مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے ’لَو جہاد‘ قانون بنانے کی تیاریاں

بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں ہندو انتہا پسندی کو مزید تقویت دینے کے لیے بی جے پی حکومت نے ’لَو جہاد‘ کے نام پر ایک نیا قانون بنانے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس کی قیادت ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس سنجے ورما کر رہے ہیں۔

اس کمیٹی میں خواتین و اطفال بہبود، اقلیتی امور، قانون و عدلیہ، سماجی انصاف، خصوصی امداد اور داخلہ جیسے محکموں کے اعلیٰ افسران شامل ہیں۔

بھارتی حکومت کی جانب سے جاری سرکاری قرارداد کے مطابق، یہ کمیٹی زبردستی مذہب تبدیلی اور ’لَو جہاد‘ سے متعلق شکایات کے حل کے لیے اقدامات تجویز کرے گی اور دیگر ریاستوں کے موجودہ قوانین کا جائزہ لے کر نئی قانونی سفارشات پیش کرے گی۔

’ لَو جہاد’ ایک سیاسی ہتھیار

بھارت میں ’لَو جہاد‘ کا بیانیہ انتہا پسند ہندو تنظیموں اور بی جے پی کی حکومت کے ذریعے بارہا استعمال کیا گیا ہے، جس کا مقصد بین المذاہب شادیوں کو روکنا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینا ہے۔

اس بار مہاراشٹرا حکومت نے 2022 میں پیش آنے والے شردھا والکر قتل کیس کو جواز بنا کر ایک نیا ہتھکنڈا تیار کیا ہے۔ اس کیس میں الزام ہے کہ آفتاب پوناوالا نامی مسلم نوجوان نے اپنی لِو اِن پارٹنر شردھا والکر کو قتل کرکے اس کے جسم کے ٹکڑے کیے تھے۔

بی جے پی اس واقعے کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں خواتین کے خلاف تشدد کے ہزاروں واقعات ہر سال رپورٹ ہوتے ہیں، جن میں اکثریت ہندو ملزمان کی ہوتی ہے، مگر صرف بین المذاہب شادیوں کو نشانہ بنا کر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔

بھارتی اپوزیشن کا سخت ردعمل

مہاراشٹرا حکومت کے اس فیصلے پر بھارتی اپوزیشن کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کی رہنما سپریہ سولے نے کہا، ’محبت اور شادی ہر فرد کا ذاتی حق ہے۔ حکومت کو بے بنیاد مسائل پر توجہ دینے کے بجائے ملک کی اقتصادی صورتحال بہتر بنانے پر کام کرنا چاہیے۔‘

سماج وادی پارٹی کے ایم ایل اے ابو اعظمی نے کہا، ’یہ قانون مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کی ایک اور کوشش ہے۔ جب 18 سال سے زائد عمر کے افراد اپنی مرضی سے شادی کر سکتے ہیں، تو پھر یہ مداخلت کیوں؟‘

کانگریس کے رہنما حسین دلوائی نے بھی بی جے پی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ’زبردستی تبدیلی مذہب کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ جمہوریت میں ہر شخص کو آزادی حاصل ہے کہ وہ جس مذہب کو چاہے اختیار کرے۔ یہ فسطائیت پر مبنی ایجنڈا ہے، جس کا مقصد صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔‘

دوسری جانب، بی جے پی کے ایم ایل اے منگل لوڈھا نے حکومت کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے دیکھا کہ شردھا والکر کیس میں کیا ہوا۔ ایسے بہت سے واقعات مہاراشٹرا میں ہو رہے ہیں۔ جب ہم ”لَو جہاد“ کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو اپوزیشن کو مسئلہ ہوتا ہے۔‘

بھارت میں مسلمانوں کے لیے بڑھتے خطرات

بھارت میں ’ لَو جہاد’ جیسے متنازعہ قوانین کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو دبانا، ان کی آزادی سلب کرنا اور ہندو انتہا پسندی کو فروغ دینا ہے۔

بی جے پی حکومت پہلے ہی شہریت ترمیمی قانون اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے جیسے اقدامات کے ذریعے اپنے مسلم مخالف عزائم کا اظہار کر چکی ہے۔ اب یہ نیا قانون بین المذاہب تعلقات کو بھی جرم بنانے کی کوشش ہے، جو بھارت کے جمہوری اور سیکولر تشخص کے خلاف ہے۔