تیسری قسط:
جناب اقبال اختر صاحب کوپن ہیگن ڈنمارک کے اہلِ قلم اور شعرا میں سینئر ترین ہیں۔ بہت اچھے شاعر بہت ہنس مکھ اور خلیق شخصیت اور بہت نرم خو۔ کوپن ہیگن کی چھوٹی سی ادبی برادری میں لوگ ویسے ہی بہت کم ہیں اور وہ بھی کچھ ٹکڑیوں میں بٹ جائیں تو اور بھی کم لگتے ہیں۔ ایسے میں جناب اقبال اختر جیسے صلح جو لوگ انہیں جوڑے رکھتے اور نئے لوگوں کو ادبی زندگی کی لہروں میں شامل کرتے رہتے ہیں۔ میں اقبال اختر سے ایک بار پہلے لاہور میں مل چکا تھا، اس لیے اجنبیت نہیں تھی، چنانچہ جب ان کا فون آیا کہ تیار ہو جائیے میں آپ کو لینے آرہا ہوں تو یہ دوستوں سے اور کوپن ہیگن سے بیک وقت ملنے کا بہترین موقع تھا۔ وہ پہلے ہی کچھ دوستوں کو میری آمد سے مطلع کر چکے تھے۔ ایک خوبصورت راستے پر چھتنار سایوں سے ڈھکے ایک گھر کے سامنے رکے تو ایک خوش رو خوش لباس نوجوان باہر نکلا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے میرا ایک شعر پڑھا اور مجھے حیران کر دیا۔ کسی اجنبی ملک میں اپنا شعر کسی نئے آدمی سے سن کر کیا خوشی ہوتی ہے اندازہ کر لیجیے۔ یہ نوجوان کامران اقبال اعظم تھا۔ بنیادی طور پر لاہور سے تعلق رکھنے والا کامران عمدہ شاعر اور سخن شناس ہے۔ میں اس سے پہلی بار ملا لیکن اس کی اپنائیت سے لگتا تھا کہ ہم بہت پہلے سے شناسا ہیں۔ گاڑی چلتی اور رکتی گئی۔ دوست شامل ہوتے گئے اور جلد ہی ایک چھوٹی سی ٹولی بن گئی۔ جناب صفدر آغا پاکستان اور جناب ابو طالب بھارت سے تعلق رکھتے ہیں۔ جلد ہی کوپن ہیگن کے مرکزی بازار میں ہم سب دوست ٹہل رہے تھے اور مزے کی گپ شپ جاری تھی۔ ان دوستوں میں اکثر سے یہ میرا پہلا تعارف تھا اور یہ جان کر خوشی ہو رہی تھی کہ یہاں بھی اچھے لکھنے پڑھنے والے موجود ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ فاصلے کے باوجود یہ سب دوست اردو شعر و ادب بالخصوص پاکستان میں تخلیق ہونے والے ادب سے جڑے ہوئے ہیں اور ان تک کتابیں اور تخلیقات پہنچتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ اس حلقے کی باقاعدہ نشستیں منعقد ہوتی رہتی ہیں اور جدید شعری رجحانات پر گفتگو ہوتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کا میری شاعری سے بھی غائبانہ تعارف تھا۔
لگ بھگ دن کے ساڑھے گیارہ بجے اس ٹولی نے کافی کیلئے ایک کیفے میں محفل جمائی۔ میں ڈنمارک میں پاکستانی برادری اور ادبی حلقوں کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ ان احباب سے بہت قیمتی معلومات ملیں۔ ڈنمارک کی زیادہ پاکستانی آبادی کوپن ہیگن ہی میں مرتکز ہے۔ کچھ پاکستانی آرہس اور اوڈینسے میں بھی ہیں۔ کوپن ہیگن میں لگ بھگ 30 ہزار پاکستانی ہیں۔ ایک نسل تو وہ ہے جو ترکِ وطن کرکے یہاں آباد ہوئی اور ایک بڑی تعداد وہ ہے جو ڈنمارک ہی میں پیدا ہوئی اور اب یہاں کے شہری ہیں۔ ان کے علاوہ ایک تعداد وہ بھی ہے جو تلاشِ معاش میں کبھی ایک اور کبھی دوسرے ملک کی طرف منتقل ہوتی رہتی ہے۔ پاکستانی تارکین وطن ڈنمارک میں غیرمغربی ملک سے آباد ہونے والی چوتھی بڑی کمیونٹی ہیں۔ 1970 میں یہاں پاکستان سے روزگار کی تلاش میں پاکستانیوں کی آمد کا آغاز ہوا جو ڈنمارک اور ناروے میں آباد ہونا شروع ہوئے۔ ایک زمانے سے یہاں مقیم ہونے کے باعث یہ پاکستانی سیاسی سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں بھرپور طریقے سے حصہ لیتے رہتے ہیں۔ بھارتی تارکین وطن کم ہیں لگ بھگ 10 ہزار کے قریب۔ یہ بات بھی علم میں آئی کہ افریقی آباد کاروں کے بعد جرائم میں زیادہ تناسب پاکستانی اور بھارتی تارکین وطن کا ہے۔
دوپہر کی کھِلتی دھوپ میں ہم ایک ٹورسٹ اسٹریٹ پر کھڑے تھے۔ یہاں گاڑیوں کی اجازت نہیں تھی۔ جیو میٹریکل ڈیزائن کی ٹف ٹائلز والی یہ سڑک دائیں بائیں دکانوں اور سیاحوں سے بھری ہوئی تھی۔ سڑک پر دونوں طرف وہی خاص یورپی طرزِ تعمیرکی عمارتیں تھیں جن میں برآمدے کے بعد دکانوں کی قطاریں موجود ہوتی ہیں۔ بڑے بڑے شورومز جن میں جدید ترین فیشن کے تھری پیس سوٹ میچنگ ٹائی کے ساتھ شیشوں کے پیچھے اپنی طرف بلاتے تھے۔ بڑے بڑے امریکی یورپی برانڈز سے جگمگاتے شوروم اور دکانیں جن میں لکڑی اور پلاسٹک کے پتلوں نے جیکٹیں اور پوشاکیں پہن رکھی تھیں۔ ہم ذرا آگے بڑھے اور ایک بڑے چوک پر نکل آئے۔ چوک میں ایک طرف چمکیلا زرق برق نیلا لباس پہنے ایک بازی گر آلتی پالتی مارے ہوا میں معلق تھا۔ اس کے جسم کا کوئی حصہ زمین کو نہیں چھوتا تھا۔ صرف ایک چھڑی تھی جو اس نے زمین پر ٹیکی ہوئی تھی۔ اس کے سامنے زمین پر ایک کپڑا تھا جس پر لوگ اس کے فن کی داد کیلئے سکے پھینک جاتے تھے۔
یہی چھڑی اس کی باز ی گری کا اصل راز تھا کہ اس سے جڑی مگر لباس میں ایک چھپی ہوئی سیٹ تھی جس پر بازی گر بیٹھا تھا لیکن لگتا تھا کہ ہوا میں معلق ہے۔ اس سے کچھ فاصلے پر ہیٹ پہنے ایک باریش ادھیڑ عمر آدمی وائلن پر دھنیں بکھیرتا تھا۔ لوگ اس کے کاسے میں بھی سکے ڈال جاتے تھے۔ چوک کے بیچ ایک دائرے میں حوض تھا اور اس کے بیچ ایک راج ہنس کی چونچ سے پانی کا فوارہ پھوٹتا تھا۔ یہ تمام سیاحوں کا علاقہ تھا اور میں نے حیرت سے دیکھا کہ چوک میں ایک طرف دو چار بگھیاں کھڑی تھیں جن میں پوشاکوں والے سفید گھوڑے جتے تھے۔ انہی کے ساتھ چند سائیکل رکشہ تھے جن پر سیاح بیٹھتے تھے۔ سائیکل رکشہ کو یونیفارم پہنے ایک گورا کھینچتا تھا۔ گورے اور گھوڑے دونوں کا ایک ہی کام تھا، سیاحوں کو اس لمبی سڑک کی سیر کرانا۔ گورا اور گھوڑا دونوں تنومند تھے لیکن یہ منظر مجھے کھینچ کر بھارت میں دہلی آگرہ لکھنو میں لے گیا جہاں پتلی سی دھوتی اور بنیان پہنے انسان سائیکل رکشا کھینچتے تھے۔ ان کی پسلیاں صاف نظر آتی تھیں اور چڑھائی پر چڑھتے ان کا سانس دھونکنی کی طرح چلتا تھا۔ دونوں مناظر میں سائیکل رکشا تھے لیکن ایک سراسر سیاحت اور دوسرا سراسر مشقت۔
یہ سڑک بہت لمبی تھی اور اس پر چہل قدمی خود ایک تفریح تھی۔ ہم باتیں کرتے تصویریں کھینچتے دائیں بائیں دکانوں میں جھانکتے چلتے رہے۔ چہل قدمی کی گرمی میں سرد ہوا رخساروں کو چھوتی تو انگارے سے دہکنے لگتے تھے۔ چلتے چلتے پنڈلیوں کی مچھلیاں پھڑکنے لگیں تو دائیں طرف وہ ریسٹورنٹ آگیا جس کیلئے میزبان یہاں لائے تھے۔ دوستوں نے بتایا کہ ڈونر کباب یورپ میں یہاں اس ریسٹورنٹ سے شروع ہوا تھا اور پھر سارے یورپ میں پھیل گیا۔ یہ تاریخی طعام گاہ ہے اور دور دور سے سیاح یہاں آتے ہیں۔ میں حیران ہوا اس لیے کہ میرے خیال میں ڈونر کباب تو ترکوں کی مرغوب ترین اور انہی کی متعارف کرائی ہوئی ڈش تھی۔ خیر اب اس تحقیق میں کون پڑے۔ ایک تو طعام گاہ پھر تاریخی اور تیسری پیدل چلنے سے لگ جانے والی بھوک۔ ان تینوں نے دھکیل کر ہمیں اس کی بالائی منزل پر پہنچا دیا جہاں سڑک کی طرف والی ایک میز پر اب ہم اپنے کھانے کا انتظار کرتے تھے۔ تازہ سلاد گائے کے گوشت کے پتلے پتلے لمبے ٹکڑوں روٹی اور چٹنی نے اس دوپہر وہ مزہ فراہم کیا جو مانوس بھی تھا اور اب مدت سے اجنبی بھی۔
خمارِ گندم کی طرح خمارِ گوشت بھی تو ایک حقیقت ہے۔ پیٹ بھرا ہو اور تھکن بھی ہو تو نیند کیسے نہ آنے لگے لیکن یہ ریسٹورنٹ تھا اٹھ کر جانا ہی تھا اور اب ہماری منزل اس جل پری سے ملاقات تھی جو کوپن ہیگن کے ساحل پر ایک چٹان پر بیٹھی نجانے کب سے کسی کا انتظا رکر رہی ہے۔ میں نے تو جل پری سے اس زمانے میں ملاقات شروع کی تھی جب وہ بچوں کی کہانیوں میں پہلی بار ملی تھی۔ نصف عورت اور نصف مچھلی کا یہ وجود عجیب مسحور کن پیکر تھا۔ اداس خد و خال لمبے سنہرے بالوں اور حسین سریلی آواز والی جل پری ساتویں جماعت کے بچے کی ایک زمانے سے دوست تھی۔ یہ تو بہت بعد میں سنا کہ ایک جل پری لاہور سے ہزاروں میل فاصلے پر کوپن ہیگن کے ساحل پر چٹان پر بیٹھی کسی کا انتظار کرتی ہے۔ کیا یہ وہی جل پری ہے جس سے غائبانہ دوستی تھی؟ سعود میاںغائبانہ دوستی شاید ملاقات والی دوستی سے زیادہ مضبوط اور دیرپا ہوا کرتی ہے۔
