ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ہماری ذمے داری (امیر حمزہ)

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ اُمت ِمسلمہ کے اجتماعی ضمیر کی آزمائش اور بے حسی کی داستان ہے۔ وہ بیٹی، جو علم کی روشنی سے دنیا کو منور کرنے نکلی تھی، آج ظلم و ستم کی تاریکیوں میں قید ہے۔ یہ داستان مظلومیت نہ صرف ایک فرد کے ساتھ ہونے والے ظلم کی کہانی ہے بلکہ امت کے اجتماعی بکھراؤ، کمزوری اور غفلت کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ یہ سوال ہر مسلمان کے دل و دماغ میں گونجتا ہے کہ آخر کب تک ہم اپنی اجتماعی ذمہ داریوں سے غافل رہیں گے؟ کب تک ہم اپنی بیٹیوں، بہنوں، اور بھائیوں کو عالمی سازشوں کا شکار ہونے دیں گے؟ کب تک ہم اپنے ایمان، غیرت، اور اخوت کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر رہیں گے؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی، جو ایک تعلیم یافتہ، باشعور، اور دیندار خاتون ہیں، ان پر دہشت گردی جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے، جن کے خلاف تمام شواہد مشکوک اور متنازع ثابت ہوئے۔ ایک ایسی خاتون، جس نے اپنی زندگی تعلیم کے فروغ اور انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کی، اسے ایک سازش کے تحت دہشت گردی کے الزام میں قید کردیا گیا۔ عافیہ کا قصور آج تک کسی عدالت میں ثابت نہیں ہو سکا، لیکن پھر بھی وہ ایک طویل عرصے سے امریکا کی جیل میں قید ہیں۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عافیہ صدیقی کا معاملہ صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ پوری امت کا مسئلہ ہے۔ وہ تمام مظلوم افراد جو عالمی طاقتوں کی سیاست اور مفادات کی بھینٹ چڑھ گئے، ان کے حق میں آواز بلند کرنا امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے تاہم اس کے برعکس مسلم قیادت کی خاموشی اور بے عملی امت کے اجتماعی ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ حکومتیں اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی بجائے اس معاملے کو نظرانداز کرتی رہیں، جبکہ عوام کی سطح پر بیداری کے باوجود ٹھوس اقدامات کا فقدان نظر آتا ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ کیا عافیہ کا معاملہ اس قدر معمولی ہے کہ ہم نے اسے بھلا دیا؟ یا ہم اپنی ذاتی اور قومی ترجیحات میں اس قدر الجھ گئے ہیں کہ ہماری اجتماعی سوچ اور اخوت کا جذبہ مفقود ہو چکا ہے؟
آج امت مسلمہ کو ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو اخلاص، قربانی اور حکمت کا عملی نمونہ ہوں۔ وہ رہنما جو اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر امت کے اجتماعی مسائل کو ترجیح دیں اور عالمی سطح پر امت مسلمہ کے حقوق کے لیے جراتمندانہ موقف اپنائیں۔ بدقسمتی سے موجودہ قیادت نے اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کے لیے عافیہ جیسے معاملات کو پس پشت ڈال دیا۔ بین الاقوامی تعلقات اور سیاسی مفادات کے نام پر مظلوموں کی آواز کو دبایا گیا اور ان کی رہائی کے لیے کسی قسم کی مؤثر سفارتی کوششیں نہیں کی گئیں۔ یہ رویہ امت مسلمہ کے لیے باعث شرمندگی ہے اور اس کی اجتماعی غیرت و حمیت کے خلاف ہے۔
امت مسلمہ کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا تاکہ وہ مظلوموں کے حق میں مضبوط آواز اٹھا سکے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ عافیہ صدیقی کا معاملہ عالمی سطح پر امت مسلمہ کے ساتھ ہونے والے مظالم کی علامت ہے۔ ہمیں ان مظالم کے خلاف ایک مربوط اور منظم حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنے اندر یہ شعور بیدار کرنا ہوگا کہ یہ لڑائی صرف ایک فرد کے لیے نہیں بلکہ پوری امت کے وقار اور غیرت کے لیے ہے۔
یہ مسئلہ صرف حکومتی سطح پر نہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی بیداری اور عملی اقدامات کا متقاضی ہے۔ اگر آج ہم نے اپنی ذمہ داری ادا نہ کی تو ہماری آئندہ نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ عافیہ کا معاملہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم نے اپنی ترجیحات کو کہاں کھو دیا ہے۔ اگر آج ہم نے اس ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کی تو کل کوئی اور عافیہ، کوئی اور مظلوم، ہمارے ضمیر پر سوالیہ نشان بن جائے گا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اجتماعی بیداری، یکجہتی، اور اخوت ہی وہ راستے ہیں جو ہمیں دنیا اور آخرت میں کامیابی کی منزل تک پہنچا سکتے ہیں۔ یہ وقت محض باتوں اور جذباتی تقاریر کا نہیں بلکہ عملی اقدامات کا ہے۔ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے منظم کوششیں وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ ہمیں اپنی قیادت کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ اس معاملے پر بین الاقوامی سطح پر آواز بلند کریں اور مظلوموں کے حق میں مؤثر حکمت عملی اختیار کریں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اگر ہم نے آج اپنی اجتماعی غیرت اور حمیت کا مظاہرہ نہ کیا تو کل ہم مزید اندھیروں میں گم ہو جائیں گے۔ ہمیں اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنا ہوگا، اپنی قیادت کو جوابدہ بنانا ہوگا، اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ایک مضبوط، باوقار، اور متحد امت بننے کی طرف لے جائے گا۔