تباہ حال غزہ کی بحالی کا چیلنج (سمیع اللہ ملک۔ لندن)

فلسطینی نژاد ڈاکٹرخالدکے مسلسل اصرارکے بعدجب اس کے گھرپہنچاتوعجیب روحانی اوررومانی مناظرنے مجھے مسحور کردیا۔یوں محسوس ہواکہ کمرے کی تمام دیواروں پرشہداء کے متعلق قرآنی کیلی گرافی کی شاہکارتصاویرمیرامحاسبہ کررہی ہیں۔خالدعرصہ درازسے لندن میں مقیم ہے۔10سال کے بعدپہلی مرتبہ اس کی اہلیہ اورتین بچے جونہی غزہ پہنچے تودودن کے بعد غزہ جنگ کے شعلوں میں بے دریغ انسانوں کی مقتل گاہ بن گیااورڈاکٹر خالد آج تنہابڑے تفاخرسے اپنی میزپرپڑی تصاویرالبم کے ہرصفحے پر مسکراتے شہداچہروں کا تعارف کراتے ہوئے کہتاہے کہ یہ سب اکٹھے اللہ کے ہاں رزق پارہے ہیں اورمیراانتظارکر رہے ہیں۔ اپنے بڑے بیٹے اوربیٹی کی تصویرکودیکھ کراپنی آنکھوں کی نمی چھپاتے اور کپکپاتے ہونٹوں سے گویا ہواکہ یہ میرے رب کی امانت تھے، اسی کولوٹادیاہے اوریقینا میری راہِ آخرت کے کانٹے ہٹانے کاکام کررہے ہیں۔
غزہ میں حالیہ جنگ بندی کا ذکر اور وہاں کے مکینوں کی واپسی کاموضوع شروع ہوا تو دل تھامنا مشکل ہوگیا۔ خالد نے ٹی وی اسکرین پرکچھ تازہ ویڈیوکلپ چلانے شروع کردیے جس میں غزہ کے ملبوں کے ڈھیر پرلوگ دیوانہ واراپنوں کوڈھونڈرہے ہیں۔کہیں کسی بچے کارنگ برنگااسکول بیگ پڑاہے، کہیں جوتا،کہیں لوے کاگلدان،کہیں بیڈیاکرسی کے ٹکڑے،کہیں ٹوٹی ہوئی کھڑکیاں، کہیں پانی کے گلاس کے ٹکڑے اورکہیں کٹے پھٹے کپڑے اور کہیں انسانی اعضا بکھرے پڑے ہیں۔ہاں تمام چیزیں گڈمڈ نظرآتی ہیں۔یہ مٹی سے اٹی ہوئی اشیاء غزہ میں اکثر پیاروں کی نشانیوںکے طورپردیکھی جا رہی ہیں اورانہیں دیکھ کراندازہ لگایاجاتاہے کہ یہ چیزیں جن افرادکے زیرِ استعمال تھیں ان کی لاشیں کہیں قریب ہی ملبے تلے دبی ہوسکتی ہیں۔ قابض اسرائیلی فورسزکے رفح سے دفع ہونے کے بعدسینکڑوں لاشیں گھروں کے ملبے تلے دبی ہوئی ملی ہیں۔ فلسطینی حکامِ صحت کااندازہ ہے کہ وہاں 10ہزارلوگ تاحال لاپتاہیں۔ ایمرجنسی ٹیموں کواکثرکپڑے یادیگراشیادیکھ کر ملبے تلے لاشوں کی موجودی کاعلم ہوتاہے اورجب یہ نشانیاں نظر نہیں آتیں توپھرلاپتاافرادکے رشتہ داروں سے معلومات حاصل کی جاتی ہیں یاپھرملبے کے پاس خون اورانسانی باقیات کی بو سونگھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسرائیلی حکومت نے تمام خبررساں غیرملکی اداروں کے غزہ میں داخلے اور آزادانہ رپورٹنگ کرنے پرپابندی عائدکررکھی ہے۔ ایسے میں لاپتاافرادکوڈھونڈنے والے لوگوں کی کہانیاں دنیاتک پہنچانے کیلئے ڈاکٹرخالدسے زیادہ مستند سہاراکہاں سے لاؤں۔
جنگ بندی کے بعدجومناظرسامنے آئے، وہ دل دہلادینے والے اورانسانی ضمیرکوجھنجھوڑنے والے ہیں۔ صہیونی جارحیت کے دوران ہونے والے جانی ومالی نقصانات کے بعدغزہ کے مکینوں کی اپنے گھروں کوواپسی کامنظرنہایت تکلیف دہ تھا۔اجڑے ہوئے مکان،ملبے کے ڈھیراور پیاروں کی ناقابل شناخت لاشیں غزہ کے باسیوں کیلئے ایک ایسی حقیقت بن چکی ہیں جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ غزہ کی گلیاں اورمحلے اس وقت ایک کھنڈرکی صورت اختیار کرچکے ہیں۔جب لوگ جنگ بندی کے بعداپنے گھروں کو واپس لوٹے توانہیں ایسی تباہی کا سامناکرناپڑاجوانسانی تصورسے بالاترتھی۔ کئی خاندان اپنے پیاروں کوکھوچکے ہیں اورکچھ تواپنے پیاروں کی لاشوں کوبھی شناخت کرنے سے قاصرہیں۔ ایسے مناظر جہاں بھوکے کتوں کوانسانی لاشوں کوکھاتے دیکھاگیا،انسانیت کی بے بسی اورظلم کی انتہاکی عکاسی کرتے ہیں۔مقامی افرادبہت محتاط اندازمیں ملبے ہٹا رہے ہیں کیونکہ انھیں علم ہے کہ اس مٹی اورپتھروں کے ڈھیرکے نیچے وہ”انسانیت کے پرخچے”ڈھونڈرہے ہیں۔اکثرانہیں ملبے کے نیچے سے ہڈیوں کے ڈھیرکے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔اسرائیلی بموں کے پھٹنے سے یہاں اکثرشہداء کے جسم بھی متعدد ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتے تھے۔یہاں ملنے والی ہڈیوں اورکپڑوں کے ٹکڑوں کوکفن میں لپیٹ کررکھا جاتاہے اورایک سفیدریش بزرگ ان کفن نماتھیلوں پر”ناقابلِ شناخت” کالیبل لگارہے ہیں۔
غزہ کے ایک شہری جنگ بندی کے بعدجب اپنے گھرلوٹے توانہیں اندرایک ڈھانچا ملاجس کی کھوپڑی ٹوٹی ہوئی تھی۔ان کے خیال میں یہ لاش وہاں تقریباً6مہینوں سے پڑی ہوئی تھی۔لاش کودیکھ کرپھوٹ پھوٹ کرروتے ہوئے کہہ رہاہے کہ”ہم انسان ہیں اورجذبات رکھتے ہیں۔میں آپ کوبتا نہیں سکتاکہ یہ کتنابے بس کردینے والاالمیہ ہے۔یہ لاشیں خوفناک ہیں،ہم دہشت کواپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔میں قسم کھاکرکہتاہوں کہ یہ ایک دردناک احساس ہے اورمیں اس سب کومحسوس کرکے اس لئے روتاہوں کہ مجھے ان کے ساتھ گزرے ہوئے زندگی کے50سال یادآرہے ہیں اوریہ تمام نوخیزکلیاں بہارآنے سے پہلے مسل دی گئیں۔”
رفح کے اسپتالوں میں بھی لوگوں کی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں جواکثراپنے اہل خانہ کی لاشوں کی باقیات وصول کرنے آتے ہیں۔ جنوبی غزہ کے یورپین اسپتال کے صحن میں کپڑوں کے تھیلوں میں ہڈیوں کامجموعہ اورکپڑے رکھے ہوئے ہیں۔19سالہ عبدالسلام رفح کے رہائشی تھے۔ان کے چچا ذکی کے مطابق وہ شبوراکے علاقے میں لاپتا ہوئے تھے اوریہ وہ مقام تھا جہاں دورانِ جنگ زندہ بچنابہت مشکل تھا۔اسی لیے ہم عبدالسلام کووہاں ڈھونڈنے نہیں گئے کیونکہ پھروہاں سے ہم زندہ واپس نہیں آسکتے تھے۔ان کے سامنے پڑی ہڈیاں اورکپڑے لاپتا ہونے والے عبدالسلام کے ہیں۔وہ یہاں اسپتال کے ایک کارکن کے ساتھ کھڑے عبدالسلام کے بھائی کاانتظارکررہے ہیں۔ ہمیں 99 فیصدیقین ہے کہ یہ لاش عبدالسلام کی ہی ہے لیکن ہم پھربھی حتمی تصدیق کیلئے ان کے بھائی کے منتظرہیں کیونکہ وہ ان کے سب سے قریبی عزیزہیں اوروہ حتمی طورپربتاسکیں گے کہ یہ جوتے اور پینٹ ان کے بھائی کے ہیں۔
پھرجنوبی غزہ میں ہی واقع پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں رہائش پذیرعبدالسلام کے بھائی اسپتال پہنچ گئے۔ ان کے موبائل میں اپنے لاپتا بھائی کی ایک تصویرتھی جس میں ان کے جوتے بھی نظرآرہے تھے۔وہ وہاں موجودلاش کے سامنے جھک گئے اور اس پرسے پردہ ہٹایا۔انہوں نے کھوپڑی اور کپڑوں کوچھوااورپھرجوتوں کودیکھا۔ان کی آنکھوں میں آنسوتھے اور بھائی کے جوتوں کو بوسہ دیتے ہی ایک اورلاش کاشناختی عمل مکمل ہوچکاتھا۔یہاں ہی موجودایک اورخاندان کفن نماتھیلوں کوٹٹول رہاتھا۔ان میں ایک بوڑھی دادی تھیں،ایک بیٹاتھا ، ایک بیٹی تھی اورایک شیرخواربچہ،باقی خاندان کے دودرجن افراکیآنکھوں کے سامنے پرخچے اڑتے ہوئے دیکھ کرضعیف وناتواں دادی ان بچوں کے ساتھ کھڑی آسمان کی طرف منہ کرکے نجانے کیا باتیں کررہی تھی۔اس گروہ میں بچے کوسب سے پیچھے رکھا گیاتھااوربزرگ خاتون اوران کاپوتاایک کفن نماتھیلے کودیکھ رہے تھے۔وہ اس تھیلے کوکچھ لمحوں تک دیکھتے رہے اورپھردکھ میں ایک دوسرے کے گلے لگ کررونے لگے۔اس کے بعداسپتال کے کارکنان کی مدد سے یہ خاندان ایک لاش کی باقیات اپنے ساتھ لے گیا۔ان سب کی سسکیاں سُنی جاسکتی تھیں لیکن وہ باآواز بلند نہیں رورہے تھے۔(جاری ہے)