آٹے کے کسی ممکنہ بحران کا حل

ملک میں آٹے کی قلت کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ ہر دورِ حکومت میں اکتوبر سے مارچ تک یہ مسئلہ درپیش رہا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان جیسا زرعی ملک جس کی تقریباً ستر فیصد آبادی کسی نہ کسی طور زراعت سے منسلک ہے اسے ہر سال قریباً 6ماہ تک آٹے کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا واقعی ہم اس قابل نہیں ہیں کہ اپنی غذائی ضروریات کے لیے بھی گندم پیدا کر سکیں؟ اگر صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہمیں پتا چلے گا کہ ایسا بالکل بھی نہیں۔ آٹے کے بحران کی اصل وجوہات مِس مینجمنٹ، رشوت، لالچ اور ہماری قومی بے حسی ہیں۔

آٹے کا بحران ہمیں سبسڈی والے آٹے کے حصول میں نظر آتا ہے ورنہ حقیقت میں آٹے کی قلت نہیں ہوتی۔ مہنگائی ہر دور کا مسئلہ رہی ہے۔ دنیا ترقی کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر بدقسمتی سے قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک ہم ”نازک موڑ” پر پھنسے ہوئے ہیں۔ قوم کو کوئی ایک بھی حکمران یا لیڈر ایسا نہیں ملا جو ملک کو اس نازک موڑ سے آگے لے جا سکے۔ جو لوگ بھی حکومت سنبھالتے ہیں وہ راکٹ کی رفتار سے خود تو نازک موڑ عبور کر کے سوئٹزرلینڈ کے بینکوں اور برطانیہ و یورپ کے ملکوں میں جائیدادیں بنانے کے لیے وہاں جا لینڈ کرتے ہیں مگر قوم وہیں کی وہیں کھڑی ہے۔

آٹے کے دائمی بحران ہی کو لے لیجیے۔ حکومت ہر سال زبردستی گندم خرید کر کسانوں اور کاشتکاروں کے پاس صرف اسی قدر گندم رہنے دیتی تھی جو ان کی سال بھر کی ضروریات کیلئے کافی ہو۔ باقی ساری گندم حکومت کے گوداموں میں چلی جاتی تھی۔ سیزن ختم ہوتے ہی حکومت یہ ذخیرہ شدہ گندم فلور ملز کو قیمت خرید سے تقریباً 20 فیصد مہنگی فروخت کرنا شروع کر دیتی تھی جس کے نتیجے میں آٹے کے دام بڑھ جاتے تھے۔ حکومت خرید کردہ گندم میں سے کچھ فیصد پر سبسڈی دے کر فلور ملز کا کوٹا مقرر کر دیتی تھی اور فلور ملز کو پابند کرتی کہ یہ آٹا سستے داموں مستحق لوگوں کو مہیا کیا جائے۔ اس کے لیے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں آٹے کے سیل پوائنٹ بنا دیے جاتے تھے۔ یہاں پر گھپلوں کا آغاز ہوتا تھا۔ فلور ملز والے سستی گندم تو حکومت سے خرید لیتے مگر زیادہ منافع کے لالچ میں صارفین کو ملاوٹ شدہ اور ناقص آٹا مہیا کرتے۔ حکومتی اہلکاران کی ملی بھگت سے یہ عمل انجام پذیر ہوتا تھاجو رشوت وصول کرنے کے بعد فلور ملز والوں کو من مانی کرنے کی اجازت دے دیتے۔

اب ایک اور اہم پہلو پر بھی بات کرتے ہیں۔ دیہات میں زیادہ تر لوگ سال بھر کی گندم کا بندوبست کر لیتے ہیں اور حسبِ ضرورت چکی سے آٹا پسوا کر سارا سال استعمال کرتے رہتے ہیں۔ شہروں میں ایسا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شہر میں مزدوری یا ملازمت کرنے والے زیادہ تر لوگ کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس سامان بھی مختصر ہوتا ہے۔ آئے دن گھر بدلنا پڑتا ہے۔ کون گندم کا بوجھ ساتھ ساتھ لیے پھرتا رہے۔ شہر کی تیز رفتار زندگی میں گندم پسوانا بھی ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ زندگی مشین بنی ہوتی ہے۔ ٹائم نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے پسا ہوا آٹا خرید کر استعمال کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو شہروں میں آٹے کے حصول کے لیے لمبی لمبی قطاروں کی سمجھ تو آتی ہے مگر ہم قصبوں میں بھی یہی منظر دیکھتے رہے ہیں کہ روزانہ سستا آٹا حاصل کرنے کے لیے علی الصبح لمبی قطاریں لگ جاتی تھیں۔ آٹا لینے والوں کی اکثریت نواحی دیہات سے آئی ہوئی ہوتی تھی۔

اب آپ کو ایک دلچسپ حقیقت بتاتا ہوں۔ روزانہ قصبے یا چھوٹے شہر میں لگی آٹے کی لائن میں 80سے 90فیصد ایسے خواتین و حضرات نظر آتے تھے جو روزانہ ہی آٹا لینے کے لیے آئے ہوتے۔ اس کی کیا وجہ ہوتی تھی؟ کیا ان لوگوں کے گھروں میں درجنوں لوگ رہتے تھے جو روزانہ ہی ایک بوری یا توڑا آٹا کھا جاتے تھے؟ ایسا بالکل بھی نہیں ہوتا تھا۔ آٹے کے بحران کی مصنوعی وجوہات میں یہ لوگ سب سے بڑی وجہ بنتے رہے ہیں۔ ستمبر سے اخیر جنوری تک سبز چارے کی ملک میں قلت ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے مویشی پالنے والے زمیندار، دودھ بیچنے کیلئے مویشی رکھنے والے حضرات اور ڈیری فارمر اپنے مویشیوں کو کھل کھلاتے ہیں۔ کھل کافی مہنگی ملتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں یہ سبسڈائزڈ آٹا بہت سستا ہوتا تھا۔ اب ہوتا یہ تھا کہ دیہات کے غریب اور نادار لوگ ٹولیوں کی صورت میں شہروں کا رخ کرتے۔ قطاروں میں لگ کر سستا آٹا خریدتے اور مویشی مالکان کو سو ڈیڑھ سو روپے مہنگا فروخت کر دیتے جسے وہ مویشیوں کو کھلاتے۔ وہی لوگ اگلے دن پھر اپنی دیہاڑی کھری کرنے کیلئے آٹے کی قطاروں میں لگے ہوتے۔ آٹے کا مصنوعی بحران پیدا کرنے والوں کی دوسری قسم ان بے روزگار نوجوانوں اور نشے کے عادی افراد کی تھی جو روزانہ کی بنیاد پر قطاروں میں لگ کر یہ سستا آٹا دکان داروں کیلئے خریدتے اور اپنے لیے نشے کا بندوبست کر لیتے۔ دکان دار یہی آٹا مہنگے داموں فروخت کرتے۔ ان مافیاز کی وجہ سے سبسڈی کے اصل حق دار سستا آٹا خریدنے سے محروم رہ جاتے۔ جس کی وجہ سے افراتفری پیدا ہوتی اور لوگ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے میدان میں آ جاتے۔

موجودہ حکومت نے گزشتہ سال کاشتکاروں سے گندم نہ خریدنے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے گندم کے ریٹ بہت زیادہ گر گئے۔ گو اس قدم سے کاشتکاروں کو تو شدید نقصان پہنچا لیکن آٹے کا بحران شدت اختیار نہ کرسکا۔ مارکیٹ میں آٹے کی قیمت بھی کنٹرول میں رہی ہے۔ ہو سکتا ہے اس سال گندم کچھ مہنگی ہو جائے اور محنت کش طبقہ کچھ مشکل کا شکار ہو جائے۔ اس کا آسان سا حل یہ ہے کہ چند دن بعد گندم کی کٹائی شروع ہونے والی ہے۔ کاشتکار حضرات مہربانی کریں۔ ہار ویسٹر کی بجائے ہاتھوں سے گندم کی کٹائی کروائیں۔ اس سے ان کے گندم کی کٹائی کے اخراجات میں کمی آئے گی۔ قیمتی تُوڑی بھی حاصل ہو گی جو سبز چارے کے بحران کے دنوں میں مویشیوں کی خوراک کے کام آئے گی۔ ہارویسٹر کی کٹائی سے رہ جانے والی گندم کے پودوں کی باقیات جلانے کی کوفت سے نجات ملے گی۔ باقیات جلنے کی صورت میں اس کے دھویں سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی بھی نہیں ہو گی جو بہت سے امراض کا باعث بنتی ہے۔ محنت کشوں اور مزدوروں کو بھی چاہیے کہ گندم کی ضرورت پوری کرنے میں اپنا شوق بھی شامل کر لیں۔ تمام خاندان کے ہمراہ گندم کی کٹائی میں حصہ لیں اور سال بھر کی گندم اکٹھی کر کے نہ صرف اس بنیادی ضرورت کو پورا کریں بلکہ آٹے کے کسی ممکنہ بحران کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کے خاتمے میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔