خلافت علیٰ منہاج النبوة (مفتی منیب الرحمن)

قرآنِ کریم کی رو سے انسان زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے’ یہ خلافتِ ارضی سب سے پہلے آدم علیہ السلام کو ملی اور اس کے بعد وراثت کے طور پر یہ آپ کی اولاد میں منتقل ہوتی رہی۔ قرآنِ کریم نے ‘خلافتِ ارضی’ کے فرائض ان کلمات میں بیان فرمائے ہیں: ”ان لوگوں کو اگر ہم زمین میں اقتدار عطا فرمائیں تو (ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ) وہ نماز قائم کریں’ زکوٰة ادا کریں’ نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔” (الحج: 41) یعنی صاحبِ اقتدار کی ذمہ داری نظامِ عبادات ونظامِ معیشت کا قیام اور انفرادی واجتماعی زندگی میں نیکیوں کا چلن اور برائیوں کا سدِّباب کرنا ہے۔ نیز فرمایا: ”ہاں! تم وہی لوگ ہو جن کو یہ دعوت دی جاتی ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو’ پس تم میں سے بعض بخل کرتے ہیں اور جو بخل کرتا ہے تو اس کا وبال اسی کی ذات پر آتا ہے اور اللہ غنی ہے اور تم سب اس کے محتاج ہو اور اگر تم نے (ان ذمہ داریوں سے) روگردانی کی تو اللہ تمہاری جگہ دوسری قوم کو لے کر آئے گا’ پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے۔” (محمد: 38)۔ پھر یہ بھی بتا دیا کہ اقتدار کسی کی دائمی میراث نہیں ہے’ فرمایا: ”اور (عروج و زوال وفتح وشکست کے) ان ایام کو ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔” (آل عمران: 140)۔
خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں’ جو کسی کی جگہ لے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے: ”بنی اسرائیل کے نظمِ اجتماعی کی تدبیر انبیائے کرام انجام دیتے تھے’ جب ایک نبی کا وصال ہو جاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتا’ اب یقینا میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا’ بس خلفاء ہوں گے۔” (بخاری: 3455) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصالِ مبارک کے بعد خلفائے راشدین نے جو طرزِ حکومت قائم کیا’ اسے ہم ‘خلافت علیٰ منہاج النّبوة’ سے تعبیر کرتے ہیں’ یعنی مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کو شعارِ نبوت پر قائم رکھنا اور چلانا۔ اوپر الحج: 41 کا حوالہ آ چکا ہے’ اقامتِ صلوٰة اور ایتائِ زکوٰة سے مراد اسلام کے نظامِ عبادات کو اجتماعی نظم کا حصہ بنانا ہے اور امر بالمعروف اور نھی عن المنکر ایسے دو جامع کلمات ہیں کہ انسان کی پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی پر محیط ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں: مذہب ذاتی معاملہ ہے’ ریاست اور افراد کو کسی کے مذہب سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہیے۔ سوچ کا یہ انداز قرآنِ کریم کے تصورِ خلافت کے برعکس ہے۔ قرآن وحدیث میں امر بالمعروف اور نھی عن المنکَر کو امت کی اجتماعی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ قرآنِ کریم کی متعدد آیات اس پر شاہد ہیں۔ نیز احادیثِ مبارکہ میں اس شعار کو بھی قابلِ مواخذہ قرار دیا ہے کہ کوئی شخص خود تو صالح بنا رہے’ ذکر وفکر میں مشغول رہے’ عبادات میں مگن رہے’ مگر معاشرے کی اصلاح سے لاتعلق ہو جائے۔ حدیث پاک میں ہے: ”رسول اللہۖ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جبریل علیہ السلام کو حکم فرماتا ہے: اے جبرائیل! فلاں بستی کو اس کے باسیوں سمیت الٹ دو’ جبریلِ امین (بارگاہِ الٰہی میں) عرض کرتے ہیں: اے پروردگار! اس بستی میں تیرا فلاں بندہ بھی ہے’ جس نے کبھی پلک جھپکنے کی مقدار بھی تیری نافرمانی نہیں کی (اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟)’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اس سمیت اس بستی کو الٹ دو’ کیونکہ میری شرعی حدود کو پامال ہوتا ہوا دیکھ کروہ کبھی غضبناک نہیں ہوا اور وہ لاتعلق بنا رہا۔” (شعَب الِایمان: 7189)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو’ جب تم ہدایت پر ہو تو کوئی گمراہ ہونے والا تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔” (المائدہ: 105)۔ اس آیہ مبارکہ سے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ بندے کودوسروں سے لاتعلق ہوکر اپنی اصلاح کی فکر میں مگن رہنا چاہیے۔ ترمذی کی حدیث: 3058 کا خلاصہ ہے: ”حضرت ابوثعلبہ خشَنِی نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ سے دریافت کیا کہ کیا بندے کو ایسا ہی کرنا چاہیے’ آپ نے فرمایا: نہیں! بلکہ تم نیکی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو’ ہاں! اگر ایسا دور آ جائے کہ دعوتِ دین مشکل ہو جائے اور تم دیکھو کہ بخیل کی اطاعت کی جا رہی ہے’ خواہشات کی پیروی کی جا رہی ہے’ دنیا کو آخرت پر ترجیح دی جا رہی ہے’ ہر شخص (حق وباطل کی تمیز کے بغیر) اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھتا ہے تو ایسے حالات میں اپنی فکر کرو اور عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دو’ کیونکہ ایسے حال میں شریعت پر چلنا آگ کے کھولتے ہوئے انگارے کو مٹھی میں لینے کی مانند ہوگا’ ایسے مشکل حالات میں جو دین پر قائم رہے گا’ اسے صحابہ کرام کے پچاس افراد کے برابر اجر ملے گا”۔ یعنی جو مشکل ترین حالات میں استقامت کے ساتھ دین پر چلے گا’ اس کا اجر بھی بے حساب ہوگا۔
رسول اللہ کے پہلے خلیفہ راشد نے اپنے اوّلین خطبہ خلافت میں خلافت علیٰ منہاج النّبوّة کے اصول وضع کر دیے تھے۔ آپ نے حمد وصلوٰة کے بعد فرمایا: ”لوگو! میں تم پر حاکم مقرر کیا گیا ہوں’ حالانکہ میں تم لوگوں میں سب سے افضل (ہونے کا مدعی) نہیں ہوں’ اگر میں ٹھیک ٹھیک کام کروں تو تم میری اعانت کرو اور اگر (بالفرض) میں راہِ راست سے ہٹ جائوں تو تم مجھے سیدھا کر دو’ سچائی امانت اور جھوٹ خیانت ہے۔ تم میں سے جو کمزور ہے’ وہ میرے نزدیک طاقتور ہے تاوقتیکہ میں ظالم سے اس کا حق لے کر اس کو لوٹا دوں’ ان شاء اللہ تعالیٰ’ اور تم میں جو طاقتور ہے’ وہ میرے نزدیک کمزور ہے تاوقتیکہ میں اس سے (مظلوم کا) حق واپس لے لوں’ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ جو قوم جہاد فی سبیل اللہ کو چھوڑ دیتی ہے’ اللہ تعالیٰ اس پر ذلت وخواری مسلّط فرما دیتا ہے اور جس قوم میں بے حیائی وبدکاری کی وبا پھیل جاتی ہے’ اللہ تعالیٰ اس پر مصیبتیں نازل فرما تا ہے” ( تاریخ الخلفائ’ ج: 1′ ص: 157)
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرمۖ کی اطاعت کو مطلَق اور غیر مشروط قرار دیا ہے’ یعنی جب یہ علم ہو جائے کہ یہ اللہ تعالیٰ یا اس کے رسولِ مکرم کا حکم ہے’ تو اس کی دلیل نہیں طلب کی جائے گی’ بلکہ بلاچون وچرا اس کی تعمیل لازم ہو گی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اے مومنو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اللہ کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے صاحبانِ اقتدار ہیں’ پس اگر تم میں اور صاحبانِ اقتدار میں کسی بات کے (حق یا ناحق ہونے) کے بارے میں اختلاف ہو جائے’ تو معاملہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔” (النسآئ: 59) اس آیہ مبارکہ میں یہ واضح فرما دیا گیا کہ ہر دور کے اہلِ اقتدار کی اطاعت مطلَق اور غیر مشروط نہیں ہے’ بلکہ وہ اسی وقت واجب الاتباع ہے جب وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم کے احکام کے تابع ہو’ یعنی حاکمِ وقت سے کسی بات کے حق یا ناحق ہونے کے بارے میں اختلاف کیا جا سکتا ہے اور کسی حکم کی حتمی حیثیت طے ہونے کے لیے اسے قرآن وسنّت پر پیش کیا جائے گا اور قرآن وسنّت کا فیصلہ حرفِ آخر ہوگا۔
حدیثِ پاک میں ہے: کسی ایسی بات میں مخلوق کی اطاعت لازم نہیں ہے’ جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی لازم آتی ہو” (مسند احمد: 1095)۔ نیز قرآنِ کریم نے یہ بھی طے فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرّم کی اطاعت میں دوئی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ارشاد ہوا: جس نے رسول کی اطاعت کی’ اس نے (درحقیقت) اللہ کی اطاعت کی۔ (النسآئ: 80) مزید فرمایا: اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی’ تو اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔ (الاحزاب: 71)۔ اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے: رسول اللہ نے فرمایا: کوئی بعید نہیں کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں’ کسی نے پوچھا: (یا رسول اللہ!) کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے’ آپ نے فرمایا: نہیں’ بلکہ تم اس وقت تعداد میں زیادہ ہو گے’ لیکن (کم ہمتی کے سبب) تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہو گے’ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے دلوں سے تمہارا خوف نکال دے گا’ اور تمہارے دلوں میں وَہن ڈال دے گا’ کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! وہن کیا چیز ہے’ آپ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت کا خوف۔” (ابوداود: 4297)