اپنے آپ کو بدلنے کا موسم!

تقویٰ کیسے حاصل ہو؟ تقویٰ اس طرح حاصل ہوگا جیسے یہ ایک ماہ (رمضان) گزارا جاتا ہے۔ باقی زندگی اسی نمونے پر گزارلو۔ جیسے رمضان تھوڑا اور ختم ہوجانے والا ہے۔ ایسے ہی عمر بھی تھوڑی ہے۔ پچاس ساٹھ سال ختم ہو جانے والی تھوڑی سی مدت۔ اس کو رمضان کے ایک ماہ پر قیاس کرلو جو تمہاری اس تھوڑی عمر کو تقویٰ والی زندگی بنادے گا اور اللہ اس کی مدد کرے گا۔جیسے رمضان کے ماہ مبارک کے بعد عید کا دن خوشی کا دن ہوتا ہے، ایسے ہی عمر کو پابندیوں کے ساتھ گزار لیا جائے تو پھر خوشی کا دن آئے گا۔

نمونہ کا خوشی کا دن (عید) صرف تھوڑی دیر کا ہے۔ پھر وہی کاروبار کے دھندے اور فکر وغم۔ لیکن اصل خوشی کا دن (دخول جنت) کبھی ختم نہ ہوگا۔ خواہ کتنے ارب سال گزر جائیں۔ جیسے عید کے دن عورتیں سجتی ہیں، ایسے ہی وہاں عورتیں ہمیشہ سجی بنی رہی ہیں۔ جیسے عید کے دن کھانا اور لباس عمدہ ہوتا ہے، ایسے ہی اس خوشی کے دن سے لے کر ہمیشہ کو ایسے کھانے اور لباس رہیں گے۔ تو جیسے رمضان تھوڑا اور پھر عید۔ ایسے ہی زندگی تھوڑی اور پھر ہمیشہ خوشی کے دن کی طرف انتقال ہے۔ زندگی تقویٰ پر گزارلی تو عید ہمیشہ کو ملے گی۔ بس تم موت تک تقویٰ کو اختیار کرلو تو پھر عید کا چاند ایسا طلوع ہوگا جس کا غروب نہیں۔بعض بدنصیب ایسے ہیں جنہوں نے رمضان کو تقویٰ کا نمونہ نہ بنایا۔ رات کو جاگے، دن کو روزہ رکھا، لیکن وہ پابندیاں اختیار نہ کیں جو ضروری تھیں۔ ”کم من صائم لیس لہ الا الظما وکم من قائم لیس لہ الا السھر” ایسے ہی نماز وقرآن کا حال ہے۔ ”رب تال القرآن والقرآن یلعنہ رب مصل والصلوٰة تلعنہ” نماز، روزہ، زکوٰة، حج نمونہ ہیں ساری زندگی گزارنے کا۔ مال کا خرچ زکوٰة کی طرح ہو۔ رات کا دن گزارنا رمضان کی طرح ہو۔ جان ہمیشہ ایسی پابند بنے (اوامر ونواہی کی) جیسے نماز میں سارے اعضا پابند ہوتے ہیں۔

رمضان میں نماز کی مشق بڑھتی ہے۔ وہ تو بہت ہی بدنصیب ہوتے ہیں کہ سارے عمل تو کریں مگر اس بے دلی سے کہ اس میں سے کوئی عمل تقویٰ کانمونہ نہ بن سکے۔اول درجے کے بدنصیب وہ ہیں جنہوں نے رمضان میں یہ اعمال کیے ہی نہیں۔ دوسرے درجے میں وہ جنہوں نے اعمال تو کیے لیکن انہیں نمونہ نہ بناسکے پورے سال کے لیے۔ تیسرے درجے پر وہ ہیں جنہوں نے اعمال کو نمونہ تو بنایا لیکن زندگی ان نمونوں پر نہ بِتائی۔ رمضان میں دو نمونے روزہ اور نماز کے ذریعے سے تیار ہوں گے۔روزہ یہ ہے کہ کھانے پینے وغیرہ پر کنٹرول رکھو۔ روزہ رکھ کر اپنے ہر عضو کی حفاظت کرو۔ حال وشہرت کی طرف نگاہ نہ ہو۔ شرک، غیبت، ایذا، بہتان کا بول زبان پر نہ آئے۔ زنا، جھوٹ، حرام کا کوئی بول نہ ہو۔ جیسے زبان کو حلال سے روک لیا، اللہ کو راضی کرنے کے واسطے تو زبان کا حرام کیسے نہ چھوٹے گا۔ہر طرف سے یکسو ہو کہ عمل کرنے سے اس عمل کا اثر پڑتا ہے۔ یکسو ہوکر کرنے سے ذکر وفکر، نماز، تعلیم، ایمانی مجلسیں اپنا اثر ڈالتی ہیں۔

رمضان میں اعمال کو یکسو ہوکر کرنے کی مشق کرلو۔ پھر رمضان کے بعد چوبیس گھنٹے کی زندگی میں ان اعمال نمازوں کی کثرت، ذکر، تلاوت، دُعا، بُکا، دعوت، تعلیم کو ہر شے سے یکسو ہوکر مداومت سے کرنے پر تقویٰ نصیب ہوگا۔روزہ میں نامحرم کو دیکھا تو تقویٰ کا نمونہ نہ بنا۔ کوئی تم سے لڑنے جھگڑنے لگا، تم نے کہہ دیا اناصائم۔ تقویٰ کا نمونہ بن گیا۔ سارے سال تم گالی دینے، لڑنے جھگڑنے والے سے کہہ دو میں لڑتا نہیں۔ میرے تقویٰ کے خلاف ہوجائے گا۔ تو جیسے رمضان کی پابندی کے بعد عید۔ ایسے ہی اب سے باقی زندگی میں تقویٰ کا اہتمام کرلو تو مرنے کے بعد عید آجاوگے۔دعوتِ دین نبیوں کا کام ہے۔ اللہ کی طرف بلانا بہت بڑا کام ہے۔ ہمیں دعوت آتی نہیں ہے۔ اس کو سیکھنا ہے۔ اصل دعوت یہ ہے کہ ہم جو دوسروں سے کہنا چاہ رہے ہیں، وہ ہم میں پیدا ہو۔ دعوت پکار ہے عاجز، بے بس، ضعیف کی طرف سے۔ قوی، قادر، بااختیار کی طرف اس پکار پر تم خود پہلے بڑھو۔ یہ مہینہ اس سب کچھ کو سیکھنے کے لیے بہت ممدومعاون ہے۔ آسمان سے فرشتوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ جبریل علیہ السلام نہ آنے والے بھی ایک رات میں اُتریں گے۔ نیکیوں کے لیے خاص موسم ہے۔ نفسانی تقاضے دباکر تقویٰ حاصل کرو۔ پھر خدا سے روروکر نور مانگو۔ خدا اس محنت اور لگن کے نتیجے میں تمہیں اپنے فضل سے متقی بنائیں گے اور اپنا نور تمہارے دل میں ڈالیں گے۔ جس سے اچھے برے اعمال کی پہچان ہوگی۔

آج دل سیاہ ہیں۔ اس لیے پریشانی کے آنے کے وقت ہم صرف انسانوں اور چیزوں کی طرف بھاگتے ہیں۔ کوئی اس وقت مسجد کو نہیں جاتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب پریشانی لاحق ہوتی تو فوراً مسجد میں جاکر نماز پڑھ لیتے۔ پریشانیوں میں نماز کو نہ جانا دل میں نور نہ ہونے کو بتاتا ہے۔ خود کو بیمار سمجھ کر جائو۔ کھیتوں، بازاروں، کارخانوں میں جاکر دعوت دینا اپنے دل میں حق بٹھانے کے واسطے ہے۔ اے خدا! میں مشق تو کررہا ہوں لیکن جب تو پھیرے گا، تب پھروں گا۔ چوبیس گھنٹے محنت اور احتیاط ہے تو کسی وقت کی پکار، شب قدر کی مبارک گھڑی میں دُعا ہوگی تو یکدم مڑجائوگے۔اگر کسی کام سے باہر جانا ہو تو ہوٹل یا حقہ کی مجلس میں ہرگز نہ بیٹھنا۔ ورنہ وہاں کی دوسری فضا کی وجہ سے مشق بگڑجائے گی۔ تم اسی فضا کا اثر لے لوگے۔ تم نے چائے پینی ہے یا کوئی چیز کھانی ہے تو اسے حاصل کرکے علیحدہ کرلو۔ اگر ہوٹل میں بیٹھنا ہے تو اچھوتوں کی طرح بالکل الگ تھلگ کام کرو۔ خود کو گھٹیا سمجھو کہ خدا نے پاک نہ کیا تو بھنگی ہوں۔ یہ تواضع خدا کو پسند ہے۔ اگر اس محنت پر قابو پالیا تو یقین جاندار بنے گا۔ کلمہ کی حقیقت ملے گی۔ عبادات طاقتور بنیں گی۔ عالم میں اسلام زندہ ہوگا اور قومیں پلٹیں گی۔