ہزاروں سال پہلے بھی حکمرانی کا معیار یہ تھا کہ مالی اور اخلاقی طور پر حکمران کو ایمان دار اور رعایا سے بہتر انسان ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے جب رومن جنرل سیزر کی بیوی پر ایک مقدمہ بنا تو اس کے ٹرائل کا یہ مشہور جملہ آج بھی دہرایا جاتا ہے کہ ”سیزر کی اہلیہ کو شک سے بالا ہونا چاہیے۔” ( بادشاہ سے جڑے لوگوں کے بارے میں تھوڑی سی بدگمانی بھی نہیں ہونی چاہیے۔) حکمران کو تو اس سے بھی زیادہ محتاط ہونا چاہیے تاکہ عوامی اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچے۔ حکمرانی کی خواہش ایک بہت بڑا امتحان ہے۔ انسان کا سب سے بڑی دشمن اس کی خواہشات ہیں۔ حاکم بننے کی خواہش تخت بھی دیتی ہے اور تختہ بھی مقدر بن سکتا ہے۔ حکمران ہمیشہ اپنے کردار سے عوام پر حکومت کرتے ہیں۔ پھر یہ نہیں ہوتا کہ اگر ہم نے کرپشن کی ہے تو کیا ہوا دوسروں نے بھی تو کی ہے۔
عمران خان کو القادر یونیورسٹی ریفرنس میں 14سال قید 10لاکھ روپے جرمانہ اور ان کی تیسری اہلیہ بیگم بشریٰ بی بی کو 7سال قید اور 5لاکھ جرمانے کی سزائیں سنا دی گئیں۔ حکمران جب خواہشات کا اسیر ہو جائے تو پھر عالم یہ ہوتا ہے
قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں
ٹرمپ کی آمد پر رہائی کا بیانیہ اور چینلز پر بریت کی خبریں چلوانے کے باوجود ”تیس جناں نوں قید بول گئی” نے سارا منظر نامہ بدل دیا۔ 190ملین پاونڈزکی کہانی ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اور بحریہ ٹاؤن کے مابین زمین کے تبادلہ سے شروع ہو ئی۔ سپریم کورٹ نے ڈیل کو خلافِ قانون قرار دے کر بحریہ ٹاؤن پر 460ارب روپے جرمانہ عائد کیا اور ساڑھے سات برس میں قسطوں میں ادائی کا حکم دیا۔ اس کے لیے سپریم کورٹ کے زیرنگرانی نیشنل بینک میں خصوصی اکاؤنٹ کھولا گیا۔ دسمبر 2018ء میںاین سی اے (برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی) نے ملک ریاض کے کچھ اکاؤنٹس بے قاعدگی پر منجمد کر دیے۔ ایک سمجھوتے کے تحت مزید عدالتی کارروائی کے بغیر 190ملین پاؤنڈز اسٹیٹ کو منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ رقم اسٹیٹ بینک اکاؤنٹ میں آنی چاہیے تھی لیکن مشیر احتساب شہزاد اکبر کی معرفت ملک ریاض سے معاہدے کے تحت یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آئی۔ منی لانڈرنگ اور غیرقانونی پکڑا گیا سرمایہ اقوام متحدہ کے قانون کے تحت متعلقہ شخصںکو نہیںریاست کو واپس کیا جاتا ہے۔ فرد کو واپسی کا مطلب تو یہ ہے کہ کوئی جرم ہی سرزد نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ ایک رقم جو حکومت پاکستان کی ملکیت تھی کیسے عدالت اور فرد کے درمیان جرمانے کے معاملے کو نمٹانے کیلئے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی؟ مفادِ باہمی کی خفیہ یادداشت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ایک اور واردات یہ کی گئی کہ عمران خان کی زیر صدارت کابینہ اجلاس میں شہزاد اکبر نے 190ملین پاؤنڈز قضیے کے حوالے سے ایک بند لفافہ لہرایا۔ کچھ وزراء نے مندرجات دیکھے بغیر اس کی منظوری پر سوالات اٹھائے تو وزیراعظم نے اعتراض مسترد کردیا، وزرا خاموش ہوگئے، یہی خاموشی لفافہ ایجنڈے کی توثیق ٹھہری۔
جنوری 2020ء میں تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں بحریہ ٹاؤن نے 485کنال سے زائد زمین وزیراعظم عمران خان کے دستِ راست زلفی بخاری کے نام کر دی۔ راتوں رات القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ بھی رجسٹر کرایا گیا۔ جنوری 2021ء میں یہ زمین چارٹر سٹیوں عمران خان، بشریٰ بی بی، زلفی بخاری اور بابر اعوان پر مشتمل ٹرسٹ کے نام منتقل ہوگئی۔ چار ماہ بعد ٹرسٹ چیئرمین عمران خان نے متعلقہ اتھارٹی کو خط لکھ کر بابراعوان اور زلفی بخاری کو ٹرسٹ سے خارج کردیا۔ یوں زمین سمیت ٹرسٹ کے سارے اثاثے عمران خان اور بشری کی ملکیت بن گئے۔ پھر ٹرسٹ ایکٹ 1882ء میں ترمیم کے بعداسلام آباد ٹرسٹ ایکٹ2020ء نافذ کر دیا گیا۔ حیران کن امر یہ ہے کہ خود ‘القادر ٹرسٹ’ کو نئے قانون کے تحت بھی رجسٹر نہ کرایا گیا اور آٹھ ماہ بعد قانوناً ‘القادر ٹرسٹ’ ختم ہو گیا۔ اِس کی ساری زمین اور اثاثے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے ذاتی تصرف میں آ گئے۔ جولائی اور اکتوبر 2021ء میں بحریہ ٹاؤن مالکان نے بنی گالہ کے قریب 245کنال قیمتی اراضی بشریٰ بی بی کی دوست فرح شہزادی کے نام منتقل کی۔ بحریہ ٹاؤن انتظامیہ اور بشریٰ بی بی نے ایک اور معاہدہ کے تحت ‘القادریونیورسٹی’ کی تعمیر، فرنیچر، دیگر ساز وسامان اور عملے کی تنخواہوں سمیت تمام اخراجات کی ذمہ داری بحریہ ٹاؤن نے اٹھائی۔
اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، سابق سپیکر اسد قیصر اور دوسرے رہنما اس فیصلے کو سیرت النبی پڑھانے کی سزاقرار دے رہے ہیں۔ سیاست میں اوئے توئے اور مذہبی ٹچ کو عمران نے بام عروج پر پہنچایا۔ ان کی تیسری اہلیہ کا بھی چند برس قبل ایک بیان شائع ہوا تھا کہ ”مجھے خواب میں نبی کریم نے حکم دیا کہ موجودہ شوہر سے طلاق لے کر عمران خان سے شادی کرلو۔” شدید ردعمل آنے پر بشریٰ بیگم نے کہا ”یہ بیان غلط طور پر مجھ سے منسوب کیا گیا۔” خود عمران ماضی میں تواتر کے ساتھ کہتے رہے کہ ”میں جن حالات سے گزر رہا ہوں ان میں مجھے ایسا لگتا ہے کہ اللہ مجھے پیغمبروں کی طرح تیار کر رہا ہے۔” یہ حوالہ جات ثابت کرتے ہیں کہ دین فروشی میں عمران، ان کی پارٹی اور عقیدت مندوں کا کوئی بھی مقابلہ نہیں۔ اب بدعنوانی کے مقدمے کے فیصلے کو سیرت النبی پڑھانے کی سزا قرار دینا ”عقیدت مندوں” کے مذہبی جذبات ابھارنے کے سوا کیا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے ملک ریاض کوفائدہ نہیں پہنچایا تو پھر سینکڑوں ایکڑ اراضی، نقد رقوم، ہیرے جواہرات اور دوسری عنایات عمران اور بشریٰ بی پر کیوں ہوئیں؟
2018ء کے انتخابات میں عمران خان کو مسیحا بنا کر وزارتِ عظمیٰ کے سنگھاسن پر بٹھایا گیا۔ اس کے بعد انتقام کی آندھی چلتی رہی اور بے چارے عوام نے تبدیلی کے مزے یوں لوٹے کہ بھاویں رل گئے آں، پر چس بڑی آئی اے کے بول زباں زد عام ہو گئے۔
القادر ٹرسٹ کیلئے زمین کی فراہمی اور پھر تعمیرات سے پتہ چل جاتا ہے کہ سیرت النبی پڑھانے پر سزا نہیں ہوئی بلکہ ریاست کا پیسہ فرد کے جرمانے کی ادائی کیلئے عدالتی اکاؤنٹ میں منتقل کیے جانے پرسزا ہوئی۔ عمران خان اور ان کے حامی آج بھی مخالف سیاستدانوں کو چور ڈاکو لٹیرے سمجھتے ہیں، اب عمران خان بھی انہی سیاست دانوں کی صف میں آن کھڑے ہوئے ہیں۔ عمران خان جب ماضی میں مخالفین کو کرپٹ چور ڈاکو کہہ کر گریبان سے پکڑ کر گھسیٹنے اور مونچھوں سے پکڑ کر لٹکانے کی باتیں کیا کرتے تھے تو محب وطن حلقے اس وقت بھی کہتے تھے کہ نفرتوں کی سیاست انہیں بھی وہیں پہنچا دے گی جہاں وہ مخالفین کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔
اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے
مگر وجود کا میرے بھی اعتراف کرے
خان بھرپور عدالتی کارروائی کے نتیجے میں سرٹیفائیڈ کرپٹ ثابت ہو چکے۔ ایسا نہیں ہوا ہے کہ مقدمہ پاناما کا ہو اور سزا بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر دی جائے۔ پہلے وزرائے اعظم پر بھی الزامات لگے مگر 190ملین پاؤنڈز جیسے ٹھوس اور ناقابلِ تردید شواہد کسی مقدمے میں نہیں تھے۔ دوسروں کو چور، ڈاکو، لٹیرے، منی لانڈر، کرپٹ اور عوام دشمن قرار دینے والے عمران خان صرف ایک مقدمے میں بے نقاب ہوگئے۔ سونے اور ہیرے کی انگوٹھیوں کی پس پردہ داستانیں الگ ہیں۔ اس سزا کے بعد عمران خان کیلئے اگلا پل صراط 9مئی کا مقدمہ ہے۔
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
کوئی ان کی مدد کو آتا ہے جیسا کہ غلغلہ بپا ہے یا اغماض ہی تحریک انصاف کا مقدر ہے!
