نیشنل ایکشن پلان اور دہشت گردی(محمد عبداللہ حمید گل)

پاکستان 2001 سے دہشت گردی کا شکارہے۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کے نتیجے میں 70ہزار سے زائد پاکستانی جان سے گئے جبکہ 130ارب ڈالر سے زائد کا اقتصادی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ تاہم 16دسمبر 2014 کو جب دہشت گردوں نے پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا تو عسکری و سیاسی قیادت اور قوم دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے یکجا ہو گئے اور اس مقصد کے لیے 20نکاتی نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا۔ 2021میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان کی سکیورٹی کا منظرنامہ نمایاں طور پر بدل گیا جس کے پیشِ نظر ایک نظرثانی شدہ 14نکاتی نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا جس نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک تفصیلی فریم ورک فراہم کیا۔ آج کے کالم میں اس نیشنل ایکشن پلان کے تمام 14نکات اور 2021سے اب تک ان کی پیش رفت کاجائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کا پہلا نکتہ عسکریت پسندی کا مکمل خاتمہ ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے قومی اپیکس کمیٹی نے جون 2024میں آپریشن عزمِ استحکام کی منظوری دی جس کا بجٹ 60ارب روپے مختص کیا گیا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں جولائی 2024تک دہشت گرد حملوں میں 62فیصد کمی آئی تاہم اگست سے اکتوبر تک یہ صورتحال کافی غیر مستحکم رہی۔ دہشت گردی کو دوبارہ سر اٹھانے سے روکنے کیلئے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کا دوسرا نکتہ میڈیا اور سائبر نیٹ ورکس کے ذریعے دہشت گردی کے پھیلاؤ کے خلاف کارروائی سے متعلق ہے جس میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے ساتھ قریبی تعاون شامل ہے۔ پی ٹی اے ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایسے مواد کی نگرانی کرتا ہے جو دہشت گردی تشدد اور نفرت انگیز تقریر کو ہوا دیتے ہیں۔ 2023 تک تقریباً 13لاکھ ایسے یو آر ایل بلاک کیے گئے۔ نیشنل ایکشن پلان کا تیسرا نکتہ مذہبی/ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات پر زور دیتا ہے۔ اکتوبر 2024تک پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے18 واقعات رپورٹ ہوئے 2023میں یہ تعداد 12تھی۔ نیشنل ایکشن پلان میں فرقہ وارانہ عسکریت پسند گروپوں کو ختم کرنے پر زور دیا گیا تاہم 2021سے 2023کے درمیان ایسے کسی گروپ پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ تاہم تین گروپوں زینبیون بریگیڈ حافظ گل بہادر گروپ اور مجید بریگیڈ کو 2024میں نیکٹا کی کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان کا چوتھا نکتہ دہشت گردی کی مالی معاونت اور کالعدم تنظیموں پر پابندی کے حوالے سے ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت پاکستان نے نیشنل ٹاسک فورس بنائی۔ اس ٹاسک فورس کی بہتر کارکردگی کی بدولت ہی اکتوبر 2022میں پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوا۔ اس ٹاسک فورس کی کارروائیوں کی وجہ سے انسدادِ دہشت گردی کے فورتھ شیڈول میں شامل افراد کی تعداد جو 2021میں 2646 تھی 2024تک بڑھ کر 8374 ہو چکی ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے 2024میں تقریباً 5089ایسے اکاونٹس بلاک کیے جو مشکوک سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ ان اکاونٹس میں 157ملین روپے منجمد کیے گئے۔ نیشنل ایکشن پلان کا پانچواں نکتہ منشیات ہتھیاروں اور انسانی سمگلنگ کے بڑھتے ہوئے رجحانات کی روک تھام ہے۔ وزارتِ انسدادِ منشیات کے مطابق 2021میں 530 افراد اور 2023میں 627افراد کو منشیات فروشی کے جرم میں سزا دی گئی۔ اسی طرح 2021میں اسمگلنگ کے 992کیسز جبکہ 2023میں 1936کیسز کی تفتیش کی گئی۔ نیشنل ایکشن پلان کا چھٹا نکتہ عدالتوں میں انسدادِ دہشت گردی کے مقدمات کو حتمی انجام تک پہنچانا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان نے دہشت گردی سے متعلقہ مقدمات کی کارروائی کو تیز کرنے کے لیے خصوصی ٹرائل کورٹس کے قیام میں سہولت فراہم کی تاہم سزائے موت اور پھانسیوں کی کل تعداد میں کمی دیکھی گئی۔ 2019اور 2022کے درمیان 657افراد کو موت کی سزا سنائی گئی۔ نومبر 2024تک پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کے 2273 مقدمات زیر التوا تھے۔ نیشنل ایکشن پلان کا ساتواں نکتہ انسدادِ دہشت گردی کے محکموں کو مستحکم و مضبوط کرنے سے متعلق ہے۔ نیشنل ایکشن پلان نے انٹیلی جنس جمع کرنے اور نگرانی کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور آلات کے حصول کے لیے متعلقہ محکموں کو امداد فراہم کی۔ ہر صوبے میں محکمہ انسدادِ دہشت گردی متعلقہ صوبائی پولیس افسر کے ماتحت کام کرتا ہے۔ فنڈنگ میں اضافے سے اس محکمے کی آپریشنل صلاحیتوں میں کافی بہتری آئی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کا آٹھواں نکتہCVE پالیسی کی تشکیل ادارہ سازی اور نفاذ سے متعلق ہے۔ CVE پالیسی بنیادی طور پر عوام کو انتہا پسندانہ نظریات کے خلاف معلومات فراہم کرتی ہے اور ریاست پر عوام کے اعتماد کو بحال کرتی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کا نواں نکتہ مدارس کی ریگولیشن اور رجسٹریشن سے متعلق ہے۔ اتحاد تنظیمات المدارس پاکستان کے تحت 2023 تک تقریباً 30 ہزار مدارس رجسٹرڈ ہوئے تھے۔ بعد ازاں نیشنل ایکشن پلان میں مدارس کو محکمہ تعلیم میں رجسٹر کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی۔ نیشنل ایکشن پلان کا دسواں نکتہ بلوچستان میں مفاہمتی عمل سے متعلق ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کی اس شق کے تحت بلوچستان حکومت نے ‘پرامن بلوچستان قومی مفاہمتی پالیسی کا اعلان کیا۔ اس کے بعد سے 3500 سے زیادہ عسکریت پسند ہتھیار ڈال کر ملک کے مرکزی دھارے میں شامل ہو چکے ہیں۔ بلوچوں کے خدشات کو موثر طریقے سے حل کرنے اور تشدد پر قابو پانے کے لیے 2021 میں بلوچستان کے لیے 600 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا علان کیا گیا تھا۔
نیشنل ایکشن پلان کا گیارہواں نکتہ خیبر پختونخوا کے ضم شدہ علاقوں میں نیشنل فنانس کمیشن (NFC) لینڈ ریفارمز اور مقامی حکومتوں کے انتخابات سے متعلق ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کی اس شق کے تحت ان علاقوں میں وسائل کی منصفانہ تقسیم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار میں اضافہ اور نئے پولیس سٹیشنوں کے قیام میں قابلِ ذکر سرمایہ کاری ہوئی۔ نیشنل ایکشن پلان کا بارہواں نکتہ کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات سے متعلق ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران عدالتوں میں زیر التوا کیسوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہو چکا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جبکہ قیدیوں کی نگرانی پر مامور عملے کی تعداد کم ہے۔ اس حوالے سے اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کا تیرہواں نکتہ قومی سلامتی اور انٹیلی جنس کارروائیوں کیلئے قانونی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کا مطالبہ ہے۔ پاکستان میں نافذ کردہ آفیشل سیکرٹس ایکٹ 1923 جاسوسی سے متعلق جرائم کی وضاحت کرتا ہے تاہم قومی سلامتی کی حفاظت کرتے ہوئے جاسوسی کی تعریفوں اور سزاوں کو مزید واضح کیا جانا چاہیے۔ نیشنل ایکشن پلان کا چودہواں نکتہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی ہے جس کے نتیجے میں افغان مہاجرین کی رجسٹریشن اور دستاویزات کو یقینی بنانے کی کوششیں شروع ہوئیں۔
بلاشبہ نیشنل ایکشن پلان دہشت گردی کے خلاف روڈ میپ ہے۔ اس نظرثانی شدہ ایکشن پلان کے نکات کو بیان کرنے کا مطمح نظر یہی ہے کہ شہریوں کو اس حوالے سے آگاہی ہو اور وہ ملی وقومی جذبے کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی تائید میں حکومتی و عسکری قیادت کے ساتھ مل کر اپنا فعال کردار ادا کر یں۔