گزشتہ دنوں سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ مولانا آصف قاسمی صاحب کینیڈا سے تشریف لائے ہیں۔ یہ سنتے ہی دل ان سے ملاقات اور قدم بوسی کیلئے مچل اٹھا۔ وہ میرے والد محترم حضرت اقدس مولانا مفتی محمد مظفر الدین علیہ الرحمہ کے دوست اور رفیق رہے ہیں۔ ان کی کراچی تشریف آوری کا سنتے ہی والد مرحوم کے ساتھ قیام کراچی کے دوران ان کی رفاقت اور تحریکی سرگرمیوں کے شب و روز کے واقعات ایک فلم کی طرح ذہن کی اسکرین پر چلنے لگے اور دل کے طاقچے میں پرانی یادوں کے لاتعداد چھوٹے چھوٹے چراغ جھلمل کرنے لگے۔ فوری طور پر حضرت کا نمبر حاصل کیا اور بغیر کسی واسطے کو بیچ میں لائے براہ راست نمبر ڈائل کرکے رسپانس کا انتظار کرنے لگا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس قدر بے تابی اور بے قراری سی جذبات پر حاوی تھی۔ نمبر ملتے ہی حضرت نے خود ریسیو کیا، تاہم علیک سلیک اور مختصر ذاتی تعارف کے باوجود حضرت نے نہیں پہچانا، مگر جیسے ہی والد صاحب کا حوالہ دیا تو حضرت نے فورا پہچان لیا اور بڑی محبت اور شفقت کا مظاہرہ کیا۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ میں مختصر وقت کیلئے آپ کی قدم بوسی کیلئے آنا چاہتا ہوں، اپنی سہولت کو دیکھ کر کوئی وقت دیجئے۔
جمعرات کی دوپہر ان کی خدمت میں ہم حاضر ہوئے اور کافی دیر تک ان کے پاس بیٹھ کر پرانی یادیں تازہ کیں۔ اس ملاقات میں والد مرحوم کے ساتھ مختلف تحریکوں کی باتیں بھی ہوئیں، بعض یادوں اور باتوں پر مولانا مسکراتے اور کبھی کسی بات اور واقعے پر جذباتی بھی ہوجاتے، جبکہ کچھ معاملات پر فکر مندی کا بھی اظہار فرمایا۔ حضرت کا تعلق نانوتوی خاندان سے ہے۔ کراچی میں دار العلوم فاروق اعظم ملک کا مشہور و معروف دینی ادارہ ہے۔ جو روایت اور جدت اور درس نظامی کے ساتھ ٹیکنیکل ایجوکیشن اور ہیلتھ ورک کا شاندار امتزاج اور دینی مدارس کیلئے ایک بہترین ماڈل ہے۔ یہ سارا ماڈل حضرت مولانا آصف قاسمی صاحب کے وژن کا ایک شاندار عملی نمونہ ہے۔ دار العلوم فاروق اعظم کی نگرانی حضرت کے صاحبزادے کررہے ہیں۔ یہاں وفاق المدارس کے تحت درس نظامی اور تخصص کے ساتھ ساتھ بہترین اور مکمل پروفیشنل کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ، میڈیکل سینٹر، ڈینٹل کیئر، حجامہ اور اس کے علاوہ مختلف کورسز کا انتظام ہے، جس سے کم فیسز کے ذریعے کراچی کے ہزاروں لاکھوں افراد استفادہ کر رہے ہیں۔
حضرت مولانا آصف قاسمی صاحب ستر اور اسی کی دہائی میں کراچی میں انتہائی فعال مذہبی و تحریکی رہنما تھے۔کئی ملی تحریکات میں حضرت والد مرحوم مولانا مفتی محمد مظفرالدین علیہ الرحمہ اور انہوں نے مل کر حصہ لیا۔ اس عرصے میں آپ ایک دبنگ، فعال اور بارسوخ مذہبی رہنما تھے اور علمائ، طلبہ اور دینی مدارس کو درپیش مسائل اور دینی و مسلکی معاملات کے حل کیلئے پیش پیش رہتے تھے۔ اس کے علاوہ آپ کا حلقہ درس قرآن بھی بہت معروف تھا۔ بعد ازاں آپ مستقل طور پر کینیڈا منتقل ہوگئے اور اونٹاریو کے مسی ساگا شہر میں جامعہ اسلامیہ کینیڈا کے نام سے ادارہ قائم کیا، جو رفتہ رفتہ خدمت دین کا ایک چھتنار درخت بن چکا ہے۔جامعہ اسلامیہ اب کینیڈا کا سب سے بڑا دینی ادارہ ہے، اس کے تحت ایک اسلامی اسکول سمیت کمیونٹی خدمات کے کئی شعبے اور دعوت دین کا ڈیسک قائم ہے، جس سے جہاں کینیڈا بھر کے مسلمانوں مختلف حوالوں سے استفادہ کرتے ہیں وہاں یہ ادارہ غیر مسلم حضرات کیلئے دین اسلام کے تعارف کا بھی ایک مستند حوالہ بن چکا ہے۔
اس ادارے کی کامیابی دراصل حضرت مولانا آصف قاسمی کی فکر مندی، جدوجہد اور وژن کا حاصل ہے۔ ماشاء اللہ حضرت پیرانہ سالی میں بھی جوانوں کی طرح توانا ہیں اور جوانی کی طرح ہی خدمت دین کے ساتھ بھرپور جذبے سے جڑے ہوئے ہیں۔ حضرت کے دروس قرآن کا مجموعہ ”تفسیر بصیرت قرآن” کے عنوان سے 1998ء میں مکتبہ بصیرت قرآن کراچی سے شائع ہوکر سند قبول حاصل کرچکی ہے، حال ہی میں آپ نے صحیح بخاری شریف کی اردو میں تفہیم بصیرت البخاری کے عنوان سے تین جلدوں میں مکمل کرکے شائع کردی ہے، جس کی ہمیں بطور خاص زیارت بھی کروائی، ان شاء اللہ جلد اس کا اہل علم کی خاص مجلس میں رونمائی بھی ہوگی۔اللہ تعالیٰ حضرت کی جملہ دینی، ملی، علمی اور عملی خدمات کو اپنی بارگاہ میں شرف قبول بخشے۔
ملاقات کے دوران ہم نے اپنا سفرنامہ ترکیہ ”دیار خلافت کا سفرشوق” بھی برکت کیلئے ان کی خدمت میں پیش کی اور اس کے علاوہ جامعہ اسلامیہ مخزن العلوم اور اس کی شاخوں اور جملہ متعلقہ دینی و رفاہی خدمات کا ذکر کیا تو بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیں۔ آخر میں ہم نے ان سے جامعہ اسلامیہ مخزن العلوم تشریف آوری کا وقت لیکر رخصت چاہی۔
