دوہرے حکومتی معیار(رفیع صحرائی)

لیجیے صاحب! ابھی پنجاب حکومت کی طرف سے مراعات یافتہ طبقے یعنی ارکان اسمبلی، وزراء اور مشیران پر نوازشات کی بازگشت ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ قومی اسمبلی نے اپنے ارکان اور سینیٹرز کے لیے بادشاہی مراعاتی بل منظور کر لیا ہے جس کے تحت ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں دو سو فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق فنانس کمیٹی نے ایم این ایز اور سینیٹرز کی تنخواہ و مراعات میں اضافے کی منظوری دے دی ہے۔ اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے یہ منظوری متفقہ طور پر دی جس کے تحت ایم این اے اور سینیٹر کی تنخواہ 5لاکھ 19ہزار روپے ہو گی۔ حتمی منظوری جناب وزیرِ اعظم دیں گے۔ تنخواہوں اور مراعات کے معاملے پر پیپلز پارٹی، ن لیگ سمیت دیگر جماعتیں ہم آواز ہیں۔ پی ٹی آئی کے 67ارکان نے بھی تنخواہوں میں اضافے کا تحریر مطالبہ کیا تھا۔ یعنی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے سبھی ایک صفحے پر ہیں۔ پارلیمانی ذرائع کا کہنا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ نے تنخواہ 10لاکھ روپے ماہانہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اسپیکر ایاز صادق نے یہ تجویز مسترد کر دی۔ قبل ازیں پنجاب اسمبلی اپنے ارکان کی تنخواہ میں 800فیصد تک اضافہ کر چکی ہے۔
ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں یہ اضافہ ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب محترم وزیرِ اعظم قوم کو یہ خوشخبری سنا چکے ہیں کہ مہنگائی گزشتہ سات سال کی کمترین سطح پر آ چکی ہے۔ اگر ان کے دعوے کو سچ مان لیا جائے تو ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہ میں اس ہوش ربا اضافے کا جواز سمجھ میں نہیں آتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دوسری طرف حکومت اپنے ہی سرکاری ملازمین کو پہلے سے حاصل مراعات کو کم یا ختم کر رہی ہے۔ ان کی گریجویٹی اور پنشن پر کٹ لگا دیا گیا ہے۔ پنشنرز کو سرکاری خزانے پر بوجھ قرار دے کر پنشن اصلاحات کے نام پر حکومت نے پنشن میں کمی کرنے کی پالیسی بھی جاری کر دی ہے۔ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سرکار کو دینے والوں کے لیے خزانہ خالی ہے جبکہ سیاست دانوں کے لیے خزانے کے منہ کھول دیئے گئے ہیں۔ یہ دوہرا معیار انصاف پر مبنی نہیں ہے۔ سرکاری ملازمین اور پنشنرز سے ان کا حق چھین کر مراعات یافتہ طبقے کو مزید نوازنا قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا۔
ایک بادشاہ جب دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے نکلا تو اس کا گزر افریقہ کی ایک ایسی بستی سے ہوا جو دنیا کے ہنگاموں سے دور اور بڑی پرسکون تھی۔ یہاں کے باشندوں نے جنگ کا نام تک نہ سنا تھا. وہ فاتح مفتوح کے معنی سے ناآشنا تھے’ بستی کے باشندے بادشاہ اعظم کو مہمان کی طرح ساتھ لے کر اپنے سردار کی جھونپڑی میں پہنچے۔ سردار نے اس کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا اور پھلوں سے بادشاہ کی تواضع کی۔ کچھ دیر میں دو قبائلی فریق مدعی اور مدعا الیہ کی حیثیت سے اندر داخل ہوئے۔ سردار کی یہ جھونپڑی عدالت کا کام بھی دیتی تھی۔ مدعی نے کہا:”میں نے اس شخص سے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا تھا۔ ہل چلانے کے دوران اس میں سے خزانہ برآمد ہوا میں نے یہ خزانہ اس شخص کو دینا چاہا لیکن یہ نہیں لیتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ خزانہ میرا نہیں ہے کیوں کہ میں نے اس سے صرف زمین خریدی تھی۔ اور اسے صرف زمین کی قیمت ادا کی تھی، خزانے کی نہیں”… مدعا الیہ نے جواب میں کہا:”میرا ضمیر ابھی زندہ ہے۔ میں یہ خزانہ اس سے کس طرح لے سکتا ہوں۔ میں نے تو اس کے ہاتھ زمین فروخت کردی تھی۔ اب اس میں سے جو کچھ بھی برآمد ہو یہ اس کی قسمت ہے اور یہی اس کا مالک ہے۔ میرا اب اس زمین اور اس میں موجود اشیاء سے کوئی تعلق نہیں ہے۔”… سردار نے غور کرنے کے بعد مدعی سے دریافت کیا: ”تمہارا کوئی لڑکا ہے؟” … ”ہاں ہے!”… پھر مدعا الیہ سے پوچھا: ”اور تمہاری کوئی لڑکی بھی ہے؟”…”جی ہاں….” مدعا الیہ نے بھی اثبات میں گردن ہلا دی… ”تو تم ان دونوں کی شادی کرکے یہ خزانہ ان کے حوالے کردو۔ ”اس فیصلے نے بادشاہ کو حیران کردیا۔ وہ فکر مند ہوکر کچھ سوچنے لگا۔ سردار نے متردد بادشاہ سے دریافت کیا۔ ”کیوں کیا میرے فیصلے سے آپ مطمئن نہیں ہیں؟” ”نہیں ایسی بات نہیں ہے۔” بادشاہ نے جواب دیا۔ ”لیکن تمہارا فیصلہ ہمارے نزدیک حیران کن ضرور ہے۔” سردار نے سوال کیا۔ ”اگر یہ مقدمہ آپ کے رو برو پیش ہوتا تو آپ کیا فیصلہ سناتے؟” بادشاہ نے اپنے ذہن میں موجود سوچ کے مطابق فوراً جواب دیا کہ ”ہم فریقین کو حراست میں لے لیتے اور خزانہ حکومت کی ملکیت قرار دے کر شاہی خزانے میں داخل کردیا جاتا۔”
”بادشاہ کی ملکیت!” سردار نے حیرت سے پوچھا۔ ”کیا آپ کے ملک میں سورج دکھائی دیتا ہے؟”
”جی ہاں کیوں نہیں؟”…”وہاں بارش بھی ہوتی ہے…” ”بالکل!”
”بہت خوب!” سردار حیران تھا۔ ”لیکن ایک بات اور بتائیں کیا آپ کے ہاں جانور بھی پائے جاتے ہیں جو گھاس اور چارہ کھاتے ہیں؟”…”ہاں ایسے بے شمار جانور ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔”
”اوہ خوب’ میں اب سمجھا۔” سردار نے یوں گردن ہلائی جیسے کوئی مشکل ترین بات اس کی سمجھ میں آگئی ہو۔ ”تو اس ناانصافی کی سرزمین میں شاید ان ہی جانوروں کے طفیل سورج روشنی دے رہا ہے اور بارش کھیتوں کو سیراب کررہی ہے”۔