ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کا آغاز

امریکا میں ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے اور امریکا کے 47ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے فوراً بعد امیگریشن، ماحولیات اور ٹک ٹاک سے لے کر متعدد شعبوں سے متعلق ایگزیکٹو حکم نامے اور ہدایت نامے جاری کر دیے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کا باقاعدہ مکین بنتے ہی ٹرمپ نے اپنے نئے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بہت سی ایگزیکٹو سمریوں، صدارتی یادداشتوں اور پالیسی ترجیحات سے متعلق درجنوں حکم ناموں پر دستخط کیے ہیں۔ انھوں نے چند مجرمانہ گروہوں کو دہشت گرد تنظیم نامزد قرار دیا ہے اور ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کے امریکا میں پیدا ہونے والے بچوں کو حاصل شہریت کے حق سے متعلق حکم نامے پر بھی دستخط کیے ہیں۔ ٹرمپ نے ایک ایسے حکم نامے پر بھی دستخط کیے ہیں جس کے تحت چار ماہ کے لیے امریکی پناہ گزینوں کی آباد کاری کے پروگرام کو معطل کیا گیا ہے، ٹرمپ کے دستخط کردہ ایک اور ایگزیکٹو آرڈر میں امریکی فوج کو ملک کی ‘سرحدیں سیل کرنے’ کا حکم دیا ہے۔
امریکا کے صدر کا منصب نہ صرف پچاس ریاستوں پر مشتمل پینتیس کروڑ کی آبادی کے حامل ملک کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ تمام ترعالمی بدنامی اور معاشی بحرانوں اور متعدد محاذووں پرعسکری ناکامیوں کے باوجود امریکا آج بھی دنیا کی واحد سپر پاور کہلاتا ہے۔امریکی دار الحکومت واشنگٹن کے قصر سفید میں ہونے والا کوئی بھی فیصلہ پوری دنیا کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر کے منصب کے ساتھ حدود و قیود، رکھ رکھاؤ اور اعتدال و توازن کا ایک خاص معیار وابستہ کیا جاتا ہے اور ماضی میں امریکی صدر کے منصب کے عہدیداروں کی شخصیت کو مخصوص چھان پھٹک اور ہمہ جہت جانچ پڑتال کے بہت سے مراحل سے گزرنے کے بعد ہی صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شریک ہونے کی گنجائش ملتی تھی۔ امریکی معاشرے کے اعتبار سے بہت معمولی سمجھی جانے والی اخلاقی غلطیاں اور کوتاہیاں بھی وہائٹ ہاؤس کے مکین کے لیے ناروا سمجھی جاتی تھیں اور کئی صدور کو ایسی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے۔ مگر نائن الیون کے بعد کی دنیا میں امریکا کو جہاں دیگر بہت سے شعبوں میں زوال ،انحطاط اور تغیر کا سامنا کرنا پڑا،وہیں امریکی سیاست بھی تعصبات کی نئی آلائشوں سے پاک نہ رہ سکی۔ مثلاًبارک اوباما کو امریکی سیاست میں اچانک شہرت و مقبولیت صرف اس بنا پر ملی کہ انہوں نے نائن الیون کے بعد بحیثیت سینیٹر کے یہ بیان دیا تھا کہ امریکا کو مسلمانوں کے مرکز خانہ کعبہ پر حملہ کردینا چاہیے۔ ایک مسلمان باپ کی طرف منسوب افریقی نژاد شخص کا یہ بیان امریکیوں کو اتنا بھایا (دیگر عوامل کے علاوہ) کہ انہوں نے باراک اوباما کو امریکی صدارت کے منصب پر پہنچادیا۔ مسٹر اوباما جب امریکا کے صدر بنے تو عراق اور افغانستان دونوں محاذوں پر امریکا کو ہزیمت کا سامنا تھا۔ پھر 2008 ء کی عالمگیر معاشی کساد بازاری نے امریکا اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو جنگوں کے اخراجات سے متعلق پریشانی میں مبتلا کردیا تھا۔ چنانچہ باراک اوباما نے پہلے عراق سے اپنی فوجیں نکالیں اور پھر افغانستان میں بھی نوشتۂ دیوار پڑھ کر پہلی بار طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا ڈول ڈالا۔
مسٹر اوباما کی اس پالیسی پر سب سے زیادہ تنقید جس امریکی سیاست دان نے کی اس کا نام ڈونلڈ ٹرمپ تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہاں تک کہنا شروع کردیا کہ باراک اوباما نہ صرف یہ کہ امریکی شہری نہیں ہیں بلکہ یہ کہ وہ مسلمان بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ٹرمپ نے نائن الیون کے واقعات کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد کرکے امریکا میں مسلمانوں اور افریقی باشندوں کے داخلے پر پابندی کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ یہیں سے ان کی شہرت کو پر لگ گئے اور باوجود اس کے کہ جب انہوں نے ری پبلکن پارٹی کا صدارتی امیدوار بننے کا اعلان کیا تھا تو بہت سے لوگوں نے اسے مذاق سمجھا تھا، ایک دن ایسا آیا جب تمام اخلاقی جرائم کے حوالے سے بدنام ( اور اب سرٹیفائیڈ مجرم) ڈونلڈ ٹرمپ تمام سنجیدہ اورشائستہ امیدواروں کو پچھاڑتا ہوا پہلے ری پبلکن پارٹی کا امیدوار اور پھر امریکا کا 45 واں صدر منتخب ہوگیا۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں تھا کہ اس نے امریکیوں کے نسلی و مذہبی تعصب کو برانگیختہ کیا، اس کے لیے انہوں نے اپنی اربوں ڈالرز کی موروثی و ذاتی دولت کی تجوریاں کھول کر بھرپور پروپیگنڈا مہم چلائی ،صہیونی لابی کو اپنی پشت پر لیا اور امریکیوں کو یہ خواب بھی دکھایا کہ وہ افغان جنگ جیت کر دیں گے۔ مگر اپنے پہلے دور صدارت میں انہیں اندازہ ہوگیا کہ افغانستان میں پانی کتنا گہرا ہے۔ چنانچہ انہوں نے افغانستان سے ”باعزت فرار” کو ہی غنیمت جانا اور جولائی 2021ء میں دوحہ مذاکرات کے ذریعے افغانستان دوبارہ طالبان کے حوالے کرکے وہاں سے اپنی فوجیں نکالنے کا اعلان کیا۔
اپنے متلون مزاج کے باعث پہلے دور صدارت میں ڈونلڈ ٹرمپ متعدد داخلی تنازعات میں الجھ گئے، انہوں نے ریاستی اداروں کے ساتھ جنگ کی اور اس کے نتیجے میں 2020ء کے انتخابات میں انہیں شکست ہوگئی اور جو بائیڈن امریکی صدر بن گئے۔یہ شاید امریکیوں کی بدقسمتی تھی کہ ضعیف العمر بائیڈن امریکا کی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھال نہ سکے اور غزہ اور یوکرین کی جنگ میں ان کی ڈانواڈول پالیسی نے ان کی ناکامی کا تاثر پختہ کردیا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر میدان میں آگئے اور وہ امریکیوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ امریکی معیشت کوسہارا دینے کے لیے غیر ملکی تارکین وطن ( جن میں بیشتر مسلمان ہیں) کو نکالنا، پڑوسی ممالک کینیڈا وغیرہ کے وسائل پر قبضہ کرنے، چینی مصنوعات پر پابندیاں لگانا وغیرہ ناگزیر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے عالمی ماحولیات کے تحفظ کے لیے گرین گیسز کا اخراج کرنے والی صنعتوں پر پابندیاں لگانے کے معاہدے پر عمل کے مطالبے کے جواب میں صحت کی عالمی تنظیم سے ہی علیحدہ ہونے کا عمل شروع کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ابتدائی حکم ناموں میں سے ایک کے ذریعے خلیجِ میکسیکو کا نام تبدیل کر کے خلیجِ امریکا کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے پاناما کینال پر قبضہ کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے بارے میں بھی ان کے عزائم خطرناک ہیں۔ یہ تمام اعلانات آتے ہی عالمی برادری کے ساتھ اعلان جنگ کرنے کے مترادف ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عالمی برادری اس پر کیا ردعمل دیتی ہے؟ کیا دنیا ایک نئے خطرناک دور میں داخل ہوگئی ہے؟