ملک میں کوئی سانحہ پیش آجائے تو انتظامیہ حکومت پولیس ودیگر ادارے جاگ جاتے ہیں، پھر آنا فانا کریک ڈاؤن، آپریشن، بھاری جرمانے، دکانیں، سیل، پکڑ دھکڑ شروع ہو جاتی ہے، کسی بھی سانحے میں سرکاری اداروں، پولیس کی غفلت نمایاں نظر آتی ہے، مگر شامت عوام کی آجاتی ہے، گزشتہ روز ملتان کے صنعتی زون (انڈسٹریل اسٹیٹ) میں ایل پی جی کنٹینر میں زوردار دھماکا ہوا جس میں 6قیمتی جانوں کا ضیاع اور 34سے زائد افراد کے جھلس جانے زخمی ہوئے اور قریبی آبادی شدید متاثر ہوئی، یہ سانحہ انتہائی افسوسناک ہے، 20سے زائد مکانات تباہ ہوئے، اسی طرح درجنوںگاڑیاںبھی جل کر راکھ ہوگئیں۔ وزیراعظم، وزیر پنجاب نے نوٹس لیا اور بات ختم ہو گئی۔
اب زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو اس سانحہ میں مقامی انتظامیہ کی غفلت شامل ہے، انڈسٹریل اسٹیٹ ملتان میں عرصہ سے ایل پی جی کی ری فلنگ جاری تھی، بڑے سلنڈر ریفلنگ ہوتے تھے اور شہری ضرورت کے تحت یہ کام بھی چل رہا تھا، کیونکہ انڈسٹریل اسٹیٹ ملتان میں ایل پی جی ری فلنگ کا بڑا گودام تھا، اس لیے کوئی غلطی سرزد ہوئی اورپھر دھماکا ہو گیا، آگ نے قیمتی قریبی مکانات، انسانی جانوں ودیگر املاک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جائے، جائے وقوع کا منظر دیکھ کر دل ہل کر رہ گیا، واقعہ کسی بھی دھماکے سے کم نہیں تھا، ایل پی جی کنٹینرز ہوں یا سلنڈر گیس چلتے پھرتے بم ہیں، یہ دھندا عرصہ سے جاری ہے، حکومت اس کاروبار کے لوگوں، تاجروں سے ٹیکس بھی وصول کرتی ہے، پولیس اہلکار بھتا بھی لیتے ہیں، یوں تمام نیٹ ورک آسانی سے چلتا ہے، اس طرح کے دیگر ممنوع کاروبار بھی بدستور چل رہے ہیں، مگر جب برا وقت آتا ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ خاک میں بدلنے میں دیر نہیں لگتی، ایل پی جی سلنڈر پھٹنے اور گاڑیوں میں آگ لگنے کے واقعات اکثر سامنے آتے رہتے ہیں، مگر آج تک سلنڈر پھٹنے آگ لگنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی، گھروں میں بھی گیس سلنڈر پھٹنے سے خواتین سمیت کئی اموات ہو جاتی ہیں، ان واقعات میں متعدد افراد جھلس کر معذور ی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، وزیراعظم سے ڈپٹی کمشنر تک سب نوٹس لیتے ہیں، اخبارات کی چیختی چلاتی سرخیاں آنکھیں کھول دیتی ہیں مگر حاکمین وقت نوٹس اور احکامات جاری کر کے اپنا فرض پورا کر لیتے ہیں اور پھر کسی اور سانحے کے انتظار میں خاموشی چھا جاتی ہے۔
ملتان گیس کنٹینر دھماکے کے بعد پورے جنوبی پنجاب میں ایل پی جی سلنڈر ری فلنگ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہو گیا، سینکڑوں دکانیں بند، دکانداروں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، وہی ہوا کہ شامت تمام دکانداروں کی آگئی، کبھی کہا جاتا ہے کہ ایل پی جی سلنڈر دکانوں کو شہر سے باہر منتقل کیا جائے گا، کبھی لائسنس لازمی کا چکر چلایا جاتا ہے، پٹرولیم کی مسلسل قیمتوں میں اضافہ اور گیس لوڈ شیڈنگ کے باعث ایل پی جی سلنڈر بھی شہری ضرورت بند کر رہ گئی ہے، گھروں میں ناشتہ کھانا تیار کرنے کے لیے سلنڈر ایک ضرورت ہے، پٹرولیم قیمتوں میں مسلسل اضافے کے بعد سے ویگن و رکشوں میں ایل پی جی سلنڈر کا استعمال جاری ہے، اس کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ ایل پی جی سلنڈر کی حامل گاڑیاں چلتے پھر تے بم اور میزائل ہیں، یہ معاملہ خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے، آئے دن ایسے سانحات حکومت اور عوام برداشت کر رہے ہیں، مگر ان کی روک تھام کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں، کوئی موثر حل نہیں، صرف چھاپوں جرمانوں گرفتاریوں سے کام چلا کر المناک واقعات سے چشم پوشی کی جا رہی ہے، ایل پی جی سلنڈر جیسی اہم ضرورت سے بھی بھاگنے کی بجائے گیس سلنڈر پھٹنے کے واقعات سے بچنے کے لیے کوئی موثر قدم اٹھایا جانا انتہائی ضروری ہے، عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
حکومت پنجاب نے صوبے میں عام شاپروں پر پابندی لگا کر نئے وزن کے شاپر تیار کر کے انہیں استعمال کی ہدایت کی ہے، عام شا پر پابندی کے تحت پرائس مجسٹریٹوں نے دکانداروں، ریڑھی والوں اور تندوروں میں خلاف ورزی پر آپریشن اور جرمانے شروع کر دیے، سلنڈر ری فلنگ کے عام دکانداروں کی طرح شاپرز کو لیکر چھوٹے دکانداروں کے خلاف کارروائی بھی تیز کر دی گئی، کوئی دکاندار رحم کی التجا کرے تو فوری گرفتار کر لیا جاتا ہے، پنجاب میں عام شاپر پر پابندی کی آڑ میں چھوٹے دکانداروں کا کاروبار کرنا مشکل ترین کر دیا گیا، چند سو روپے کمانے والے غریب کو 10سے 20ہزار روپے تک جرمانے ریاستی ظلم کے مترادف ہے۔
صوبے میں کئی روز سے جاری تجاوزات آپریشن جہاں بازاروں سڑکوں کی کشادگی کا باعث بن رہا ہے، اس اقدام کو سراہا جا رہا ہے مگر ساتھ ہی غریبوں کی ریڑھیوں اوررکشوں کی توڑ پھوڑ ظالمانہ اقدام بن چکا ہے، دکانداروں نے بازاروں، سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر 8,8فٹ تک تجاوزات قائم کر رکھی ہیں، اس کے لیے وہ میونسپل عملے کو باقاعدہ بھتے بھی دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تجاوزات آپریشن سالہا سال سے جاری ہے، مگر میونسپل عملہ دکانداروں کو مخبری کر کے سامان اٹھانے کا موقع فراہم کرتا ہے، یوں فرضی آپریشن پایہ تکمیل کو پہنچ جاتے ہیں، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ابھی چند قدم آگے بڑھتا ہے تو تجاوزات دوبارہ قائم ہو جاتی ہے، اصل پریشر صرف ریڑھی والوں تک محدود رہتا ہے، حکومت تاجروں کی بڑی بڑی تجاوزات کا مستقل بنیادوں پر خاتمہ کرے، ورنہ تجاوزات ہمیشہ قائم رہیں گی اور حکومت کا منہ چڑاتی رہیں گی۔
اسی طرح پرائس مجسٹریٹس مہنگائی پر کنٹرول کرنے کے لیے غلہ منڈیوں کے آڑھتیوں پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے چھوٹے دکانداروں کا جرمانے کر کے اپنی کارکردگی اور بہادری دکھاتے ہیں، اشیائے خوردونوش کے ریٹ کنٹرول کرنے کے لیے غلہ منڈیوں میں بے رحم کارروائی کی ضرورت ہے۔
ایل پی جی سلنڈر کی ری فیلنگ ہو یا تجاوزات میں اضافہ، اشیائے خور و نوش کے بڑھتے ریٹ اورہر طرح کے ایسے ملتے جلتے سماجی جرائم میں کسی نہ کسی شکل میں سرکاری لوگ ملوث ہوتے ہیں، کہیں فرضی کارروائیاں ہیں تو کہیں بھتا خوری کے باعث مکرو دھندے جاری ہیں، حکومت سماجی جرائم کی روک تھام کے لیے بیوروکریسی کی ”سب اچھا” کی رپورٹ پر اعتماد کی بجائے ٹھوس حکمت عملی اپنائے۔
