حالیہ دنوں میں قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی منظوری دی ہے، جس کے تحت ارکان کی ماہانہ تنخواہ و مراعات 5لاکھ 19ہزار روپے تک پہنچ جائیں گی۔ اس وقت ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہ 2لاکھ 18ہزار روپے ہے، جس میں تقریباً 200فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ اس فیصلے نے ملک بھر میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، جہاں عام شہری مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے، وہاں حکومتی نمائندوں کی تنخواہوں میں اس قدر اضافہ کیا جانا چاہیے؟
ملکی مجموعی اقتصادی حالت کو مدنظر رکھا جائے تو یہ فیصلہ ناگزیر طور پر تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔ ایک بڑی تعداد ایسے شہریوں پر مشتمل ہے جو بمشکل اپنا گزر بسر کر پاتے ہیں۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق ملک میں تقریباً 40فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ عام سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اکثر مہینوں تک تاخیر کا شکار رہتی ہیں اور مزدور طبقے کیلئے 20سے 30ہزار روپے کی تنخواہ میں گزارا کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس پارلیمنٹ کے ارکان جو پہلے ہی مراعات اور سہولیات سے مالامال ہیں، اپنی تنخواہوں میں بے تحاشا اضافے کر رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اس فیصلے پر نہ تو کسی سیاسی جماعت نے اختلاف کیا اور نہ ہی کسی رکن نے اسے عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیا۔ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر بحث کرتے ہوئے جو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف شدید اختلافات رکھتی ہیں، وہ تنخواہوں اور مراعات میں اضافے پر مکمل ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ عوامی نمائندوں کی اولین ترجیح عوامی مسائل کے حل کی بجائے ذاتی معاملات ہیں۔
ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری شعبوں میں تنخواہوں میں ایک غیر متوازن تفاوت پایا جاتا ہے۔ ایک عام سرکاری ملازم یا مزدور کی تنخواہ بمشکل 25ہزار سے 50ہزار روپے کے درمیان ہوتی ہے جبکہ ایک عام محنت کش 15سے30ہزار روپے ماہانہ کماتا ہے۔ دوسری جانب اعلیٰ سرکاری افسران، وزرا اور ارکانِ پارلیمنٹ لاکھوں روپے تنخواہ اور بے شمار مراعات وصول کرتے ہیں۔ اس قدر شدید فرق سے نہ صرف سماجی بے چینی پیدا ہوتی ہے بلکہ یہ محرومی اور ناانصافی کے احساس کو بھی فروغ دیتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں پارلیمانی ارکان کی تنخواہوں کا تعین عوام کی اوسط آمدنی اور معیشت کی مجموعی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں برعکس ہے۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ عوامی مفادات کے معاملات پر سیاسی جماعتوں کے درمیان شدید اختلافات رہتے ہیں۔ بجلی، پانی، تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی مسائل پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہمیشہ ایک مشکل امر رہا ہے۔ اس کے برعکس جب معاملہ اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا ہو تو تمام جماعتیں مستعدی سے ایک دوسرے کی حمایت کرتی ہیں۔ یہ رویہ جمہوریت اور عوامی نمائندگی کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ عوام نے اپنے مسائل کے حل کے لیے نمائندے منتخب کیے تھے، نہ کہ اپنی عیش و عشرت بڑھانے کے لیے۔ پارلیمنٹ کا بنیادی کام قانون سازی اور عوامی فلاح کے منصوبوں پر عملدرآمد کرانا ہیمگر بدقسمتی سے اکثر ارکانِ پارلیمنٹ ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں۔
تنخواہوں میں بے تحاشا اضافے اور مراعات یافتہ طبقے کی اجارہ داری کو روکنے کیلئے کچھ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایک غیر جانبدار اور خودمختار کمیشن تشکیل دیا جانا چاہیے جو تمام سرکاری عہدیداروں کی تنخواہوں اور مراعات کا جائزہ لے اور انہیں ملک کی اقتصادی حالت اور عوام کی اوسط آمدنی کے مطابق مقرر کرے۔ عوام کو بھی اس فیصلے میں شامل کرنے کیلئے پارلیمانی تنخواہوں میں اضافے کیلئے ایک ریفرنڈم یا عوامی مشاورت کا نظام متعارف کرایا جائے تاکہ عام شہری اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔ ارکانِ پارلیمنٹ کیلئے غیر ضروری مراعات، جیسے مفت رہائش، گاڑیاں، سفری اخراجات اور دیگر سہولیات محدود کی جائیں تاکہ قومی خزانے پر بوجھ کم ہو۔ اگر تنخواہوں میں اضافہ ناگزیر ہو تو اسے عام سرکاری ملازمین اور مزدور طبقے کی تنخواہوں میں اضافے کے تناسب سے رکھا جائے تاکہ تمام طبقات کو یکساں فائدہ پہنچے۔ تنخواہوں میں اضافے کے فیصلے کو شفاف بنایا جائے اور عوام کو اس بارے میں آگاہ کیا جائے کہ کس بنیاد پر یہ اضافہ کیا جا رہا ہے۔
ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں غیر ضروری اضافے کا مسئلہ صرف معاشی نہیں بلکہ سماجی اور اخلاقی بھی ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ملک شدید مالی بحران سے دوچار ہے، مہنگائی اور بیروزگاری اپنے عروج پر ہیاور عوام دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہیں۔ ایسے حالات میں ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں غیر ضروری اضافہ عوامی غصے کو بڑھائے گا۔
