارڈ پر پنجاب کا پتہ لکھے جانے والے کئی افراد کو شہید کیا گیا ہے۔ ہمارے ازلی دشمن لسانیت اور صوبائیت کو نہ صرف ہوا دے رہے ہیں بلکہ دہشت گردی کا مرکز بھی بنا رہے ہیں۔ یہ پروپیگنڈا کرنا کہ مسلح افواج کا تعلق صرف اور صرف صوبہ پنجاب سے اور پاک فوج کو پنجابی فوج کہنا انتہائی من گھڑت ہے کیونکہ پاکستان کی مسلح افواج میں تمام صوبوں کو متناسب نمائندگی دی جاتی ہے۔ پاکستانی افواج کے کئی سربراہان کا تعلق پنجاب کی بجائے دیگر صوبوں سے رہا ہے۔

راقم سمیت آئین و قانون کی سربلندی کا خواب دیکھنے والا ہر پاکستانی ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے غیر آئینی اقدامات کا ناقد رہا ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کی آئینی و جغرافیائی حدود کو پامال کرنے والے دشمن ممالک اور دہشتگردوں کا ساتھ دیا جائے۔ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔ پاکستان نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔ بس بہت ہوگیا۔ وقت آگیا ہے کہ ریاست پاکستان کے تینوں ستون مملکت میں پائی جانے والی دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑنے کیلئے باہم متحد ہوکرسخت فیصلے کریں۔ جس کی بدولت دہشت گردی کو پروان چڑھانے والے تمام عناصر اور ان کی حمایت کرنے والی سیاسی، سماجی تنظیمیں اورپرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں چھپی ہوئی کالی بھیڑوں سب کا قلع قمع کردیا جائے۔ جیسے ہم امریکا و دیگر ممالک کو مطلوب ان کے دہشت گرد حوالے کرتے ہیںاسی طرز پر حکومت پاکستان کو یورپ و دیگر ممالک میں بیٹھے دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے سنجیدہ کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔