تلوار کی کاٹ مشہور ہے اگر دو دھاری ہو تو کیا کہنے، تلوار انسان کی کمزور جسمانی قوت کو بڑھا کر مخفی توانائی کو حرکی توانائی میں بدلتی ہے۔ تلوار کی تیزی وارکارگر بناتی ہے۔ تلوار خربوزے پر گرے یا خربوزہ تلوار پر نقصان خربوزے کا ہی ہوتا ہے یعنی کمزور طاقتور کے آگے بے بس ہی رہتا ہے۔ یہی عالم زبان کا ہے، زبان تلوار نہیں لیکن اس سے زیادہ تیز ہے۔ الفاظ کا وار تلوار سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ ٹرمپ کی زبان بھی دو دھاری ہے جسے ہتھیار بناکر انہوں نے کئی معرکے سر کیے۔ اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور مخالفت کے باوجود وہ دوسری بار وائٹ ہاؤس پہنچ چکے ہیں
سیف ا نداز بیاں بات بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی انہوں نے دشمنوں اور دوستوں کی فہرست کے اجرا سے بتا دیا کہ دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے، ٹرمپ نئی پالیسیوں کے ساتھ اقتدار میں آ رہے ہیں، جس نے دنیا کے کئی خطوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ ٹرمپ کی دوستی اور دشمنی معاشی مفاد کی بنیاد پر ہوگی۔ انہوں نے جنگوں کے خاتمے کے نام پر اقتدار حاصل کیا۔ اقتدار سنبھالنے سے پہلے اسرائیل اور غزہ کے حوالے سے ان کی زبانی دھمکی نے سیز فائر کی راہ ہموار کر دی۔ اب یوکرین بھی شاید امریکی امداد حاصل نہ کر سکے۔ نیٹو کے متعلق ان کا موقف ہے کہ یورپ کے دفاع پر امریکا کیوں پیسے خرچ کرے؟ امریکا کی حیثیت چودھری کی ہے اور چودھری پیسے لے، نہ کہ اپنی چودھراہٹ کیلئے دوسروں کو پیسے دے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ٹرمپ کے شخصی خاکے پر بھی نظر ڈال لیں۔ قد چھ فٹ تین انچ، عمر 78 برس، نسلاً جرمن، مذہباً پروٹسٹنٹ، رہائش نیویارک، تعلیم یونیورسٹی آف پنسلوینیا سے گریجویشن، معاشقے لاتعداد، شادیاں 3، طلاقیں 2، بچے 5، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں 7، ذاتی دولت 6 ارب ڈالر، اچھے کھانوں کے شوقین، این بی سی کے مقبول رئیلٹی شو اپرینٹس کے 12برس تک اینکر۔ بنیادی وجہ شہرت والد کا ورثہ رئیل اسٹیٹ کاروبار، کئی کاروباری شعبوں میں اپنی انویسٹمنٹ۔ ماڈل مینجمنٹ کے تحت 1995 سے مس یونیورس اور مس یو ایس اے مقابلوں کا بھی انعقاد بھی کروا رہے ہیں۔ ٹرمپ کی سیاسی شہرت (2011 ) کی بنیاد اوباما کی امریکی شہریت چیلنج کرنا بنی۔ اوباما نے جواباً ریاست ہوائی کا برتھ سرٹیفکیٹ پیش کیا تو پینترا بدل کر کہا خدا جانتا ہے کہ یہ نقلی ہے یا اصلی۔ ان کے66 فیصد حامی یہ یقین رکھتے ہیں کہ اوباما نہ صرف غیر ملکی بلکہ مسلمان بھی ہیں۔
امریکی صدارتی امیدواروں کو انتخابی مہم کے لیے چندوں اور اسپانسر شپ کی ضرورت ہوتی ہے مگر ارب پتی ٹرمپ کو چندے کی حاجت نہیں رہی، سونے پہ سہاگا کے مصداق دنیا کے امیر ترین ایلون مسک بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ ٹرمپ شیخ سعدی شیرازی کے کہے کے مطابق عمر عزیز کے 40سال کے بعد بھی ”مزاج توازحال طفلی نہ گشت” تمہارا طفلانہ مزاج نہیں بدلا۔ 78برس کے ٹرمپ مزاج طفلانہ کے تحت جو منہ میں آئے بلاجھجک کہہ ڈالتے ہیں۔
نہ ہول آتا ہے مجھ کو، نہ دب کے رہتا ہوں
میں اپنی بات خود اپنی زباں میں کہتا ہوں
ٹرمپ خواتین کے بارے میں الٹی سیدھی ہانکنے سے بالکل نہیں ہچکچاتے ۔جب ہیلری صدارتی امیدوار تھیں تب انہوں نے ٹویٹ کیا جو اپنے شوہر کو مطمئن نہ کر سکے وہ امریکا کو کیا مطمئن کرے گی۔ ان کے دیگر کچھ ملفوظات کچھ یوں ہیں:” میرا اور دیگر امیدواروں کا فرق یہ ہے کہ میں زیادہ ایمان دار اور میرے ساتھ متعلق خواتین زیادہ حسین ہیں۔ ایک افسوس ہے کہ ڈیانا کو راغب نہیں کر سکا۔ مجھے پسند کرو یا ناپسند مگر ٹرمپ جو چاہتا ہے حاصل کر لیتا ہے۔ زندگی میں ہر شے قسمت سے جڑی ہے، میری ایک خوبی یہ بھی ہے کہ میں امیر ہوں۔ میں بے وقوف نہیں خاصا اسمارٹ ہوں۔ میں نے ہمیشہ سخت فیصلے کیے اور نتائج پر بھی نظر رکھی۔ وقت آگیا ہے کہ امریکی نظام کاروبار کی طرح چلایا جائے۔ جمی کارٹر بیگ خود اٹھاتے۔ وہ شریف تھے۔ ہمیں ایسا صدر چاہیے جو باہر نکل کے سرین پہ ٹھڈا مار کر جیتے نہ کہ انڈر وئیرز سے بھرا بیگ اٹھائے۔ سست روی سیاہ فاموں کا وصف ہے۔ وہ میری دولت گنتے ہیں اور اس عادت سے مجھے نفرت ہے۔”
ٹرمپ عام امریکی کی سلامتی اور معاشی احساسِ عدم تحفظ کو ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ٹرمپ نے امریکیوں کو اوئے توئے اسٹائل کی سیاست سے متعارف کروا کر ان کی بڑھک باز سرشت کو ابھارا۔ امریکا میں ہسپانوی نژاد ووٹرز کی بڑی تعداد کے باوجود ٹرمپ یہ کہتے ہیں کہ میکسیکو سے امریکا آنے والے غیر قانونی لوگوں کی اکثریت منشیات کی عادی، جرائم پیشہ اور ریپسٹ پر مشتمل ہے۔ ٹرمپ پڑوسی ممالک کے لیے بھی قہر بننے کے موڈ میں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کینیڈا ہمارے ساتھ ضم ہو کر گریٹ امریکا بن جائے ورنہ اسے بھری دنیا میں کون تحفظ دے گا۔ ٹرمپ میکسیکو کو غربت کی وجہ سے امریکا کا حصہ نہیں بنانا چاہتے۔ ان کی نئی پالیسی میں غریب کی کوئی جگہ نہیں۔ وہ پاناما کینال اور گرین لینڈ پر قبضے کی بات کرکے سامراجی سوچ کا اظہار کرتے ہوئے نہیں ہچکچائے۔
مسلمان امریکی ووٹ بینک کا 8 فیصد ہیں مگر ٹرمپ کا کہنا ہے جب تک مسلمانوں کے بارے میں ہم یہ طے نہیں کر لیتے کہ وہ کس قماش کے لوگ ہیں تب تک ان کے امریکا داخلے پر پابندی ہونی چاہیے۔ ان کا یہ انٹرویو ریکارڈ پر ہے کہ امریکا میں مسلمان ایک مسئلہ ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ ٹاور تباہ کرنے والے سویڈن سے تو نہیں آئے تھے۔
ٹرمپ کو حریف سمجھتے ہیں۔انہوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ چین معیشت کے تحفظ کے لیے غیر ملکی خصوصاً چینی مصنوعات پر ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ اس ضمن میں ان کا بیان ہے کہ میں پوری زندگی لالچی رہا لیکن اب میں اپنے نہیں بلکہ امریکا کے لیے دولت جمع کرنے کا لالچی ہوں۔ ٹرمپ کا خبط عظمت ملاحظہ ہو کہ: ہماری خارجہ پالیسی ایسی ہونی چاہیے کہ دوسرے انتظار ہی میں رہیں کہ امریکا کا اگلا قدم کیا ہوگا۔
حیران کن امر یہ ہے کہ امریکی ووٹروں کے ہر غیر سفید فام حصے اور خواتین کو ناراض کرنے کے باوجود وائٹ امریکن نے انہیں صدارت تک پہنچایا۔ ٹرمپ کی معاشی جنگ میں دشمنوں سے زیادہ دوست نشانے پر ہیں، ان کی امریکا کی ڈیپ اسٹیٹ سے لڑائی ہے۔ اس کی مزاحمت کے باوجود اقتدار میں آئے۔ ٹرمپ کے پاس ڈیپ اسٹیٹ سے ہمہ وقت حالت جنگ میں رہتے ہوئے غلطی کی گنجائش نہیں ہوگی۔ بادی النظر میں جن ممالک کا امریکا سے کوئی معاشی مفاد وابستہ نہیں ان پر ٹرمپ کی توجہ کم ہوگی۔ اس وقت پاکستان بھی ان ملکوں میں سے ہے۔ اسرائیل ٹرمپ کی توجہ کا بہرصورت مرکز ہوگا۔ گریٹر اسرائیل کا نقشہ گردش میں ہے، گریٹر اسرائیل کے لیے انھوں نے پہلے دور میں بھی عربوں کو ”ابراھیمی معاہدہ” کے تحت اسرائیل کی قبولیت پر مجبورکیا تھا جسے وہ مزید آگے بڑھا ئیں گے۔ شام سے بشار رجیم کا خاتمہ ہو چکا، ایران کی باری ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے لوگ ایرانی رجیم چینج کے لیے پیرس میں مخالفین سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ نئی پالیسی کے تحت افغان طالبان کے ڈالر بند ہونے کا امکان ہے۔ یہ دونوں ایجنڈے (طالبان کے ڈالرز اور ایرانی رجیم چینج) پاکستان کے مفاد میں ہیں۔ ٹرمپ کے ان اقدامات سے بلوچستان میں عسکریت پسندوں پر دباؤ بڑھنے سے پاکستان کے لیے آسانی پیدا ہونے کا امکان ہو سکتا ہے۔ امریکا سے کوئی امداد یا فنڈز نہ لینے کی وجہ سے پاکستان ٹرمپ کی پالیسی میں کہیں نہیں۔
