ترکیہ اور پاکستان، یکجان دو قالب!

پانچویں قسط:
نجم الدین اربکان کی پارٹی سے ایک اور شخصیت ”تورگوت اوزال “ (Turgut Özal) کے نام سے سامنے آئی۔ اصل محنت نجم الدین اربکان ہی کی تھی جس کے سبب ”تورگوت اوزال“ اور پھر اس کے بعد طیب اردوان سامنے آئے۔ اگر نجم الدین اربکان کی محنت نہ ہوتی تو آج طیب اردوان بھی نہ ہوتے۔ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت ضائع نہیں کرتے۔ خلوص بھری محنت کا صلہ ضرور ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نجم الدین اربکان کے بعد طیب اردوان کو کھڑا کردیا۔ دو چار سال کی محنت اور خدمت کے بعد 1994ء میں وہ استنبول کے میئر بن گئے۔

22سال پہلے جب استنبول کے میئر بنے تو استنبو ل ہر قسم کے جرائم کی آماجگاہ اور گندگی کا ڈھیر تھا۔ انہوں نے چند ہی سالوں میں استنبول کو فری جرائم اور فری کرپشن کردیا۔ جس شہر میں لوگ آنے سے ڈرتے تھے، وہاں لاکھوں کی تعداد میں سیاح آنے لگے۔ جب ترکی کے لوگوں نے طیب کی خدمت کو دیکھا تو انہوں نے طیب اردوان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ وہ ترکی کے وزیراعظم اور صدر منتخب ہوگئے۔
طیب اردوان ترکی کو جدید فلاحی اور اسلامی اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ سفر جاری تھا کہ ترکی کے بہی خواہوں نے 15جولائی 2016ءکو شب خون مار دیا۔ فوجی بغاوت کے بعد طیب اردوان کی حکومت جانا یقینی تھا۔ 15 منٹ کے بعد ترکی صدر اپنی کابینہ سمیت جیل میں ہوتے، لیکن جب عوام نے ان کا ساتھ دینے کا ارادہ کرلیا تو حالات پلٹ گئے۔ عوام نے ٹینکوں کو شکست دیدی۔ عوام ہمیشہ انہی کا ساتھ دیتے ہیں جو ان کے مسائل کا حل کرتا ہے۔ جو ان کے دُکھ درد میں شریک ہوتا ہے، جو ان کے آنسو پونچھتا ہے، جو ان کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی راحت قربان کر دیتا ہے۔ طیب اردوان نے اپنے دورِ حکومت میں جو کارنامے سرانجام دیے اس کی ایک جھلک دیکھیے۔

طیب اردوان نے اپنے دورِ حکومت میں آئی ایم ایف کا 23.5 ارب ڈالر کا ملکی قرضہ زیرو کرکے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو قرضہ دینے کی پیشکش کردی۔ تعلیمی نظام میں اصلاحات نافذ کیں۔ نتیجتاً جن انٹر لیول اسکولوں کی تعداد 65ہزار تھی، وہ 12لاکھ تک پہنچ گئی۔ ان اسکولوں میں دینی اور عصری دونوں تعلیم دی جاتی ہیں۔ یہاں سے پاس ہونے والے طلبہ کو امامت و خطابت کا لقب بھی ملتا ہے، یہ طلبہ امامِ مسجد بھی بن سکتے ہیں۔ خود طیب اردوان نے بھی ایسے ہی اسکول سے گریجویشن مکمل کی تھی۔
1996ءسے پہلے ان اسکولوں کی تعداد 6 لاکھ کے قریب تھی، لیکن نجم الدین اربکان کے تختہ الٹ جانے کے بعد فوجی حکومت میں یہ اسکول تقریباً بند ہونے کے قریب ہوگئے تھے اور ان کی تعداد 65 ہزار تک رہ گئی تھی۔ طیب اردوان کے اقتدار میں آجانے کے بعد پھر دوبارہ ان انٹر لیول اسکولوں پر توجہ دی گئی اور اب ان کی تعداد 12 لاکھ سے بھی متجاوز ہوگئی ہے۔ ترکی کے 81 شہروں میں شاید ہی کوئی شہر ایسا ہو کہ جہاں کوئی یونیورسٹی نہ ہو۔ طیب اردوان نے ہر شہر میں یونیورسٹی تعمیر کرائی۔ اس کی وجہ سے طلبہ کا بڑے شہروں کی یونیورسٹی کی طرف رجحان کم ہوگیا ہے۔ ورنہ پہلے یونیورسٹی کی قلت کی وجہ سے بڑے شہروں کی یونیورسٹی میں طلبہ کا بہت زیادہ رَش رہتا ہے اور گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے کئی طلبہ کو داخلے ہی نہ ملتے تھے۔ ملکی یونیورسٹیوں کی تعداد 98 سے بڑھاکر 190 کردی۔

ساری قوم کے لیے گرین کارڈ کا اجرا کیا، جس کے تحت کسی بھی ترک باشندے کو ملک کے کسی بھی ہسپتال میں ہمہ وقت مفت علاج کی سہولت ہوگئی۔ 12 برس میں ہوائی اڈّوں کی تعداد 26 سے بڑھا کر 57 کردی۔ اب ان تمام ہوائی اڈّوں پر خوب رَش ہوتا ہے۔ صرف سیاحت سے حاصل ہونے والی سالانہ آمدن 20 ارب ڈالر ہے۔ طیب اردوان کے اقتدار میں آنے سے پہلے صرف 6 سے 7 شہروں کے درمیان انٹرسٹی سڑکیں 6200 کلومیٹر تھیں۔ طیب اردوان کے اقتدار میان آنے کے بعد 2002ء سے 2018ء تک ترکی میں 25000 کلومیٹر طویل انٹرسٹی سڑکیں بنائیں گئیں۔ ان سڑکوں سے ڈبل سڑکیں، یعنی آنے اور جانے کی الگ الگ سڑکیں مراد ہیں۔ ان انٹرسٹی سڑکوں پر ابھی کام جاری ہے۔ یہ جاری کام ہم سے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
چند سالوں میں ہی ترکی کے 81 شہروں کی انٹرسٹی سڑکوں پر کام مکمل ہوجائے گا۔ پھر ان سڑکوں پر اسفار کو شارٹ کرنے کے لیے طیب اردوان کے اقتدار میں 247 ٹنلز بھی بنائی گئی ہیں، جن میں سے بعض ٹنل پہاڑوں کے نیچے گزرتے ہوئے 3 کلومیٹر طویل ہیں۔ ترکی کے کئی ایک شہر کو دوسرے شہر کے قریب کرنے کے لیے طیب اردوان نے ترکی کے جابجا پہاڑوں کے نیچے ٹنلز بنادی ہیں۔ اس کام پر بہت بڑا بجٹ خرچ ہوتا ہے۔ ہر ہر فیلڈ میں طیب اردوان کے اتنا زیادہ کام کرنے کے بعد بھی خزانے میں پہلے سے 3 سے 4 گنا اسٹاک موجود ہونا اقتصادیات کے لحاظ سے بہت اہم بات ہے۔ سنہ 2009ء میں ترکی میں تیز رفتار ریل گاڑیاں چلنے لگیں۔ 1076 کلومیٹر لمبی نئی ریلوے لائنیں بچھائیں۔ تعلیمی بجٹ 7.5 ارب لیرا سے بڑھاکر 34 ارب لیرا ہوگیا۔ ترکی کو آلودگی سے پاک، جرائم سے پاک، مافیا سے پاک اور رواں دواں ٹریفک والا ملک بنایا۔ پانی، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ختم کی اور بلوں میں بھی نمایاں کمی کی۔
ترکش ایرلائن یورپ کی بہترین اور دنیا کی ساتویں بڑی ایرلائن بن گئی۔ ناپ تول میں کمی، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی ختم کردی۔ ملک کو اقتصادی لحاظ سے 27 نمبر پر موجود ملک کو اٹھا کر 16 ویں نمبر پر پہنچایا۔ ترکی پہلی بار دنیا کے اقتصادی لحاظ سے مضبوط 20 ممالک کے گروپ G-20 میں شامل ہوا۔ 2013ء میں ترکی کی سالانہ قومی پیداوار 1100 ارب ڈالر تک جاپہنچی تھی۔ پہلے ایک عام ترکی کی سالانہ آمدن 3500 ڈالر تھی، اب وہ آمدن بڑھ کر 11ہزار ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ طیب اردوان کے اقتدار کے 15 سالوں میں 240 سے زیادہ بڑے اسپتال تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے چند ایسے بڑے اسپتال بھی ہیں جن میں ہزار سے زیادہ بیڈ کی سہولت موجود ہیں۔ چھوٹے چھوٹے قصبات میں بھی اوسطاً 150 بیڈ کے اسپتال بھی بنائے گئے ہیں۔ طیب اردوان سے پہلے لوگوں کو بڑے علاج کے لیے ترکی کے اہم شہر ازمیر، استنبول، انقرہ وغیرہ کا رُخ کرنا پڑتا تھا۔ پھر دوردراز سے سفر کرنے کی وجہ سے علاج کے لیے اسپتالوں میں بڑی خواری اٹھانا پڑتی تھی۔ (جاری ہے)