ہمارے بڑے خاں صاحب کے چہیتے حضرات و خواتین 20جنوری 2025کے بعد سے کسی بھی وقت اڈیالہ جیل کے دروازے ٹوٹنے اور دیواریں گرنے کی جو امید لگائے ہوئے تھے، اس امید پہ تا حال اوس پڑی ہو ئی ہے کہ بڑے خاں صاحب کے امریکی ورژن مسٹر ٹرمپ نے اتنے محاذ کھول لیے ہیں اور مزید کھولے جا رہے ہیں جن سے ماہرین کے خیال میں بہ ظاہر اگلے کئی ماہ تک پاکستان کی طرف توجہ کی باری آنے کا امکانات دکھائی نہیں دے رہے، مثلاً:
٭ غیر قانونی تارکین وطن کی امریکا بدری اور نہ جانے والوں میں سے فی الحال یومیہ 1800لوگوں کی گرفتاری کا ہدف رکھا گیا ہے، روزانہ رات کے آخری پہر کارروائیاں ہو رہی ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے پنجاب پولیس کی چھاپا مار کارروائیاں ہوں۔
٭ کس ملک نے امریکا میں کتنی سرمایہ کاری کرنی ہے، اس کا فیصلہ وہ ملک نہیں ٹرمپ کریں گے، مثلاً شہزادہ محمد بن سلمان 600ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہ رہے ہیں لیکن ٹرمپ انہیں لقمہ دے کر اس سرمایہ کو ایکہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کروانا چاہ رہے ہیں۔
٭ جو گرفتاریاں ہو رہی ہیں ان کے لیے گوانتا نامو بے میں جگہ بنا ئی جارہی ہے، وہاں کتنی بڑی تعداد کو رکھا جائے گا اور کب تک رکھا جائے، یہ بھی ٹرمپ طے کریں گے۔
٭ جہازوں پہ جہاز گر رہے ہیں، اگرچہ ٹرمپ کے بقول اس کے اصل ذمے دار جو بائیڈن ہیں لیکن ٹرمپ کی مصروفیات اور مشغولیات تو بڑھ گئی ہیں نا۔ یومیہ گھنٹے تو امریکا میں بھی 24ہی ہوتے ہیں اور کام ساری دنیا کے حکمرانوں کے ایک طرف اور امریکا کے طرف، اس لیے ٹرمپ کی مصروفیات بھی سب پر غالب ہیں۔
٭٭٭
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جو ڈھیلے ڈھالے پھسپھسے مذاکرات شروع ہو ئے تھے وہ بھی ٹھس ہو گئے ہیں۔ کچھ ذرائع کہہ رہے ہیں ڈیڈ لاک ہے، کچھ کہہ رہے ہیں دی اینڈ ہوگیا ہے۔ ایک بات البتہ ہے کہ مذاکراتی کمیٹیاں تحلیل نہیں ہوئیں، حکومتی ٹیم 31جنوری کو تحلیل ہونا تھی، وہ بھی سر دست باقی ہے، تحریک انصاف کی ٹیم بھی تحلیل نہیں ہوئی، حکومتی ٹیم کا مختار کل کون ہے، یہ معلوم نہیں، لیکن تحریک انصاف کی ٹیم کے مختار کل جناب بڑے خان صاحب ہیں۔ کیا پتا کب خان صاحب اپنی ٹیم کو حکم دے دیں مذاکرات شروع کردو۔ کیوں کہ بڑے خان صاحب جتنے بڑے خان ہیں اتنے ہی کنفیوز بھی زیادہ ہیں، اتنے زیادہ کہ اپنے ساتھ نہ جانے کتنے لوگوں کو کنفیوز رکھتے ہیں۔
٭٭٭
یکم فروری سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں چھوٹا سا اضافہ ہو گیا ہے۔ اضافہ چھوٹا سا بھی بھاری پڑتا ہے اور کمی بھاری بھر کم بھی کم ہی لگتی ہے، ہل من مزید کا جذبہ موجزن ہو رہا ہو تا ہے، حکومت بے چاری کمزور ہے بے بس ہے مجبور ہے، پتا نہیں کس دل اور کس ہمت سے اسے اضافہ کرنا پڑ رہا ہے کیوں کہ مخالف تو مخالف اپنے بھی حکومتی نشیمن پہ بجلیاں گراتے رہتے ہیں۔ سیاست ایسی عجیب و غریب چیز ہے ہر شخص کو اپنی اپنی دکان سجانے چمکانے کیلئے تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ خاص طور پر جو ارکان اسمبلی ہوتے ہیں اور جن کا اپنا بڑا حلقہ ہوتا ہے اور وہ ارکان جو حکومتی جماعت کا حصہ تو ہوتے ہیں لیکن ان کی جماعت اور قیادت سے ناراضی چل رہی ہوتی ہے جیسے آج کل جاوید لطیف ہیں اور جو لوگ حکومتی جماعت کا بڑا عرصہ حصہ رہنے کے بعد الگ ہوئے، وہ تو خوب ٹھوک بجا رہے ہوتے ہیں جیسے آج کل شاہد خاقان عباسی ہیں۔
٭٭٭
کینیڈا پر ٹرمپ کی خصوصی نظر ہے۔ اسے اپنی 51ویں ریاست بنانا چاہ رہے تھے، کینیڈا نے وہ تو منظور نہیں کیا، اب جو ٹیرف لگا رہے ہیں اس پر امریکا سے کینیڈا کی ٹھنے گی اور دوسرے ممالک بھی ٹیرف پر الجھیں گے لیکن کون کیا کرسکتا ہے؟ ٹرمپ امریکا کو بہت برا پھنسا رہے ہیں یا تو امریکا بہت اوپر جائے گا یا پھر سب مل کر اس کی ایسی کی تیسی کردیں گے لیکن پہل کون کرتا ہے اور کیسے کرتا ہے یہ ہے اصل معاملہ اور مسئلہ۔
٭٭٭
چمپئنز ٹرافی کا موسم قریب آرہا ہے۔ ہمارے محسن نقوی ٹو ان ون ہیں اور دونوں ٹف عہدے ہیں۔ بندہ جی دار ہے اس لیے چل رہا ہے۔ ادھر ان کے رقیب رو سرخ کیے ہوئے ہیں نہ صرف رو بلکہ آنکھیں بھی۔ کیا پتا کب اسلام آباد پر چڑھائی کرنے ان کے قافلے چل پڑیں۔ بڑے خان صاحب کو جیل میں فرصت ہی فرصت ہے، اس لیے ہر وقت متحرک رہتے ہیں۔ خیر مسٹر محسن نقوی بطور چیئر مین پی سی بی چمپئنز ٹرافی کو خوب انجوائے کر رہے ہیں لیکن اس سے پہلے کراچی اور لاہور کے اسٹیڈیم کی تیاری کا مرحلہ چل رہا ہے اور مسٹر نقوی کی پھرتیاں چل رہی ہیں۔ جب تک ایونٹ مکمل نہیں ہوتا پھرتیاں دو چند رہیں گی او ر ایونٹ سے پہلے خان صاحب کب ٹی ٹونٹی بلکہ ٹی 10شروع کردیں کوئی پتا نہیں۔
