تباہ حال غزہ کی بحالی کا چیلنج (سمیع اللہ ملک۔ لندن)

گزشتہ سے پیوستہ:
اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑ رہا ہے کہ پچھلے کئی مہینوں سے یہ لاشیں یہاں پڑی ہوئی ہیں لیکن سال سے زائد بے گور وکفن لاشوں کی سڑاند کی بدبو کی بجائے یہاں ایک عجیب قسم کی خوشبو دل وجاں کو معطر کر رہی ہے۔ یہ شہداء سے رب کا وعدہ پورا ہوگیا ہے۔ یہ سب کچھ نہ صرف غزہ کے عوام بلکہ پوری انسانیت کیلئے ایک کرب ناک منظر پیش کرتا ہے۔ بے گھر افراد، یتیم بچے اور زخمی معذور افراد ان مظالم کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان مظلوموں کو انصاف کب ملے گا؟
اس جنگ کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں دیکھنے میں آئیں۔ نہتے عوام پر بمباری، طبی مراکز اور اسکولوں کی تباہی اور معصوم بچوں کی ہلاکتیں ان مظالم کا محض ایک حصہ ہیں۔ اس انسانی المیے کے پیچھے براہ راست اوربالواسطہ کئی عناصر ذمہ دار ہیں۔ سب سے پہلے ان ظالم عناصر کو دیکھنا ہوگا جو اس تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ جدید ترین اسلحے کے استعمال، شہری آبادیوں پر حملوں اور معصوم جانوں کے قتل میں ملوث افراد اور ریاستیں انصاف کے کٹہرے میں لائی جانی چاہئیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی طاقتور ممالک، جو خود کو انسانی حقوق کے محافظ کہتے ہیں، درپردہ ان مظالم کے مرتکب افراد کو اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔
یہ ممالک نہ صرف غزہ کے عوام کے خلاف ہونے والے جرائم پر خاموش رہتے ہیں بلکہ ظالم قوتوں کو مالی اور عسکری مدد فراہم کرتے ہیں۔ ان کی اسلحہ سپلائی اور سیاسی حمایت نہ صرف ان مظالم کو جاری رکھنے کا سبب بنتی ہے بلکہ انصاف کے قیام میں بھی رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہنے والا انڈیا تو اس سفاکی میں برابر کا شریک رہا کہ اس نے باقاعدہ اپنے لوگوں کو اسرائیلی فوج میں کرائے کے سپاہیوں کے طور پر بھیجا جنہوں نے اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی عورتوں، بزرگوں اوربچوں کو ہولناک طریقے سے مارنے میں پورا حصہ لیا۔ یہ رویہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو مزید ہوا دیتا ہے اور مظلوموں کے زخموں کو گہرا کرتا ہے۔
غزہ کے ملبے کو ہٹانا اور دوبارہ آبادکاری ایک بڑا چیلنج ہے، جس کیلئے ماہرین نے مختلف پہلوؤں پر زور دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملبے کو ہٹانے کے دوران ماحولیاتی اثرات کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔ ملبے میں موجود خطرناک مواد جیسے ایسبیسٹوس اور دیگر زہریلے اجزا کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانا ضروری ہے تاکہ عوام کی صحت پر منفی اثرات نہ پڑیں۔ تعمیر نو کے عمل میں مقامی مواد اورکاریگروں کا استعمال نہ صرف اقتصادی طورپر فائدہ مند ہوگا بلکہ اس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
ماہرین کے مطابق غزہ کی مکمل بحالی کیلئے اربوں ڈالرز درکار ہوں گے۔ 50ہزار ملین ٹن سے زائد ملبہ ہٹانے کیلئے کئی دہائیوں کا وقت لگ سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی امدادی ادارے اس حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن ان کے موجودہ رویے سے امید کم ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے اور مسلم ممالک کو اس بحران کے حل کیلئے خصوصی فنڈ قائم کرنا ہوگا۔
غزہ کے عوام کیلئے انصاف کی فراہمی ایک مشکل لیکن ضروری عمل ہے۔ جنگ کے دوران ہونے والے جرائم کی تحقیقات اور ذمہ داران کو کٹہرے میں لانا انتہائی اہم ہے۔ جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے عالمی سطح پر ایک مضبوط اور غیر جانبدار نظام کی ضرورت ہے لیکن یہ عمل کئی چیلنجز سے گھرا ہوا ہے۔ طاقتور ممالک کے سیاسی مفادات، اقوامِ متحدہ کی کمزور حیثیت اور انصاف کے عمل میں سست روی جیسے عوامل انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ان مظالم کی روک تھام اور غزہ کے عوام کو ایک محفوظ مستقبل دینے کیلئے ہمیں درج ذیل اقدامات پر غور کرنا ہوگا۔
٭پہلا کام عالمی برادری اس بات کو یقینی بنائے کہ جنگ کے دوران ہونے والے مظالم کی شفاف تحقیقات ہوں اور جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو سزا دی جائے۔ یہ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف کے عمل کو یقینی بنائیں۔
٭دوسرا کام جنگ کے بعد غزہ کی تعمیرِنو اور متاثرین کی بحالی کیلئے عالمی سطح پر ہنگامی بنیادوں پر امدادی سرگرمیوں کا آغاز ہونا چاہیے۔ بے گھر افراد کو رہائش فراہم کی جائے اور صحت، تعلیم اور بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
٭اس جنگ کا بنیادی مسئلہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع ہے۔ جب تک اس تنازع کو مستقل طورپر حل نہیں کیا جاتا، جنگ اور خونریزی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
٭عالمی رہنماؤں کو اس مسئلے کے پائیدار حل کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ دنیابھر کے عوام کو غزہ میں ہونے والے مظالم کے بارے میں شعور دینا ضروری ہے۔
٭میڈیا کو اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ان مظالم کو دنیا کے سامنے لانا ہوگا تاکہ عوامی دباؤ عالمی برادری کو حرکت میں لاسکے۔ مسلم دنیا کو متحد ہو کر فلسطین کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا ہوگا۔ یہ اتحاد نہ صرف سیاسی بلکہ اقتصادی اور سفارتی سطح پر بھی ضروری ہے تاکہ عالمی برادری کو اس مسئلے کے حل کی طرف راغب کیا جا سکے۔
٭غزہ کے عوام کی حالت زار اور جنگ کے بعد کے مناظر ہمیں انسانی حقوق، انصاف اور عالمی ضمیر کے حوالے سے کئی سوالات پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ عالمی برادری اس ناانصافی کے خلاف متحد ہو اور ایک مضبوط اور مؤثر لائحہ عمل اختیار کرے تاکہ مستقبل میں ایسے مظالم کی روک تھام ہو سکے۔
٭انصاف کی فراہمی صرف ایک اخلاقی ضرورت نہیں بلکہ انسانی وقار اور امن کے قیام کی بنیاد ہے۔ جب تک غزہ کے مظلوموں کو انصاف نہیں ملتا، عالمی امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ ہمیں مل کر ان مظالم کے خاتمے کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی تاکہ آنے والی نسلیں ایک پرامن اور محفوظ دنیا میں جی سکیں۔