عوام کی بجائے ارکان پارلیمنٹ کیلئے ”ریلیف”

پاکستان میں اس وقت جہاں عوام معاشی مشکلات اور ملک بدترین سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے، وہاں حکومت کی طرف سے ارکان پارلیمنٹ اور اعلی بیوروکریسی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا ”حیران کن” فیصلہ کیا ہے۔ ایک عام شخص بھی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جو عوام کے دکھوں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ایک خبر کے مطابق قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی کی جانب سے ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہ اور مراعات کو وفاقی سیکرٹریوں کے مساوی کرنے کی منظوری دی گئی ہے، جس سے بجا طور پر یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ کیا یہ وقت ایسے فیصلوں کا ہے؟
پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف افراط زر، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور لوگوں کی کم ہوتی قوت خرید کا سنجیدہ اور تشویش ناک معاملہ سامنے ہے، دوسری طرف عوام کی زندگی کا معیار مسلسل گر رہا ہے اور قرضوں اور سود کی صورت میں قومی خزانے پر بوجھ ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں جب ملک و قوم سنجیدہ چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، حکومتی اقدامات سے یہی مترشح ہے کہ وہ عوامی مسائل کی بجائے منتخب نمائندوں اور اپنے ارکان کو ہی فائدہ پہنچانے کی طرف متوجہ ہے۔ حکومت کے اس اقدام سے عوامی حلقوں میں بے چینی، غم و غصہ اور مایوسی کو تقویت مل رہی ہے۔ پاکستان کے عوام، جو مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی عدم استحکام سے دوچار ہیں، اس مشکل وقت میں حکومت کی جانب سے یکطرفہ طور پر ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کو ناپسندیدہ سمجھتے ہیں۔ عوامی سطح پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ایسے وقت جب ملکی معاشی حالت دگرگوں ہے، حکومتی عہدیداروں اور ارکان اسمبلی کی تنخواہیں بڑھانا مفاد پرستی اور ملک و قوم کے حقیقی مسائل سے تغافل اور اغماض کا مظہر ہے۔ اس سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ حکومت اپنے سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے عوام کی مشکلات کو نظر انداز کر رہی ہے۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے، یہاں کے حکومتی اور ریاستی فیصلے اور اقدامات اسلامی تعلیمات اور سیرت رسول کے آئینے میں ہونے چاہئیں۔ سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دور حکومت تمام مسلم حکمرانوں اور حکومتوں کیلئے ایک مثالی نمونہ ہے۔ جب مدینہ اور اس کے اردگرد قحط سالی کی صورتحال پیدا ہوئی، تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے گھی، دودھ اور گوشت جیسی اشیاء سے اپنے آپ کو حتی کہ اپنے اہل خانہ کو بھی محروم رکھا، تاکہ عوام کے ساتھ ان کا دکھ اور درد مشترک ہو۔
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے تھے، آپ نے فرمایا تھا کہ مجھے عوام کے دکھ کا اس وقت تک صحیح اندازہ نہیں ہو سکتا جب تک خود میں بھی انہی حالات سے نہ گزروں جن حالات سے عوام گزر رہے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ طرز حکمرانی آج کے حکومتی نمائندوں کے لئے ایک آئینہ ہے کہ جب تک عوام تکلیف میں ہوں، حکمرانوں کو بھی ان کے ساتھ تکلیف برداشت کرنی چاہیے اور کفایت شعاری کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اسی طرح جب مہنگائی کا مسئلہ آیا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خود بھی عوام کے ساتھ اپنے اخراجات کم کرکے گزارا چلایا اور مہنگائی کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے اپنی رعایا کے ساتھ مساوات کی بنیاد پر زندگی گزارنے کا اصول اپنایا۔ اس کے برعکس ہمارے موجودہ حکومتی نمائندے ان سنگین حالات میں بھی اپنے معاشی فوائد بڑھانے میں مگن ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں دو سو فیصد تک اضافے کی منظوری ایک ایسا اقدام ہے جس کی بہرحال موجودہ حالات میں تائید نہیں کی جاسکتی۔ عوام کو مہنگائی اور معاشی مشکلات سے نکالنے کی بات کرتے ہوئے عوام کی بجائے ارکان پارلیمنٹ اور اعلی افسران کی مراعات بڑھانا قول و عمل کے شدید تضاد کا بھی مظہر ہے۔ عوامی نمائندوں کو ایسے حالات میں مراعات فراہم کرنا جب عوام خود مشکلات سے دوچار ہوں، ایسا عمل ہے جس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت کا اولین فرض عوامی فلاح و بہبود ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ ذمہ داری اور بھی اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ ہمارے لیے پیش نظر اسلامی تعلیمات، سیرت رسول اور سیرت خلفائے راشدین کا عملی نمونہ اور اصول موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک عوام کے مسائل حل نہ ہوں، حکمرانوں کو اپنی ذاتی آسائشوں کو نظر انداز کرنا ہوگا۔ یہ عمل اس لیے بھی ضروری ہے کہ ارکان اسمبلی اور ارکان حکومت خود ذرا مالی تنگی محسوس کریں گے تو انہیں حقیقی معنی میں عوامی مشکلات کا احساس اور اندازہ ہوگا، یکطرفہ طور پر وہ اپنے صوابدیدی اختیارات کے ذریعے اپنی مراعات میں اضافوں کے فیصلوں پر مہر تائید ثبت کرتے رہیں گے تو انہیں عوامی مسائل و مشکلات کا درست اندازہ ہوگا اور نہ ہی وہ ملک کو معاشی بحرانوں سے نکالنے کی تدبیر کی طرف یکسوئی اور خلوص سے مائل ہوں گے۔ اس وقت پاکستان کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو عوام کے دکھوں کو سمجھے اور ان کے مسائل کا حل نکالے۔ حکومت عوام کی بجائے ارکان پارلیمنٹ کو غیر ضروری طور پر نوازنے کے اس اقدام پر نظر ثانی کرے اور حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ارکان پارلیمنٹ اور وفاقی سیکرٹریز کو بھی کفایت شعاری کی راہ اپنانے کی ترغیب دے۔ موجودہ حالات میں ایسے اقدامات شاہانہ اسراف کے ہی زمرے میں آتے ہیں، جس کا قومی خزانہ کسی صورت متحمل نہیں ہے۔
دنیا اسرائیل کو امن معاہدے کا پابند بنائے
اسرائیل کی جانب سے حماس پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات نے خطے کی نازک صورت حال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ غزہ کی پٹی کے شمال میں ہزاروں بے گھر فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے سے روکنے کا عمل بدترین عہد شکنی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے معاہدے کے برخلاف غزہ کی مرکزی سڑک بند کرنا اور طے شدہ معاہدے کے مطابق قیدیوں کی رہائی روکنا بلاجواز ہے۔ یہ اقدام نہ صرف جنگ بندی معاہدے کے مقصد کو نقصان پہنچا سکتا ہے بلکہ فلسطینی عوام کی مشکلات میں بھی اضافہ کا باعث ہوگا۔ بین الاقوامی برادری کو اس معاملے میں فوری مداخلت کرنی چاہیے تاکہ جنگ بندی معاہدے کی شرائط پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ، امریکا اور مصر و قطر سمیت پوری عالمی برادری کو اپنا فرض ادا کرتے ہوئے جنگ بندی اور امن معاہدے کو ہر صورت بچانے اور غزہ میں مستقل قیام امن کیلئے کھل کر سامنے آنا چاہیے۔ بے گھر افراد کی اپنے گھروں کو واپسی اور معاہدے کے تحت اسرائیلی قید سے فلسطینیوں کی رہائی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا کھلی بدمعاشی ہے۔ دنیا اسرائیل کو معاہدے کا پابند بنائے۔