اردو زبان کا فروغ ملکی ترقی کا ضامن (ضیاء الرحمن ضیاء)

پاکستان میں زبان کا مسئلہ ہمیشہ ایک پیچیدہ موضوع رہا ہے، خاص طور پر تعلیم کے شعبے میں جہاں انگریزی اور اردو کے درمیان کشمکش جاری ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہی انگریزی کو تعلیمی اداروں میں ذریعہ تعلیم اور سرکاری زبان کے طور پر اپنایا گیا ہے، جس نے ملک کی تعلیمی، ثقافتی، اور سماجی سطح پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ایک طرف انگریزی زبان نے عالمی سطح پر پاکستان کے ساتھ روابط کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، تو دوسری طرف یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ اس نے ہمارے تعلیمی نظام کی بنیاد کو متاثر کیا ہے اور ملک کے اندر طبقاتی تفریق کو بڑھایا ہے۔
انگریزی زبان کو سرکاری اور تعلیمی زبان کے طور پر اپنانے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ زبان ہمارے عوام کی اکثریت کی مادری زبان نہیں ہے۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں رہنے والے بیشتر لوگ انگریزی سے ناآشنا ہیں اور وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اردو یا مقامی زبانوں کا استعمال کرتے ہیں۔ جب ان لوگوں کو انگریزی میں تعلیم دی جاتی ہے تو وہ تعلیمی مواد کو سمجھنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ صرف کتابی علم حاصل کرتے ہیں اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں کمی آتی ہے۔ انگریزی میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ نہ صرف اس زبان کے پیچیدہ ڈھانچے سے پریشان ہوتے ہیں بلکہ اس کے سبب انہیں حقیقی زندگی کے مسائل کے حل میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب طلبہ انگریزی میں پڑھتے ہیں تو ان کی ذہنی سطح اس زبان کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے میں وقت لگتا ہے، جس سے ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
اس کے برعکس جب طلبہ کو ان کی مادری یا قومی زبان یعنی اردو میں تعلیم دی جاتی ہے، تو وہ بہتر طریقے سے مضمون کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اردو ایک ایسی زبان ہے جو زیادہ تر پاکستانی عوام کے لیے آسان ہے اور وہ اسے روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے اردو میں تعلیم حاصل کرنے سے طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں زیادہ نکھرتی ہیں۔ جب وہ اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں تو ان کے لیے نئے تصورات کو سمجھنا اور ان پر سوچنا زیادہ آسان ہوتا ہے، جس سے ان کی تعلیمی کارکردگی میں بہتری آتی ہے۔
پاکستان میں انگریزی کو تعلیم کا ذریعہ بنانے کا ایک اور نقصان یہ ہے کہ اس نے معاشرتی سطح پر طبقاتی تفریق کو بڑھایا ہے۔ انگریزی زبان بولنے والے افراد کو معاشرتی سطح پر زیادہ قابل اور کامیاب سمجھا جاتا ہے، جبکہ وہ لوگ جو انگریزی نہیں بول سکتے، انہیں کمزور اور غیر تعلیم یافتہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک طبقاتی فرق پیدا ہوتا ہے جس کی بنا پر معاشرتی تعلقات میں دراڑ آتی ہے اور لوگوں کے درمیان احساس کمتری بڑھتا ہے۔ یہ طبقاتی فرق اس قدر گہرا ہو چکا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی ادارے اور دفاتر انگریزی بولنے والے افراد کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے وہ لوگ جو انگریزی نہیں بول پاتے، ان کے لیے زندگی کے کئی دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ انگریزی کو فوقیت دینے سے نہ صرف ایک زبان کی اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس کے ذریعے ایک مخصوص طبقے کی طاقت اور رسوخ کو بھی تسلیم کیا جاتا ہے، جو ملک میں موجود حقیقی مساوات کے اصولوں کے خلاف ہے۔
اردو کو بطور ذریعہ تعلیم اور دفتری زبان اپنانے سے نہ صرف تعلیمی نظام میں بہتری آ سکتی ہے بلکہ اس سے پاکستان کی ثقافت اور معاشرتی تانے بانے کو بھی فروغ ملے گا۔ اردو ہماری قومی زبان ہے اور اس کا استعمال ہمیں اپنی شناخت سے جڑے رہنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ جب طلبہ کو اپنی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے تو وہ اپنے نظریات کو بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں اور اس پر زیادہ مفصل طور پر غور کرتے ہیں۔ اردو میں تعلیم دینے سے نہ صرف طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ یہ ان کے اندر خود اعتمادی بھی پیدا کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں طلبہ اپنے آپ کو زیادہ بااختیار محسوس کرتے ہیں اور اپنی سوچ کو زیادہ موثر طریقے سے پیش کرتے ہیں۔
اردو کو سرکاری سطح پر دفتری زبان کے طور پر اپنانے سے بھی ملک کے اندر ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ جب اردو کو سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کیا جائے گا تو سرکاری دفاتر اور اداروں میں عوام کی رسائی میں آسانی ہو گی۔ اس کے ساتھ ہی عوام کے ساتھ حکومت کے تعلقات میں بھی بہتری آئے گی کیونکہ عوام کی اکثریت اردو بولتی ہے اس لیے وہ اپنے مسائل کو بہتر طریقے سے بیان کر سکیں گے۔ اس سے عوامی سطح پر حکومت کے بارے میں ایک مثبت تاثر قائم ہوگا اور عوامی خدمات کی فراہمی میں بہتری آئے گی۔ اردو کو سرکاری زبان بنانے سے مقامی سطح پر حکومتی اداروں کے بارے میں عوام کا اعتماد بھی بڑھے گا، کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ حکومت ان کی زبان میں بات کر رہی ہے اور ان کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اردو کا فروغ ایک ایسے معاشرتی ہم آہنگی کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جس کی پاکستان کو ضرورت ہے۔ پاکستان ایک متنوع ملک ہے جہاں مختلف زبانیں اور ثقافتیں موجود ہیںاور اردو وہ واحد زبان ہے جو تمام پاکستانیوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اگر اردو کو سرکاری اور تعلیمی زبان کے طور پر اپنایا جائے تو اس سے تمام طبقوں کے درمیان ایک مشترکہ پلیٹ فارم پیدا ہوگا جس سے پاکستان میں قومی یکجہتی کو فروغ ملے گا۔ اس کے نتیجے میں مختلف لسانی گروہوں کے درمیان رابطے اور ہم آہنگی بڑھے گی اور پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کی مزید بہتر شناخت قائم ہو گی۔اردو کے استعمال سے نہ صرف تعلیمی اور دفتری نظام میں بہتری آ سکتی ہے بلکہ اس سے پاکستانی معاشرے میں ایک نیا جذبہ بھی پیدا ہوگا۔ جب لوگ اپنی زبان میں بات کریں گے اور اپنے مسائل اپنی زبان میں حل کریں گے تو وہ اپنے آپ کو زیادہ خودمختار اور بااختیار محسوس کریں گے۔ اس کے علاوہ، اردو میں تعلیم اور دفتری معاملات کا فروغ ملک کی معیشت کے لیے بھی فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ جب عوام کو ان کی زبان میں سہولت فراہم کی جائے گی تو وہ اقتصادی طور پر مضبوط ہوں گے اور قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے کہ اردو کو سرکاری اور تعلیمی زبان بنانے سے ملک کی ترقی میں مزید تیزی آ سکتی ہے، حکومت کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ ایک ایسا تعلیمی نظام جو اردو پر مبنی ہو، نہ صرف تعلیمی معیار میں بہتری لائے گا بلکہ قومی یکجہتی، ثقافتی ورثے کے تحفظ، اور معاشی ترقی کے لیے بھی اہم ثابت ہوگا۔ پاکستان کی ترقی کا راز اس میں ہے کہ ہم اپنی زبانوں اور ثقافتوں کو پہچانیں اور ان کا احترام کریںاور اردو کو وہ مقام دیں جس کی وہ مستحق ہے۔