صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیا کرنے جارہے ہیں؟ (عامر خاکوانی)

نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بطور صدر حلف اٹھانے سے پہلے ہی دنیا بھر میں ان کے حوالے سے بہت کچھ ایسا پھیل چکا ہے جسے ایک لحاظ سے رعب، ہیبت یا دہشت سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے۔ اسے صدر ٹرمپ کی کامیابی قرار دے سکتے ہیں کہ ان کے آنے سے پہلے ہی نہ صرف بہت سی توقعات وابستہ ہو چکی ہیں بلکہ ہر ایک کو لگتا ہے کہ ٹرمپ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں، ان کے حلف اٹھانے سے پہلے ہی کینیڈا، پاناما اور گرین لینڈ کے بارے میں ان کے بیانات نے ایک تہلکہ مچا دیا ہے۔ گرین لینڈ پر قبضہ کرنے کے اشارے نے تو یورپ کو ہلا کر رکھ دیا، ڈنمارک اپنی جگہ پریشان ہے جبکہ دیگر یورپی ممالک بھی یہی سوچ رہے کہ کہیں صدر ٹرمپ ایسا کرگزرے تو کیا ردعمل دیں۔
”یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں”، ایک ایسی بات ہے جو صدر ٹرمپ کے حق میں چلی گئی ہے۔ ان کے پچھلے دور صدارت میں ایک امریکی ماہر کا تجزیہ پڑھا، اس کا کہنا تھا کہ یہ تاثر شاید صدر ٹرمپ نے دانستہ پیدا کیا ہے اور اس کا وہ کئی بار فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین اور کئی غیرملکی سربراہان حکومت تک اس سے الرٹ اور خبردار رہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کسی بھی وقت، کچھ بھی انہونا، انوکھا اور غیر معمولی کر سکتے ہیں۔ امریکا میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے پہلے سو دنوں میں کیا اہم فیصلے اور اقدامات کریں گے۔ امریکا میں کسی بھی صدر کے پہلے سو دنوں کو ایک بیرومیٹر سمجھا جاتا ہے، جس سے اس کی صدارت کے ایجنڈے کا تعین ہوتا ہے۔ امریکا میں صدر ایف ڈی روزویلٹ (1933) کے دور میں پہلی بار ان سو دنوں کی اہمیت اجاگر ہوئی جب صدر روزویلٹ نے یکے بعد دیگرے متعدد اہم اعلانات اور اقدامات کیے۔ تب سے ہر امریکی صدر کے پہلے سو دن (تقریباً ساڑھے تین ماہ)کے عرصہ پر نظر رکھی جاتی ہے۔
صدر ٹرمپ جب پہلی بار منتخب ہوئے تھے تو انہوں نے ابتدائی دنوں میں 33 ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیے، یہ تب بہت زیادہ سمجھے گئے اور صدر ٹرومین کے بعد طویل عرصہ کے دوران کسی نے ایسا نہیں کیا تھا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ صدر ٹرمپ نے تب بعض مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکا جانے کی پابندی لگائی تھی، امیگرینٹس کے خلاف آرڈرز جاری کیے تھے، بارڈرز پر سختی بڑھا دی تھی وغیرہ وغیرہ۔ اس پر بڑی مخالفت ہوئی اور قانونی جنگ بھی لڑی گئی، بعد میں امریکی عدالتوں نے بعض صدارتی احکامات کے خلاف فیصلے بھی دیے۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ ٹرمپ کے بعد آنے والے جوبائیڈن نے پہلے سو دنوں میں 42 ایگزیکٹیو آرڈرز جاری کیے اور دلچسپ بات ہے کہ ان میں زیادہ تر ٹرمپ کے احکامات کی تنسیخ کے تھے، ٹریول بین ہٹایا گیا اور اسی طرح بعض دیگر فیصلے۔ یاد رہے کہ بش سینیئر اور بش جونئیر نے اپنے پہلے سو دنوں میں صرف 11 ایگزیکٹیو آرڈرز جاری کیے جبکہ صدر اوباما کے معاملے میں یہ تعداد 18 رہی۔ اس بار صدر ٹرمپ حلف اٹھانے کے بعد دفتر میں اپنے پہلے دن سو کے قریب ایگزیکٹیو آرڈرز جاری کیے۔ یہ ایک غیر متوقع، دلچسپ اور بہت سوں کے لیے ڈرا دینے والا منظرنامہ ہے۔ ان میں بڑے پیمانے پر ملک بدر کرنے (ڈی پورٹیشن)پروگرام کا آغاز، سرحد کو بند کرنا اور سفری پابندیاں دوبارہ لگانا، بائیڈن دور کی الیکٹرک گاڑیوں کے مراعات کو ختم کرنا، ملکی تیل کی کھدائی کو تیز کرنا، 6 جنوری کے کیپٹل ہل پر حملے کے ملزمان کو معافی دینا، ٹرمپ کے اپنے مبینہ جرائم کی معافی، جنس (جینڈر) کی تصدیق کرنے والی دیکھ بھال کے تحفظات کو ختم کرنا اور ووک اسکولوں کے لیے فنڈنگ میں کٹوتی کرنا شامل ہیں۔
امریکا میں مختلف اداروں کے سروے کے مطابق تین چوتھائی سے زیادہ (اسی پچاسی فیصد) امریکی عوام چاہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ امریکی معیشت بہتر کریں، آمدنی میں اضافہ ہو، گیس (پیٹرول) اور دیگر گراسری آئٹمز کی قیمتیں نیچے جبکہ روزمرہ اخراجات کم ہوں۔ صدر ٹرمپ بھی یقینی طور پر ایسا چاہیں گے مگر ایسا کرنا آسان نہیں۔ خود ٹرمپ نے اپنے انتخابی جلسوں اور انٹرویوز میں کہا کہ میں قیمتیں نیچے لانا چاہوں گا، مگر یہ آسان نہیں، جو چیز ایک بار مہنگی ہوجائے اسے نیچے لانا مشکل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود صدر ٹرمپ کو کچھ نہ کچھ تو ضرور کرنا ہوگا، پیٹرول سمیت دیگر چیزوں کی قیمتوں میں چاہے معمولی کمی کی جائے جبکہ انفرادی ٹیکسز میں کچھ ریلیف وغیرہ دینا جیسے قدم اٹھانا ہی پڑے گا۔ ان سے یہ بھی توقع کی جا رہی ہے کہ وہ محصولات اور ٹیکس کٹوتیوں پر اقدامات کریں گے، ایسی پالیسیاں جن سے بقول ٹرمپ ملکی روزگار میں اضافہ ہوگا اور یہ عام آدمی کے روزمرہ خرچوں کو کم کر دیں گے۔
اصل ہدف مگر امیگرنٹس (تارکین وطن) ہوں گے، خاص کر وہ جو غیرقانونی طور پر امریکا میں رہ رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے بڑے پیمانے پر ڈی پورٹیشن احکامات جاری ہو جائیں گے۔ پہلے مرحلے پر امریکا میں غیرقانونی طور پر رہنے والے وہ لوگ ڈی پورٹ ہوجائیں گے جن پر کسی بھی قسم کے کریمنل چارجز ہیں۔ امریکی ماہرین یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ معیشت یکایک بہتر کرنا مشکل ہے جبکہ امیگرنٹس سے نمٹنے کے لیے صدر کے پاس زیادہ ایگزیکٹیو اختیارات ہیں جبکہ سینٹ اور ہاس میں ری پبلکن اکثریت کے باعث وہ کوئی بھی نیا قانون آسانی سے منظور کرا سکتے ہیں۔ اس لیے یقینی طور پر امریکا میں رہنے والے غیر قانونی تارکین وطن کے لیے آنے والے دن بہت مشکل اور کٹھن ہو سکتے ہیں۔ ان میں میکسیکو اور دیگر ممالک کے ساتھ جنوبی ایشیا کے پاکستانی، انڈینز، بنگالی وغیرہ بھی شامل ہوں گے۔
روایتی طور پر امریکا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ امریکی کہلاتا ہے، اسے برتھ رائٹ سٹیزن شپ کہتے ہیں، ٹرمپ نے اسے بھی ختم کردیا ہے تاہم بہت سی ریاستوں نے اسے اپنانے سے انکار کردیا ہے۔ ٹرمپ نے الیکشن جیتنے کے بعد گلوبل اکانومی کو لرزا دینے والا یہ تہلکہ خیز اعلان کیا تھا کہ وہ میکسیکو اور کینیڈا سے آنے والی ہر پراڈکٹ پر فلیٹ 25 فیصد ٹیرف لگا دیں گے جبکہ چین سے درآمد شدہ پراڈکٹس پر پہلے سے لگائی گئی لیوی میں 10 فیصد اضافہ ہوگا۔ پچھلے دو تین ہفتوں سے دنیا بھر کے معیشت دان اسی اعلان کے تناظر میں حساب کتاب کر رہے ہیں۔ اگر ایسا کیا گیا تو کینیڈا اور میکسیکو دونوں کی برآمدات کو شدید دھچکہ لگے گا۔ یاد رہے کہ یہ دونوں امریکا کے دو سب سے بڑے ٹریڈنگ پارٹنر ہیں۔ یہ دونوں ممالک جوابی طو رپر امریکی مصنوعات پر ویسا ہی ٹیرف لگانے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ امریکا میں مختلف ماہرین اور بڑی کمپنیوں کے مالکان خبردار کر رہے ہیں کہ اگر اتنی بڑی ڈیوٹی لگائی گئی تو امریکا میں بہت سی چیزیں زیادہ مہنگی ہوجائیں گی، انڈسٹری کو بھی نقصان پہنچے گا اور افراط زر اور مہنگائی جو پہلے ہی زیادہ ہے، مزید اوپر چلی جائے گی۔ تاہم صدر ٹرمپ پر ایسی باتیں شاید زیادہ اثر نہیں کرتیں۔
ٹرمپ نے بِرکس ممالک کو بھی دھمکی دی ہے کہ انہوں نے امریکی کرنسی (ڈالر) کو نقصان پہنچانے کی معمولی سی کوشش بھی کی تو امریکا میں آنے والی ان کی پراڈکٹس پر 100 فیصد ڈیوٹی عائد کر دوں گا۔ پاکستان گو برکس ممالک میں شامل نہیں مگر بہرحال پاکستانی ایکسپورٹس کا بڑا حصہ (کئی بلین ڈالرز) امریکا کو جاتا ہے، اگر پاکستانی پراڈکٹس پر بھی اضافی ڈیوٹی لگائی گئی تو ہماری ایکسپورٹس بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔ وہ پہلو ہے جو ہمارے ہاں دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے غیر ملکی جنگوں کا معاملہ ہے۔ صدر ٹرمپ یقینی طور پر یوکرین روس جنگ ختم کرا دیں گے۔ ٹرمپ کے پوتن کے ساتھ اچھے مراسم رہے ہیں، اندازہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی صدارت کے ابتدائی دنوں ہی میں یہ جنگ رکوانے کی کوشش کریں گے۔ بائیڈن انتظامیہ نے یوکرین کو خاصی بڑی امداد دی تھی، تاہم ٹرمپ ایسے موڈ میں نہیں۔ وہ امریکی مدد ایسے کسی بھی ملک کو لٹانے کے حق میں نہیں۔ یوکرین روس جنگ ختم ہوگئی تو امکانات ہیں کہ آئل، گیس پرائسز کچھ کم ہو جائیں، اس کا پاکستان میں صارفین کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ غزہ میں جنگ بندی بنیادی طور پر ٹرمپ کا انیشیٹیو تھی، اس پر عملدرآمد بھی ان کی حکومت ہی کرائے گی۔ ٹرمپ کے ایجنڈے میں خاصا کچھ مقامی ہے، وہ امریکی حکومت کے اخراجات گھٹانے کی کوشش کریں گے، اس مقصد کے لیے ایلون مسک سے استفادہ کیا جائے گا۔ بہت سے امریکیوں کو توقع ہے کہ مقامی امریکیوں کی معیشت بہتر بنانے کے لیے بہت سے سکل بیس ٹریننگ پروگرام شروع ہوں گے، نئی جابز نکالی جائیں گی اور جدید اکانومی کے بدلتے رجحانات کی طرف نوجوانوں کو لے جایا جائے گا۔ ٹرمپ کو ایلون مسک جیسے وژنری کی خدمات حاصل ہیں جو آوٹ آف باکس سوچ سکتے ہیں۔
یہ آرٹیکل پڑھنے والے کئی قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے لیے کیا کرے گی؟ سردست تو ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا۔ پاکستان شاید اتنے جوگا نہیں کہ ٹرمپ کی ترجیحی سو اقدامات کی فہرست میں آ سکے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ افغانستان کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کی کسی پالیسی کے پیش نظر پاکستان پر بھی نظر کرم پڑ جائے یا چین کو گھیرنے کے کسی منصوبے کے تحت پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا فیصلہ ہو۔ تحریک انصاف کے حامی توقع کر رہے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ عمران خان کے حوالے سے کچھ نرم رویہ اپنائے گی اور وہ پاکستان پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔ بظاہر ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا، مگر جیسا کہ اوپر بھی ذکر ہوا کہ صدر ٹرمپ کا سب سے طاقتور پہلو یہ ہے کہ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ کسی روز اچانک عمران خان کے حوالے سے کوئی پوسٹ اگر آ جائے تو ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے۔ ایسا ہوا تو پھر اس کے مضمرات اوراثرات گہرے ہوں گے کیونکہ ان کی اب ایک خاص اہمیت ہوگی۔