ہمارے اس دور کے تمام تر مسائل کی ایک بڑی وجہ لوگوں کی ”حرام خوری” ہے اور بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں رمضان کے مقدس مہینے میں بھی گراں فروشی، ذخیرہ اندوزی، رشوت ستانی کی صورت میں حرام خوری کا بازار گرم رہتا ہے، پھر بھی ہمیں گلہ رہتا ہے کہ ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں۔ اسلام میںانسان کے منہ میں جانے والے لقمے کے لیے دو شرطیں رکھی گئی ہیں، پہلی یہ کہ وہ پاکیزہ ہو اور دوسری یہ کہ وہ حلال بھی ہو۔
قرآن وحدیث میں پاکیزہ چیزوں کے کھانے اور حرام سے بچنے کا حکم واضح دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”یَاأَ یُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْأَرْضِ حَلَالًا طَیِّبًا وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطٰنِ ِنَّہُ لَکُمْ عَدُوّمُّبِیْن.”… ”اے لوگو! جو چیزیں زمین میں موجود ہیں اُن میں سے حلال پاک چیزوں کو کھائو اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ ” ایک اور جگہ اپنے پیغمبروں کو اللہ نے اس بات کا حکم دیا ہے وہ پاک حلال کھائیں: ”یٰاأَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْم.” ”اے پیغمبرو! پاک چیزوں میں سے کھائو اور نیک عمل کرو، یقیناً میں تمہارے اعمال سے خوب واقف ہوں۔ ”
دوسری جگہ ارشاد ہے: ”یَسْأَلُوْنَکَ مَاذَا أُحِلَّ لَھُمْ قُلْ أُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ وَمَا عُلِّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَھُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ فَکُلُوْا مِمَّا أَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَاذْکُرُوْا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ ِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَاب.” ترجمہ: ”لوگ آ پ سے پوچھتے ہیں کیا کیا جانور اُن کے لیے حلال کیے گئے ہیں؟ آپ فرما دیجیے تمہارے لیے حلال جانور حلال رکھے گئے ہیں اور جن شکاری جانوروں کو تعلیم دو اور تم اُن کو چھوڑو بھی اور اُن کو اس طریقہ سے تعلیم دو جو تم کو اللہ تعالیٰ نے تعلیم دی ہے، تو ایسے شکاری جانور جس شکار کو تمہارے لیے پکڑیں اس کو کھاؤ اور اس پر اللہ کا نام بھی لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو! بے شک اللہ جلدی حساب لینے والے ہیں۔” حدیث میں آتا ہے: ”طَلَبُ الْحَلَالِ فَرِیْضَة بَعْدَ الْفَرِیْضَةِ… طَلَبُ الْحَلَالِ وَاجِب عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ.” یعنی طلبِ حلال ہر مسلمان پر فرض وواجب ہے۔ ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ِنَّ اللّٰہَ طَیِّب لَا یَقْبَلُ ِلَّا طَیِّبًا، وَِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی أَمَرَ المُؤْمِنِیْنَ بِمَا أَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِیْنَ، فَقَالَ: ”یَا أَیُّہَاالرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا.” (مسلم: 1015) ”بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے، پاک کے علاوہ کسی چیز کو قبول ہی نہیں کرتا۔ اللہ نے مومنوں کو اسی چیز کا حکم فرمایا ہے جو حکم اس نے اپنے رسولوں کو فرمایا ہے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے اس حکم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”اے رسولو! پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو۔”
ہر غذا کی تاثیر ہوتی ہے: اس حدیث کی تشریح میں مفسرین نے لکھا ہے کوئی بھی عمل حلال کھانے کے علاوہ دوسرے طریقے سے نہ پاک ہوتا ہے نہ ہی قبول ہوتا ہے، جبکہ حرام کھانے سے اعمال فاسد ہوجاتے ہیں اور قبولیت سے محروم ہوتے ہیں۔ ہر غذا کی تاثیر ہوتی ہے۔ حلال غذا کھانے سے نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے جبکہ حرام کھانے سے نیک اعمال کی توفیق سلب ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے: ”حرام کا ایک لقمہ کھانے والے کی چالیس روز کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں جبکہ چالیس روز تک اس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔” شریعت میں حلال وہ ہے جسے اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت نے مباح قرار دیا ہے یعنی جس کاحلال ہونا اللہ کی طرف سے ثا بت ہے، حلال کے مقابل حرام ہے۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس یہ آیت تلاوت کی گئی: ”یَا اَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْأَرْضِ حَلَا لًاطَیِّبًا.” (البقرة: 168) ترجمہ: ”اے لوگو! جو کچھ زمین میں ہے اس میں سے حلال اور پاک کھائو۔ ”تو حضرت سعد کھڑے ہوئے اور کہا : یارسول اللہ!دعا کیجیے اللہ تعالی مجھے ”مستجاب الدعوات” بنادیں۔ اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اے سعد! أَطِبْ مَطْعَمَکَ تَکُنْ مُسْتَجَابَ الدَّعْوَةِ”… ”اے اسعد! تو اپنی خوراک کو پاکیزہ بنا لے تو”مستجاب الدعوات” بن جاؤگے۔” قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی جان ہے جب کوئی آدمی حرام کا ایک لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے چالیس دن کے اعمال قبول نہیں ہوتے اور بندے کے گوشت کا وہ ٹکڑا جوحرام یا سود سے پیدا ہو تو اس کے لیے جہنم ہی سب سے زیادہ لائق ہے۔ (معجم الاوسط للطبرانی: 6495)
علامہ ابنِ رجب حنبلی نے نقل کیا ہے، حضرت سعد ابن ابی وقاص سے پوچھا گیا: اصحاب رسول میں سب سے زیادہ آپ کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، کیا وجہ ہے؟ حضرت سعد نے جواب دیا: ”میں نے آج تک اپنے منہ کی طرف کوئی لقمہ نہیں اٹھایا، مگر یہ مجھے پتا ہوتا ہے کہ یہ کہاں سے آیا ہے یعنی حلال ہے یا حرام؟وہب بن مُنبہ کہتے ہیں: ”جو آدمی چاہے اس کی دعائیں قبول ہو ں تو اس کو چاہیے کہ اپنی خوراک کو پاک کرے۔ ” سہل بن عبد اللہ کہتے ہیں: ”جو آدمی چالیس دن تک حلال کھائے اس کی دعائیں قبول ہوں گی۔ ” یوسف بن أسباط کہتے ہیں: ”بندے کی دعا حرام کھانے کی وجہ سے قبولیت سے رک جاتی ہے۔ ”
امام ابن کثیر فرماتے ہیں: ”اکلِ حلال عبادت و دعا کی قبولیت کا سبب ہے جیسا کہ اکل ِحرام عبادت ودعا کی قبولیت سے مانع ہے۔” آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”لاَ وَرْعَ کَالْکَفِّ.” (ابنِ ماجہ: 4218) حرام سے بچنے کی مانند اور کوئی تقویٰ نہیں۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: ”چار خصلتیں ایسی ہیں، جب وہ تمہارے اندر موجود ہوں تو پھر دنیا میں کچھ حاصل نہ ہو تو بھی تمہارے لیے کافی ہیں۔ وہ چار خصلتیں یہ ہیں:ایک امانت کی حفاظت، دوسرے سچ بولنا، تیسرے حسنِ اخلاق، چوتھے کھانے میں حلال کا اہتمام۔ ” (معجم الکبیر للطبرانی: 141) حلال کھانے سے دلوں کو سکون جبکہ حرام کھانے سے دل بے قرار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اپنی صحت کی حفاظت اور ایمان کی سلامتی کی خاطر حرام سے بچئے۔ پاکیزہ اور رزقِ حلال کا خوب خوب اہتمام کیجیے۔