عالمی معاہدات اور اسلام

انسانی معاشرے پر جب ہم غور کرتے ہیں تو یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ انسانی سماج معاہدات کا مجموعہ ہے۔ قدم قدم پر انسان کسی دوسرے انسان کے ساتھ کسی نہ کسی معاہدے میں جڑا ہوا ہے۔

معاہدات تحریری ہوں، یا اجتماعی شعور کے تحت انسانوں کے درمیان معاہدات طے کرنے کی اقدار و اَخلاق ہوں، انسان دونوں ہی کا پابند بنتاہے۔ گھر کے نظام سے لے کر قومی اور بین الاقوامی نظام تک انسانی سماج میںمعاہدات ہوتے ہیں۔ اور معاہدات اس لیے کیے جاتے ہیں کہ مختلف انسانوں کے درمیان پیدا ہونے والے تضادات اور اختلافات کا حل تلاش کیا جائے۔
یوں تو تمام انسانیت ایک ہے۔ وحدتِ انسانیت کا بنیادی نظریہ دین اسلام کی تعلیمات کی اساسیات میں سے ہے۔ علمی اور عقلی طور پر بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ انسانیت 99.9 کے حساب سے یعنی ایک ہزار میں سے 999.9 انسانیت ایک ہے۔ صرف ایک فی ہزار کا اختلاف ہے۔ اس فی ہزار کے اختلاف کے اندر ہی یہ قومیں، نسلیں، تہذیبیں، زبانیں اور ان کے درمیان تنوع پایا جاتا ہے۔ اس ایک فی ہزار اختلاف کے نتیجے میں جو انسانوں میں اختلافات پیدا ہوتے ہیں، ان کو حل کرنے اور ان کو درست خطوط پر آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ جو 999 اس کے اندر اتفاق کی چیزیں ہیں، اس کے مطابق اس کو حل کیا جائے۔ یہ اختلاف زیادہ سے زیادہ رنگ و نسل کا ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ اس رنگ و نسل کے اختلاف کی وجہ بھی قرآن نے بیان کردی کہ ’لِتَعَارَفُوْا‘ کہ یہ جو ہم نے تمھارے قبائل بنائے ہیں، نسلی امتیازات اور خصوصیات پیدا کی ہیں، ان کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ تم ایک دوسرے کا تعارف حاصل کرو۔ کیوںکہ انتظامی نظم و نسق کے لیے افراد کی شناخت کا ہونا ضروری ہے کہ کون آدمی کس منفرد شناخت کے ساتھ، کن خصوصیات کا حامل ہے یا کس خطے میں بس رہا ہے؟ کس قوم اور نسل سے تعلق رکھتا ہے؟ تاکہ اس کے مطابق نظم و نسق درست طریقے سے قائم ہوسکے۔
انتظامی نظم و نسق میں اہم اور بنیادی چیز انسانوں کے درمیان سماجی معاہدات ہیں۔ نظم و نسق اس کے بغیر قائم ہی نہیں ہوسکتا، جب تک کہ کوئی سوشل کنٹیکٹ نہ ہو اور افراد کے درمیان معاملات طے کرنے کا کوئی معاہدہ وجود میں نہ آئے۔ کیوں کہ معاہدات ہی کی بنیاد پر معاملات اور مسائل حل ہوں گے۔ گویا معاہدات کی بنیادی روح یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے اختلافات نمٹیں۔ وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کے حوالے سے کسی بات پر متفق ہوں۔ انسانیت ترقی کرے۔ انسانوں میں عدل، امن، معاشی خوش حالی ہو۔ اسی لیے معاہدات امن کی ضمانت ہوتے ہیں، معاشی ترقی کا باعث بنتے ہیں۔ معاہدات کے نتیجے میں انسانی سوسائٹی میں رحم دلی، تعلقات اور باہمی پیار و محبت استوار ہوتا ہے۔‘‘

معاہدات کی روح؛ اختلافات اور جھگڑے نمٹانا ہے
’’ہماری فقہ کی کتابوں میں دین اسلام کی تعلیمات کا یہ بنیادی اُصول بیان کیا جاتا ہے کہ معاہدہ ایسا ہونا چاہیے کہ جس کے نتیجے میں جھگڑے نمٹیں۔ خاص طور پر خرید و فروخت کے معاملات میں یہ باتیں طے ہوں کہ بیچنے والا کیا چیز بیچ رہا ہے؟ کتنی مقدار میں بیچ رہا ہے؟ اور کس وقت دے گا؟ ابھی یا کچھ وقت ٹھہر کے۔ اس کی مکمل تعیین ضروری ہے اور اس کے بدلے میں جو خرید رہا ہے، وہ کیا چیز دے گا؟ چاندی کے سکے دے گا، سونے کے دے گا، یا بارٹر سسٹم کے تحت اَور کوئی جنس دے گا؟ اس کا بھی تعین ہونا ضروری ہے۔ اگر معاہدہ گول مول ہے، کچھ اتہ پتہ نہیں چل رہا، تو وہ ’’مفضی الیٰ المنازعہ‘‘ یعنی جھگڑے کی طرف لے جانے والا ہے۔ وہ بیع فاسد ہے۔ کیوںکہ معاہدے کا مطلب تو یہ ہے کہ ہر ایک فریق اس اختلاف اور جھگڑے کو ختم کرکے اپنے اپنے حقوق و فرائض کے تحت کام کرے۔
خرید و فروخت میں بھی یہی ہے اور معاہدۂ نکاح کا بھی یہی قانون ہے۔ اسی طرح ایک قومی سطح کے سیاسی اور سماجی معاہدے میں بھی یہ طے کرنا ضروری ہے کہ حکمران کے کیا فرائض ہوں گے اور عوام کے کیا فرائض ہوں گے؟ جو حکومت میں ہیں، جن کے پاس نظم و نسق ہے۔ انھوں نے کون کون سے کام کرنے ہیں؟ اور کون کون سے کام عوام نے کرنے ہیں؟ اجتماعیت کے بنیادی تقاضے کیا ہیں؟ پھر حکومت کا نظم و نسق کس پیٹرن پر چلے گا؟ کیا طریقۂ کار ہوگا؟ انتظامی فیصلے کیسے ہوں گے؟ انتظامات پر عمل درآمد کے پروسیجرز کیا ہوں گے؟ پھر اس کو چیک کرنے کا عدالتی نظام کیا ہوگا؟ جب تک مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ، تینوں شعبے اور اُن کے مکمل قوانین اور ضابطے وجود میں نہ آئیں تو معاہدۂ عمرانی (social contact) نہیں کہلا سکتا۔ پھر اس کے ذیل میں جتنے بھی نیچے تک کے معاہدات ہیں، خرید و فروخت کے ہوں، لین دین کے ہوں، شادی بیاہ کے ہوں، دیگر اُمور سرانجام دینے کے ہوں، قومی ہوں، یا ایک ریاست اور قوم دوسری ریاستوں سے یا اقوام سے جو معاملات طے کرے گی، اس کے قوانین اور ضابطے کیا ہوں گے؟
پھر اقوامِ عالم مل کر بین الاقوامی سطح پر اپنے معاملات، خارجہ تعلقات کس طریقے سے سرانجام دیں گے؟ اس کے لیے بھی قوانین اور ضابطوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان تمام معاہدات کا بنیادی مقصد اور ہدف انسانوں میں وہ جو ایک فی ہزار اختلاف ہے، اس اختلاف کو حل کرکے وحدتِ انسانیت کے تقاضے کے مطابق انسانوں میں امن، عدل، خوش حالی اور ترقی کے لیے راستہ ہموار کرنا ہوتا ہے۔ کتابِ مقدس قرآن حکیم نے انسانی سماج کا اس نقطہ نظر سے تعارف کرایا ہے۔ معاہدات کے حوالے سے پورے قرآن حکیم میں سینکڑوں آیات میں گفتگو کی گئی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَ کَانَ عَہْدُ اللّٰہِ مَسْئُوْلاً‘‘ (الاحزاب: 15) اللہ تعالیٰ کے نام پر کیے گئے معاہدوں کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔