نئی دہلی:بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت، تعصب اور انتہاپسندانہ کارروائیاں ایک مرتبہ پھر بے نقاب ہوگئیں۔
غیرملکی میڈیا کی تازہ رپورٹ کے مطابق آر ایس ایس کے زیرِ اثر ہندوتوا ایجنڈے کے تحت ملک بھر میں مسلمانوں کو منظم طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ حکومتی اور ادارہ جاتی رویوں نے صورتحال کو مزید تشویشناک بنا دیا۔
رپورٹ کے مطابق مہاراشٹرا میں تین مسلم طلبہ کو کلاس روم میں نماز پڑھنے پر اس قدر ہراساں کیا گیا کہ انہیں ایک مورتی کے سامنے جھکنے اور بیٹھک لگانے پر مجبور کیا گیا۔ اسی طرح آگرہ میں تاج محل کے قریب ایک 64 سالہ مسلم ٹیکسی ڈرائیور کو نوجوانوں نے روک کر زبردستی “جے شری رام” کا نعرہ لگوایا۔ دائیں بازو کے ہندو گروہ مسلمانوں کے خلاف کھلے عام نفرت انگیز تقاریر کرتے ہیں اور تشدد کی دھمکیاں دیتے ہیں لیکن حکام اور مرکزی دھارا میڈیا خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بریلی میں ایک مسلمان شہری کی دو منزلہ مارکیٹ کو غیر قانونی قرار دے کر مسمار کر دیا گیا جبکہ بھارت میں یہ خطرناک رجحان عام ہو چکا ہے کہ مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کی جائیدادیں بھی گرادی جاتی ہیں۔
مزید بتایا گیا کہ احتجاج یا کسی بھی قانونی حق کے استعمال پر مسلمان شہریوں کو بنا کارروائی گرفتار کر لیا جاتا ہے، جب کہ سوشل میڈیا پر دائیں بازو کے گروہ مسلمانوں کے خلاف مسلسل نفرت انگیزی پھیلا رہے ہیں۔
دوسری جانب جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا ہے کہ بھارت کی موجودہ صورت حال انتہائی حساس اور تشویشناک ہے جہاں ایک خاص طبقے کی بالادستی اور دوسرے طبقوں کو قانونی طور پر بے بس، سماجی طور پر علیحدہ اور معاشی طور پر محروم کرنے کے لیے معاشی بائیکاٹ، بلڈوزر ایکشن، ماب لنچنگ، مسلم اوقاف کی سبوتاژی، مدارس اور اسلامی شعائر کے خلاف منفی مہم کی باقاعدہ اور منظم کوششیں کی جا رہی ہیں۔
مولانا محمود اسعد مدنی نے بھوپال میں جمعیت علمائے ہند کی مجلس منتظمہ کی صدارت کرتے ہوئے تبدیلی مذہب کے قانون کوآڑے ہاتھوں لیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے آئین نے ہمیں اپنے مذہب پر چلنے اور اس کی تبلیغ کی اجازت دی ہے لیکن اس قانون میں ترمیم کے ذریعے اس بنیادی حق کو ختم کیا جارہا ہے۔ اس قانون کو اس طرح استعمال کیا جا رہا ہے کہ مذہب کی تبلیغ کا عمل جرم اور سزا کا سبب بن جائے۔
دوسری طرف گھر واپسی کے نام پر ہندو دھرم میں شامل کرنے والوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ ان پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا، نہ ہی کوئی قانونی کارروائی ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سماج کو ایک خاص مذہبی سمت کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔

