روزہ صرف بھوک کا نام تو نہیں ہے

ماہِ مقدس ماہ رمضان کے آتے ہی الحمد للہ ہماری مسجدیں پہلے سے زیادہ آباد ہو جاتی ہیں۔ گیارہ مہینے تک دن رات کاروبار اور دیگر کاموں میں بے تحاشا مصروف رہ کر نماز سے غفلت کرنے والے حضرات بھی اس ایک مہینے کے لیے پکے نمازی اور نیک بن جاتے ہیں۔

اس ماہِ مقدس میں جہاں لوگ نیکی کمانے کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں، وہیں پر انتہائی افسوس کی بات ہے کہ دکاندار اور تاجر حضرات عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اشیائے ضرورت اور خصوصاً کھانے پینے کی چیزوں کی قیمت میں تین سے چار گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ گویا منافع خوری کی سارے سال کی کسر نکالنے کا آغاز ہوجاتا ہے۔ پھل اور سبزیاں ایک عام روزہ دار کی قوتِ خرید سے باہر ہو جاتی ہیں۔ ہر ایک کا اپنا ریٹ ہوتا ہے۔ حکومتی رِٹ کی جس قدر بے توقیری ماہِ رمضان میں دیکھی جاتی ہے اس کی مثال نہیں ملتی، جو بہت زیادہ افسوس اور فکر مندی کی بات ہے۔ ہر کوئی پوری بے خوفی سے لوگوں کو لوٹنے میں مصروف ہوتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا کیونکہ پوچھنے والے پہلے ہی ان سے اپنا حصہ وصول کر کے الگ ہو چکے ہوتے ہیں اور انہیں کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہر ایک کو ”عید بنانے” کی فکر ہوتی ہے۔ تاجر اور دکاندار کُند چھری سے عوام کی کھال اتارنے کے بعد اپنے گناہ بخشوانے کے لیے عمرہ کرنے چلے جاتے ہیں۔

روزہ کو گناہوں سے بچنے کی ڈھال قرار دیا گیا ہے مگر روزہ رکھ کر ہر طرح کے گناہ کیے جاتے ہیں۔ جھوٹ بول کر سودا بیچا جاتا ہے۔ گاہکوں کے ساتھ بدزبانی اور بدتمیزی کی جاتی ہے۔ میرے ایک دوست بتا رہے تھے کہ انہوں نے رمضان المبارک آنے سے پہلے ہی پانچ لاکھ روپے کی کھجوریں لے کر اسٹاک کر لی تھیں۔ اب وہ انہیں تین گنا منافع کے ساتھ بیچ رہا ہے۔ میں نے اسے اس قدر ناجائز منافع خوری پر شرمندہ کرنے کی کوشش کی تو وہ نہایت ڈھٹائی سے آگے سے بولنے لگا کہ میں نے بھی تو پانچ لاکھ روپے باندھ کر رکھے ہوئے تھے۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ ذخیرہ اندوزی کر کے یہ دوسرا جرم آپ نے کیا تھا مگر اس پر کوئی اثر ہونا تھا نہ ہوا۔

رمضان شریف میں ایک اور رواج فیشن کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ وہ رواج افطار پارٹیوں کا انعقاد ہے۔ حدیث شریف کے مطابق کسی کا روزہ افطار کروانے والے کو بھی اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا روزہ رکھنے والے کو، مگر ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ افطار پارٹیاں بھی پی آر کی غرض سے دی جاتی ہیں۔ اب تو ہر طرف اور ہر وقت سیاست کے کھیل نے وطنِ عزیز کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ شنید ہے کہ بلدیاتی انتخابات شاید اسی سال منعقد ہو جائیں گے۔ اس سلسلے میں ہوم ورک کے طور پر سیاستدان اپنے اپنے حلقے کے ہزاروں لوگوں کے لیے افطار پارٹیوں کا اہتمام کریں گے۔ گویا افطار کو سیاسی رشوت بنا لیا جائے گا۔ ان پارٹیوں میں بھی سلیکٹڈ لوگ بلوائے جائیں گے۔ شرکت کرنے والوں کے لیے ضروری نہیں کہ انہوں نے روزہ رکھا ہوا ہو۔ دیگر لوگ بھی اپنے دوست احباب کے لیے فیشنی افطار پارٹیوں کا بندوبست کرتے ہیں جن میں نمود و نمائش کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، کئی طرح کے کھانے اور مشروبات پیش کیے جاتے ہیں۔ بہت سا کھانا بچ جاتا ہے جو ضائع کر دیا جاتا ہے۔

یہ سب مناسب نہیں ہے۔ ان نمائشی افطار پارٹیوں کی بجائے اگر یہی رقم محلے یا پاس پڑوس کے مستحقین کے گھر خاموشی سے پہنچا دی جائے یا انہیں راشن لے کر دے دیا جائے تو ان کے روزے بھی سکون سے گزر جائیں گے۔ روزہ صرف سحری کھا کر مغرب تک منہ باندھنے کا نام نہیں ہے۔ روزے کے دوران اپنے معاملات کو درست رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ جتنا عبادات ضروری ہیں۔ چلتے چلتے ایک دوست کا واقعہ بھی پڑھ لیجیے۔
”میں نے دوست احباب کے لیے افطار پارٹی کا اہتمام کیا تھا۔ اس سلسلے میں پکوڑوں کا آرڈر دینے کے لیے احمد چاچا کے پاس پہنچ گیا جن کے پکوڑے پورے شہر میں مشہور تھے۔ میں نے پوچھا، احمد چاچا! کل میرے گھر میں افطاری ہے، قریباً پچاس احباب ہوں گے، مجھے پکوڑے چاہئیں، آپ کو ایڈوانس کتنے پیسے دے جاؤں، چاچا جی نے میری طرف دیکھا اور سوالیہ نظروں سے مسکرائے۔ ”کتنے پیسے دے سکتے ہو؟” مجھے ایسے لگا جیسے چاچا جی نے میری توہین کی ہے۔ مجھے ان کا یہ سوال بے محل اور تضحیک آمیز لگا، میں نے اصل قیمت سے زیادہ پیسے نکالے اور چاچا جی کے سامنے رکھ دیے۔ چاچا جی نے پیسے اٹھائے اور مجھے دیتے ہوئے بولے۔
”وہ سامنے سڑک کے اس پار اس بوڑھی عورت کو دے دو، کل آ کر اپنے پکوڑے لے جانا۔ میری پریشانی تم نے حل کر دی۔ افطاری کا وقت قریب تھا اور میرے پاس اتنے پیسے جمع نہیں ہو رہے تھے کہ اسے دے سکتا۔ اب بیچاری چند دن سحری اور افطاری کی فکر سے آزاد ہو جائے گی۔”
میرے جسم میں ٹھنڈی سی لہر دوڑ گئی۔
”وہ کون ہے آپ کی؟”
میرے منہ سے بے اختیار سوال نکلا۔ چاچا جی تپ گئے۔
”وہ میری ماں ہے، بیٹی ہے اور بہن ہے۔ تم پیسے والے کیا جانو، رشتے کیا ہوتے ہیں؟ جنہیں انسانیت کی پہچان نہیں رہی، انہیں رشتوں کا بھرم کیسے ہو گا؟ پچھلے تین گھنٹے سے کھڑی ہے، نہ مانگ رہی ہے اور نہ کوئی دے رہا ہے۔ تم لوگ بھوکا رہنے کو روزہ سمجھتے ہو اور پیٹ بھرے رشتے داروں کو افطار کرا کے سمجھتے ہو ثواب کما لیا۔ اگر روزہ رکھ کے بھی احساس نہیں جاگا تو یہ روزہ نہیں، صرف بھوک ہے بھوک…”
میں بوجھل قدموں کے ساتھ اس بڑھیا کی طرف جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اپنے ایمان کا وزن کر رہا تھا۔ یہ میرے ہاتھ میں پیسے میرے نہیں تھے بلکہ غریب پکوڑے والے کے تھے۔ میرے پیسے تو اپنے رشتوں کو استوار کر رہے تھے۔ چاچا جی کے پیسے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے جا رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس بڑھیا میں ماں، بہن اور بیٹی مجھے کیوں دکھائی نہیں دی؟ اے کاش میں بھی اس چاچا جی کی آنکھ سے دیکھتا۔ اے کاش تمام صاحبان حیثیت بھی اسی آنکھ کے مالک ہوتے۔