طاقت کے استعمال کی اسرائیلی پالیسی کی ناکامی

غزہ میں معاہدے کے باوجود اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی جاری ہے۔ مغربی کنارے میں فائرنگ سے 14فلسطینی شہید جبکہ 5زخمی ہوگئے۔اسرائیلی حملوں سے جنین کیمپ تباہ ہوگیا، جنین میں جبری انخلا کے بعد ہزاروں فلسطینی بے گھر ہوگئے، درجنوں نئی چوکیاں قائم کردی گئیں، صہیونی فورسز نے مغربی کنارے میں کئی گھروں کو آگ لگا دی۔اسرائیلی فورسز نے جنین کے جنوب میں واقع گاؤں فحمہ پر دھاوا بول دیا اورمقامی ذرائع کے مطابق شہریوں پر زہریلی آنسو گیس پھینکی جس سے پرتشدد تصادم شروع ہو گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ کیمپ میں دو بڑے دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں اور اسرائیلی فورسز نے مزید فوجی کمک اور بلڈوزر اس کے مضافات میں دھکیل دیے۔ اسرائیل نے سینکڑوں فلسطینی خاندانوں کو کیمپ چھوڑنے پر بھی مجبور کردیا اور شہریوں کو سخت معائنہ کے طریقہ کار کا نشانہ بنایا۔ اسرائیلی فوج نے 11 افراد کو گرفتار کر لیا اور اس کے بلڈوزر نے انفراسٹرکچر اور سرکاری ہسپتال کے داخلی راستے کو تباہ کردیا۔ صہیونی فوج نے شہر کے ہسپتالوں کا بھی محاصرہ کر رکھا ہے۔
قابض و ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل پندرہ مہینوں تک غزہ پر آہن و آتش کی بارش برسانے کے باوجوداپنے مقاصد حاصل کرنے میں خائب و خاسر رہا اور فلسطینیوں کا عزم اور حوصلہ توڑنے میں ناکام ہوا اور اسے بالآخر مذاکرات کے نتیجے میں ہی جنگ بندی اور قیدیوں کا تبادلہ کرنا پڑا تو اب نیتن یاہو کی حکومت اپنی خفت مٹانے کے لیے کھسیانی بلی بن کر کھمبا نوچنے کی کوشش کر رہی ہے اور مغربی کنارے میں ظلم و دہشت گردی کا کھیل کھیل رہی ہے مگر دنیا کو اندازہ ہوگیا ہے کہ اسرائیل ان ہتھکنڈوں کے ذریعے محض دھول اڑانا اور اپنی شکست پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے۔ دنیا بھر کے حقیقت پسند حلقے اب یہ کہنے لگے ہیں کہ طاقت کے ذریعے امن قائم کرنے کی اسرائیل کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے اور فلسطینیوں پر مظالم ڈھاکر ان کی آواز کو دبانے کی صہیونی سوچ آیندہ کے لیے بھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتی۔
حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں فلسطینی مسلمانوں کی بے مثال مقاومت اور بے شمار قربانیوں نے نہ صرف یہ کہ اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے جھوٹے تاثر کو پاش پاش کرکے رکھ دیا ہے بلکہ اگر دیکھا جائے تو مشرق وسطی کے مستقبل کا نقشہ بھی ایک طرح سے تبدیل کردیا ہے۔اسرائیل کو طاقت کے وحشیانہ استعمال اور دسیوں ہزار بچوں اور خواتین کا خون بہانے اور غزہ کی عمارات کو ملیامیٹ کرنے کرکے مزید بدنامی مول لینے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا،آج دنیا قیدیوں کے تبادلے کے باوقار مناظر براہ راست دیکھ رہی ہے اور اس کے سامنے یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ فلسطینی مسلمان ناقابل تصور مظالم سہنے اور بے پناہ قربانیاں دینے کے باوجود اپنی سرزمین پر سر اٹھاکر چل رہے ہیں، اپنے حریت پسند مجاہد بیٹوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان پر فخر کر رہے ہیں اور آیندہ کے لیے بھی مقاومت جاری رکھنے کے عزائم کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم سے لے کر فوجی قیادت تک سب کے چہرے اترے ہوئے ہیں، کئی استعفے دیے جاچکے ہیں اور مزید استعفوں کے مطالبات کیے جارہے ہیں۔
ان حالات میں نیتن یاہو حکومت کی جانب سے مغربی کنارے میں ریاستی دہشت گردی کے آغاز کو خود صہیونی ریاست سے تعلق رکھنے والے مبصرین اپنی سیاست اور حکومت بچانے کی کوشش سے تعبیر کر رہے ہیں۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اگلے چند ہفتوں کے اندر اسرائیل کی سیاست میں ایک زبردست بھونچال آنے کا امکان واضح ہے کیونکہ نیتن یاہو کے پاس اب کچھ زیادہ آپشن باقی نہیں رہے۔ اگر وہ جنگ بندی معاہدے پر قائم رہتے ہیں تو اس کے اتحادیوں نے حکومت چھوڑنے کی دھمکی دے رکھی ہے اور اگر وہ دوبارہ جنگ میں کودنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو انہیں اب شاید امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ کی حمایت نہ مل سکے کیونکہ ٹرمپ کو اس وقت امریکی معیشت کو ٹھیک کرنے اور مہنگائی ختم کرنے کا چیلنج درپیش ہے جس سے نمٹنے کا وعدہ کرکے وہ اقتدار میں آئے ہیں۔ صہیونی لابی یقینا ٹرمپ کو جنگ میں ملوث کرنے کی کوشش کرے گی اور ٹرمپ کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا ویسے بھی بہت مشکل ہے لیکن حالات کا نقشہ بتارہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ طاقت کی بجائے سفارتی کوششوں کے ذریعے اپنے مزعومہ” ابراہیمی معاہدے” کی تکمیل کی کوشش کریں گے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ کشیدگی کے ماحول میں ان کے لیے اپنے منصوبے پر کام کرنا آسان نہیں ہوگا۔ ٹرمپ کا یہ خیالی منصوبہ کس حد تک کامیاب ہوگا؟ اس پر کچھ کہنا قابل از وقت ہوگا تاہم اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اسرائیل کے جنگی عزائم کو ایک طویل عرصے تک لگام ڈالی جائے گی۔ ہمیںاس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ امریکا جس طرح افغانستان کے عوام پر اپنی مرضی کا حل مسلط کرنے میں ناکام ہوا اور اسے صدر ٹرمپ کے گزشتہ دور میں طالبان کے ساتھ معاہدہ کرکے ہی وہاں سے نکلنا پڑا، اسی طرح فلسطینی عوام پر بھی اپنی مرضی کا حل مسلط کرنے کی کوئی کوشش بھی کامیاب نہیں ہوگی اور عسکری محاذ کی طرح مذاکرات کی میز پر بھی امریکا اور اسرائیل کو فلسطینیوں کا اصولی موقف ماننا ہی پڑے گا۔
گوادر سے بین الاقوامی پروازوں کا خوش آیند آغاز
نیو گوادر انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے بین الاقوامی فلائٹ آپریشن کا بھی آغاز ہو گیا۔ نیو گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے قومی ائیر لائن کی پہلی پرواز پی کے 197 جمعہ کی صبح 9:41بجے مسقط کیلئے روانہ ہوئی۔ یاد رہے کہ نیو گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے فلائٹ آپریشن کا آغاز 20جنوری کو ہوا تھا۔ گوادر ائیرپورٹ کے لیے فی الحال قومی ائیر لائن کی پروازیں ہی چلائی جا رہی ہیں، اس ائیرپورٹ پر ائیر بس اور بوئنگ طیارے بھی لینڈ کر سکتے ہیں لیکن ائیر لائن ذرائع کے مطابق اس روٹ پر فی الحال مسافر کم ہونے کی وجہ سے قومی ائیر لائن گوادر کیلئے اے ٹی آر طیارہ استعمال کر رہی ہے۔ گوادر کے ہوائی اڈے سے بین الاقوامی پروازوں کا آغاز پوری پاکستانی قوم کے لیے ایک بڑی خوش خبری ہے، وہ خوش خبری جس کا ایک طویل عرصے سے انتظار کیا جارہا تھا ۔ توقع رکھی جانی چاہیے کہ اس پیش رفت کے ساتھ ہی گوادر پورٹ کے ذریعے پوری دنیا سے وسیع تجارت کا ایک نیا باب شروع ہو جائے گا جو ان شاء اللہ پاکستان کی ترقی و استحکام کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔