رمضان ریلیف پیکیج 

وزیرِ اعظم ریلیف پیکیج کے تحت 39 لاکھ خاندانوں کو پانچ ہزار روپے فی خاندان کے حساب سے نقد رقم دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

جناب شہباز شریف نے رمضان پیکیج کی سمری منظوری کے لیے وفاقی کابینہ میں پیش کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ وزیرِ اعظم ریلیف پیکیج کے بجٹ کا تخمینہ 20 ارب 50 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ اس کے لیے 10 ارب روپے وزارت صنعت و تجارت سے 2ارب روپے بے نظیر انکم سپورٹ کے بجٹ سے اور 8 ارب 50 کروڑ روپے وزارتِ خزانہ کی طرف سے فراہم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ریلیف پیکیج کے بجٹ میں میڈیا مہم پر اٹھنے والے اخراجات سمیت مالیاتی اداروں کے چارجز نادرا فیس اور دیگر چارجز شامل ہوں گے۔ اس بار رمضان ریلیف پیکیج یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے فراہم نہیں کیا جا رہا۔
ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ ریلیف پیکیج کے تحت امداد حاصل کرنے والے 39 لاکھ خاندانوں کا انتخاب کیسے کیا جائے گا۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ان خاندانوں کو ادائیگی کس طریقے سے کی جائے گی۔ امکان ہے کہ سمری کی منظوری کے فوری بعد میڈیائی تشہیر کے ذریعے رقم کی وصولی کا طریقہ کار واضح کر دیا جائے گا۔ جہاں تک مستحقین کے انتخاب کا تعلق ہے تو غالب امکان یہی ہے کہ اس سلسلے میں نادرا سے مدد لی جائے گی۔ ہو سکتا ہے کوئی مخصوص نمبر دیا جائے جس پر شناختی کارڈ نمبر ایس ایم ایس کے ذریعے بھیج کر مستحق ہونے کی تصدیق کا طریقہ اپنایا جائے۔

دو سال قبل رمضان میں مفت آٹا کی تقسیم کے وقت یہی طریقہ اپنایا گیا تھا۔ دیے گئے نمبر پر مفت ایس ایم ایس بھیجنے کی سہولت دی گئی تھی جس کا جواب فوراً ہی موصول ہو جاتا تھا۔ آٹا وصولی کے مراکز بھی تمام مرکزی شہروں اور قصبوں میں بنائے گئے تھے جہاں بڑی تعداد میں سرکاری عملہ ڈیوائسز کے ساتھ موجود ہوتا تھا۔ بہت زیادہ رش ہونے کے باوجود عملہ زیادہ ہونے کی وجہ سے بھگدڑ نہیں مچتی تھی۔ لوگ چند منٹ کے اندر آٹے کے تھیلے وصول کر لیتے تھے۔ اگر اس مرتبہ بھی یہی طریقہ کار اپنایا جائے تو بہت مناسب ہو گا۔ مفت ایس ایم ایس کی سہولت فراہم کی جائے تو لوگ اپنے استحقاق کی تصدیق کے بعد ریلیف سنٹرز کا رخ کر سکیں گے۔ غیر مستحق افراد کے رش سے بچا جا سکے گا۔
دیکھا جائے تو حکومت کی طرف سے مستحقین اور نادار وں کے لیے رمضان پیکیج دراصل رمضان کا تحفہ ہے۔ فلاحی حکومت اپنے عوام کو ریلیف دینے کے لیے ہر ممکن اقدام کیا کرتی ہے۔ ساڑھے بیس ارب روپے کافی بڑی رقم ہے جو عوام کو دی جائے گی۔ بعض معترضین پانچ ہزار روپے کو معمولی رقم قرار دے رہے ہیں۔ متمول لوگوں کے لیے یقیناً یہ معمولی رقم ہے مگر مستحقین کے لیے یہ رقم بہت بڑا سہارا ثابت ہو گی۔ گزشتہ سال مستحقین کو یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے سستی اشیاءکی صورت میں ریلیف دیا گیا تھا۔ امسال یوٹیلٹی سٹورز کی تعداد میں کمی کر کے ان کا دائرہ کار محدود کر دیا گیا ہے۔

ویسے بھی یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے عوام کو مکمل ریلیف ملنا ممکن نہیں۔ وہاں خریداری وہی کرنے جاتا ہے جس کے پاس پیسے ہوں۔ تبھی رعایتی نرخوں کی صورت میں وہ فائدہ اٹھا سکتا ہے جب خریداری کرے گا۔ یہ شکایات بھی سامنے آئی تھیں کہ یوٹیلٹی سٹورز والے چینی آٹا اور گھی وغیرہ کے ساتھ چند دیگر اشیاءخریدنے پر مجبور کرتے تھے جن پر سبسڈی نہیں ہوتی تھی۔ اب نقد رقم ملنے کی صورت میں وہ اپنی مرضی کی ضروری اشیاءخرید سکیں گے۔ بہرحال شہباز حکومت کو داد دینی چاہیے کہ وہ عوام کو ریلیف دینے میں مسلسل کوشاں ہے۔
شنید ہے کہ پنجاب حکومت بھی صوبے میں رمضان پیکیج دینے جا رہی ہے۔ گزشتہ سال بھی وزیرِ اعلیٰ محترمہ مریم نواز شریف کی طرف سے بلدیاتی اداروں کے ذریعے لوگوں کے گھروں میں باعزت طور پر راشن پہنچانے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ اس مرتبہ بلدیاتی اداروں کے ذریعے ہی مستحقین کا سروے مکمل کر لیا گیا ہے۔ پنجاب گورنمنٹ کی طرف سے رمضان پیکیج سے ہٹ کر بھی عوام کو ریلیف دینے کی کئی سکیمیں شروع کی جا رہی ہیں۔

مریم نواز شریف نے ایک سال کے عرصے میں اپنی کارکردگی سے حقِ حکمرانی کو ثابت کر کے دکھایا ہے۔ باتوں وعدوں اور دعووں کے برعکس وہ عملی طور پر خود کو ایک مصلح کے روپ میں پیش کر رہی ہیں۔ ان کی قیادت میں پنجاب تیزی سے تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ عوام ان کی کارکردگی سے خوش اور مطمئن ہیں۔